ٹرمپ کی افغان پالیسی۔۔۔ عمیر فاروق

بالاخر کافی عرصہ انتظار کے بعد ٹرمپ کا افغان پالیسی بیان سامنے آ ہی گیا اور یہ اس کے بالکل برعکس تھا جو ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں اس بارے میں کہتا رہا۔تفصیلی بیان سب کے سامنے آچکا ہے۔ سوال ہے اس کے مضمرات، بین السطور اشاروں، اس پالیسی کے قابل عمل ہونے اور اس کے نتائج کا۔جہاں تک پاکستان سے ڈومور کے تقاضے کا تعلق ہے اس کا وقت بھی گذر چکا اور پاکستان مزید یہ سننے کے موڈ میں بھی نہیں۔ ویسے بھی موجود آپریشن کے بعد ایسے کوئی علاقے موجود ہی نہ ہیں جن پہ کوئی سنجیدہ اعتراض کیا جاسکے۔
اپنے مطالبات منوانے کے لئے امریکہ کے پاس کولیشن سپورٹ فنڈ یا دیگر کو منقطع کرنے کی دھمکی کا آپشن بھی موجود نہیں، کیونکہ نہ تو کوئی ایسے فنڈز پائپ لائن میں موجود ہیں اور نہ کسی نئے کو جاری کرنے کا امریکہ متحمل ہوسکتا ہے۔ عملی صورت حال یہ ہے کہ اب معاشی میدان میں بھی پاکستان کو امریکہ کی خاص ضرورت نہ ہے۔دباؤ ڈالنے کے لئے دوسرا آپشن سفارتی یا میڈیا پریشر کا ہوسکتا ہے لیکن موجودہ آپریشن کے بعد سے اس بارے میں بھی حالات بہت بدل چکے ہیں۔ محفوظ پناہ گاہوں کا روایتی ڈھول پیٹنا آسان ہے لیکن انگلی رکھ کے بتانا ممکن نہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا ردعمل فوری اور تیز آیا اور اس نے افغان امن عمل سے علیحدہ ہونے کی دھمکی دے دی۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ اس پالیسی میں لگتا ہے کہ امریکہ نے تمام تر بھارتی موقف کو اپنا لیا ہے۔ انڈیا افغانستان میں امن کے لئے کسی قسم کے مذاکرات کے خلاف تھا اور اس کا فوجی حل ہی واحد حل تصور کرتا تھا۔ اور یہی سوچ امریکی جرنیلوں کی بھی تھی جنہوں نے شائد اس پالیسی کو مرتب کرنے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔لگ یہ رہا ہے کہ مودی اور ٹرمپ کی ملاقاتوں میں اس پالیسی کے خدوخال طے کئے گئے اور تمام تر پالیسی انڈین موقف کے گرد گھومتی ہے۔ اس کے مخاطب پاکستان کے علاوہ افغانستان اور انڈیا بھی ہیں۔ ٹرمپ نے یہ واضح کردیا ہے کہ اس کا افغانستان میں جمہوریت یا قومی تعمیر نو وغیرہ سے کچھ لینا دینا نہیں، بلکہ اس کا مقصد صرف دہشت گردی یا مخالف طاقتوں کو ختم کرنا ہے۔ افغانستان کو بتادیا گیا ہے کہ اسے اپنی انتظامیہ دفاع و دیگر مسائل پہ خود توجہ دینا ہوگی اور ساتھ ہی دلچسپ طور پہ بھارت کو امریکہ کے ساتھ اس کا تجارتی منافع یاد دلا کے یہ بتایا گیا ہے کہ اسے اس امر میں امریکہ کی مدد کرنا ہوگی۔اگر یہ پالیسی انڈیا کے ساتھ مکمل مشورہ سے طے کی گئی ہے، اور جیسا کہ لگ رہا ہے کہ کی گئی ہے، تو ٹرمپ نے ایک طرف تو افغانستان میں انڈین بیانیہ اور حل کو مکمل طور پہ تسلیم کرلیا ہے اور دوسری جانب اس حل کو کامیاب بنانے میں انڈیا پہ اس کے حصے کی ذمہ داری بھی عائد کردی گئی ہے۔

یہ ایک ایسا نقطہ ہے جو ابھی تک نظرانداز ہورہا ہے لیکن آگے چل کے اس کا کافی اہم رول ہوگا انڈیا کو اس کی مالی ذمہ داری یاد کرانا معنی خیز ہے۔قابل غور امر یہ ہے کہ یہ پالیسی جو فوجی حل کی طرف اشارہ کرتی ہے پہ کون اور کیسے عمل کرے گا۔ یہ درست ہے کہ ٹرمپ نے فوجوں کی تعداد میں اضافہ کا عندیہ ضرور دیا ہے لیکن امریکی فوجوں کی تعداد شائد ہی بیس ہزار تک بڑھائی جاسکے۔ مزید اضافہ کے لئے سپلائی لائن کا مسئلہ بھی درپیش ہوگا جو پاکستان کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں، اور پوزیشن یہ ہے کہ پاکستان ابھی سے عدم تعاون کی دھمکی دے چکا ہے جبکہ چین نے اسی دن اور اگلے دن روس نے بھی اس پالیسی پہ اعتراضات اٹھادیے اور پاکستان کا ساتھ دیتے نظر آئے۔ سوائے دہلی اور کابل کے کسی دارالحکومت کی طرف سے خیرمقدمی بیان سامنے نہیں آیا۔یہ ساری صورتحال ۲۰۰۸ کی یاد دلاتی ہے جب امریکہ کی سر توڑ کوشش تھی کہ انڈیا اس سے تعاون کے لئے افغانستان میں فوجیں بھیجے اور انڈیا اس دلدل میں اترنے سے انکاری تھا۔ یہی صورتحال اب بھی پیدا ہوگی۔ پاکستان پہ اب پہلے کی طرح دباؤ ڈالنا ممکن نہیں اور افغان طالبان کی حمایت ایران اور روس کی طرف سے بھی ہورہی ہے۔ پاکستان اپنے حصے کا کام کرچکا ہے وہ زیادہ سے زیادہ افغان بارڈر کو سختی سے بند کرنے کی طرف مائل ہوگا جو امریکہ کے مسائل میں اضافہ ہی کرے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ پچھلے دنوں افغان مغربی صوبے فراح میں طالبان کے ہونے والے حملے کے پیچھے ایران کا ہاتھ بتایا گیا ۔یاد رہے کہ افغان فوج وہاں پسپا ہوگئی تھی اور امریکی ایئر سٹرائیک نے ان کا راستہ روکا ۔آدھے کے قریب علاقہ پہلے ہی افغان حکومت کے قبضہ سے باہر ہے۔ طالبان کے ساتھ ساتھ داعش کی موجودگی بھی ہے۔ صورتحال پہلے ہی اتنی پیچیدہ تھی کہ افغان طالبان کو معاہدہ صلح میں یہ خوف بھی لاحق تھا کہ انکے سخت مزاج جنگجو گروپس کہیں اس صورت میں بغاوت کرکے داعش کے ساتھ شامل نہ ہوجائیں اس صورت حال میں فوجی حل کا سوچنے سے پہلے یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ مطلوبہ فوج کون سا ملک مہیا کرے گا؟
ایسی ہی صورت حال ماضی میں ۲۰۰۸ کے قریب درپیش ہوئی تھی تو اوبامہ انتظامیہ نے ایک لمبا راستہ اختیار کرتے ہوئے مذاکرات اور پاکستان کو انگیج کرنے کی راہ اختیار کی تھی لیکن موجود پالیسی پہلے ہی پاکستان کو علیحدہ کررہی ہے۔ جلد یا بدیر خود انڈیا اور ٹرمپ انتظامیہ میں اختلافات پیدا ہونگے کہ کس نے کونسی ذمہ داری پوری کرنی ہے تب تک افغان مسئلہ اندھی گلی کا ہی سفر کرتا نظر آتا ہے۔المختصر موجودہ پالیسی پہلے بھی آزمائی جاچکی ہے اور موجودہ حالات میں پہلے سے بھی مایوس کن نتائج پیدا کرے گی۔ ٹرمپ انتظامیہ کو جلد ہی اس مسئلہ پہ نئے سرے سے سوچنے کی ضرورت پڑے گی اور پاکستان کو تب تک انتظار کرو اور دیکھو کی پالیسی اپنانی ہوگی ایک خاص حد تک عدم تعاون کے رویہ کے ساتھ۔

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply