یہ کتاب امن کا خواب دیکھنے والی آنکھوں کے لیے ایک نایاب تحفہ ہے ۔یہ ایک ایسی ادبی قوسِ قزاح ہے کہ جس میں امن و آشتی اور انسانی بھائی چارےکاہر رنگ اور امنگ شامل ہے ۔یہ انسانی خیالات کا ایک ایسا انسائیکلو پیڈیا ہے جو کہ دانائی ،فلسفہ،روح،روحانیت،سائنس،روحانی واردات اور میتھالوجیکل تصورات کو جانچنے،کریدنے اور پرکھنے کی راہوں کی نشاندہی کرتا ہے ۔یہ علم و حکمت اور دانائی کو کھوجنے والے دو طالبوں کے درمیان ادبی خطوط کی صورت میں ایک علمی مقالمہ ہے ۔یہ دو نوں درویش اپنی زندگی کے تجربات کو ایک منفرد میں انداز میں پیش کرتے ہیں تاکہ امن و آشتی کے یہ خواب نامے موجودہ یا نئی آنے والی نسلوں کی بصیرتوں کو جلا بخشے اور پیار و محبت کی یہ شمع مسلسل یونہی جلتی رہے ۔
اس موجودہ کتاب کی صورت میں امن کی شمع جلانے والوں کا نام “ڈاکٹر خالد سہیل اور ڈاکٹر کامران احمد”ہیں۔یہ دونوں درویش انسانی نفسیات کو سمجھنے اور جانچنے کا ایک وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور دماغ پر پڑی ہوئی حالات و واقعات کی گرد کو ہٹا کر حقیقی شخصیت کودریافت کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ڈاکٹر خالد سہیل سے میری آشنائی کافی پرانی ہے جبکہ ڈاکٹر کامران احمد کو two candles of peace پڑھنے کے بعد میں نے دریافت کیا ہے اور ان کو تصوف اور طریقت کا ایک سچا طالب پایا ہے ۔دونوں کے خیالات میں ایک ایسا تسلسل اور بہاو ہے جو اس پوری کتاب کو پڑھنےپرمجبور کر دیتا ہے ۔دونوں دماغی گھمبیر تاوں کو بڑی گہرائی سے جانتے اور سمجھتے ہیں اسی لیے انہوں نے اس کتاب میں بھی زیادہ تر انہی نکات پر سیر حاصل گفتگو کی ہے جس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ انتشار کا شکار ہے۔
اس نایاب کتاب میں مذہبی اور سیاسی بنیاد پرستی ،روحانی اقدار کی پامالی اور مذہب کا پس منظر واضح انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔دونوں مصنفین نے ان گنجلک موضوعات پر اپنے اعلیٰ تجربات اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ان پیچیدہ مسائل کی وجوہات اور ان کا حل بھی پیش کیا ہے، دونوں شخصیات نے اپنے خیالات اور تصورات کو بڑی دیانتداری اور سہل انداز میں پیش کیا ہے ۔ڈاکٹر کامران احمد نے اپنے پہلے تعارفی خط میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ خیالات کھلے ماحول میں اور آپس میں ڈائیلاگ کی صورت میں پروان چڑھتے ہیں نا کہ بالکل الگ تھلگ ہوکر۔
ڈاکٹر خالد سہیل نے اپنے پہلے خط کا آغاز ایک اعتراف کے ساتھ کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ “میری زندگی کاوہ ایک دور تھا کہ جب میرے دل میں بہت غصہ اور ناراضگی ،تشدد اور نفرت والے احساسات کا غلبہ ہوتا تھا ایک لمبے عرصے کے غور وخوض کے بعد مجھے یہ معلوم ہوا کہ یہ سارے تشددپسندانہ خیالات میرے اپنے ماحول نے مجھے دیے ہیں اور مجھے اپنی نفرت کو محبت میں بدلنے ،تشدد کو امن میں بدلنے اور اپنے جنونانہ خیالات کو امن و آشتی اور انسانی بھائی چارہ میں بدلنے کے لیے ایک لمبا عرصہ لگ گیا “یہ نایاب کتاب اسی حکیمانہ انداز میں اور ادبی خطوط کے تبادلہ کی صورت میں آگے بڑھتی ہے۔ایک خط میں ڈاکٹر سہیل چند ان سوالوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جنہوں نے انہیں ایک آرٹسٹ ،انسان دوست اور سائیکو تھیراپسٹ بننے کی طرف راہ ہموار کی ۔وہ سوالات یہ ہیں
1.دنیا میں اتنے زیادہ دکھ اور پریشانیاں کیوں ہیں؟
2.ہم انسانی دکھوں میں کمی اور انسانی خوشیوں کو کیسے بڑھا سکتے ہیں؟
3.ہم ایک مکمل انسان کیسے بن سکتے ہیں؟
4.ہم مل کر ایک پرامن معاشرہ کیسے قائم کر سکتے ہیں ؟
اپنے ایک خط میں ڈاکٹر کامران احمدیہ واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اپنے حصے کے سچ کو پانے کے لیے اپنی زندگی کا کھلی آنکھوں سے جائزہ لیتے رہنا چاہیے اور دوسرے لوگوں کے خیالات کو سمجھنے اور ان کو وسیع القلبی کے ساتھ اپنے دل میں جگہ دینے کا حوصلہ ہونا چاہیے اسی طرح انسانی خیالات پروان چڑھتے ہیں۔یہ کتاب بہت ہی دلچسپ جملوں سے مزین ہے مثلاََ عارف عبدالمتین کا شاندار جملہ جو انہوں نے ڈاکٹر سہیل سے کہا تھا جو کہ بہت ہی پر مغز ہے “Your father is younger in age but older in wisdom ’’آگے چل کر ڈاکٹر سہیل اپنے چند خوابوں کا تذکرہ کرتے ہیں جو انہوں نے بچپن میں دیکھے تھے وہ خواب یہ تھے ۔1.ایک ڈاکٹر اور سائیکاٹرسٹ بننا، 2.ڈھیر ساری کتابیں لکھنا جو کہ اسکی زندگی کی صحیح عکاسی کریں ، 3.دنیا کی سیر وسیاحت کرنا اور مختلف ثقافتوں سے سیکھنا ، 4.دوست احباب کا ایک وسیع سرکل قائم کرنا جس میں ہر رنگ،نسل اور مذہب کے لوگ ہوں۔
ڈاکٹر سہیل خود کو خوش نصیب سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ان خوابوں کی بڑی کامیابی سے تکمیل کی ہےڈاکٹر سہیل ان خطوط میں اپنے چند ادبی دوستوں کا تذکرہ بھی کرتے ہیں جن میں “رفیق سلطان،امیر جعفری،نوروزعارف، سید عظیم اور سائیں سچا کے علاوہ اپنی آلٹر اِیگوظہیر انور ” سے بھی متعارف کرواتے ہیں۔اپنے ایک خط میں ڈاکٹر کامران احمد کرشنا مورتی کا ایک خوبصورت جملہ نقل کرتے ہیں “The moment you follow someone, you cease to follow the truth” ڈاکٹر کامران کے مطابق انسانی دماغ کی وسعت بہت زیادہ ہے اور یہ پانچ حسیات سے آگے بڑھ کر پرواز کر سکتا ہے اور بعض دفعہ ان کیفیات اور محسوسات کو بیان کرنے کے لیے الفاظ بھی نہیں مل پاتے۔یہ دلچسپ اور شاندار کتاب بہت سے انسانی رازوں اور گنجلک کیفیات کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔یہ کتاب ہمیں مختلف ذہنی اور روحانی کیفیات سے متعارف کرواتی ہے مثلاََ
1. Psychotic encounters, 2.mystic encounters, 3.epileptic encounters, 4.peak experiences, 5.religious delusions,
6. Spiritual hallucinations, 7.schizophrenia and bipolar disorder
علم وحکمت کے یہ دونوں درویش رومی ،جوزف کیمبل،بدھا،مہاویرا،کنفیوشس،لاوزو،کرشنا مورتی،چارلزڈارون،کارل مارکس،سگمنڈفرائیڈاور سٹیون ہاکنگ جیسی شخصیات کی تعلیمات سے ہمیں آگاہی دیتے ہیں ۔جوزف کیمبل کی شخصیت کے بارے میں ڈاکٹر سہیل بڑے خوبصورت انداز میں کچھ یوں کہتے ہیں کہ “کیمبل ایک فلسفی ذہن اور درویشانہ دل کے مالک تھے “ڈاکٹر کامران احمد اپنے ایک خط میں اورنگ زیب عالمگیر کی شخصیت کا صحیح رخ دِکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ وہ ظالم آدمی تھا جس نے اقتدار کی خاطر اپنے بھائیوں کو قتل کروایااور اپنے والد کو جیل کی کال کوٹھڑی میں بند کر دیا، یہاں تک کہ وہ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں مَرا۔یہ کتاب بہت ساری تلخ حقیقتوں سے بھی ہمیں متعارف کرواتی ہے ۔یہ شاندار کتاب خطوط کی صورت میں ایک علمی مکالمہ اور ڈائیلاگ ہے۔ان دونوں شخصیات نے انسانی قرب اور دُکھوں کو کافی قریب سے دیکھا ہے اور اپنے تجربات کی روشنی میں ان کا حل اور مداوا کرنے کی کوشش بھی کی ہے ۔میں ڈاکٹر خالد سہیل اور ڈاکٹر کامران احمد کو اس شاہکار کتاب کو تشکیل دینے پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ مزید ادبی تحفے انسانیت کو دیتے رہیں گے ۔4اپریل کو اس کتاب کی تقریب رونمائی ہونا تھی مگر کرونا وائرس کی ہنگامی صورتحال کی وجہ سے اس بات کا غالب امکان موجود ہے کہ شاید یہ تقریب نہ ہو پائے ۔آخر میں ،میں ڈاکٹر خالدسہیل کے ایک خوبصورت جملے کا حوالہ دینا چاہوں گا ۔
“There are as many truths as human beings and as many realities as pairs of eyes in this world”
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں