• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • زوال کے دہانے پر (کورونا وائرس اور سمپسن کارٹو ن کی پیشنگوئیاں)۔۔سلمان اسلم

زوال کے دہانے پر (کورونا وائرس اور سمپسن کارٹو ن کی پیشنگوئیاں)۔۔سلمان اسلم

تاریخ کے اوراق پلٹیں اور آج تک گزرنے والی اقوام کے احوال پڑھیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ قوموں کو آج تک جتنے بھی اور جیسے بھی زوال آئے،  یاعذاب الٰہی نے آگھیرا، اس کا سبب قوموں کی اخلاقی پستی اور اپنے رب کے احکا م سے کھلے عام روگردانی رہی ہے۔ اور پھر اخلاقی گراوٹ جنسی لحاظ سے ہو، معاشرتی معاملات میں ہو، یا معاشی و سیاسی انتظام و انصرا م کی نسبت سے ہو، سب کا انجام کار تباہی کے علاوہ کچھ نہیں نکلا۔ ہمارے سامنے قوم لوط، قوم شعیب، قوم ھو د،اور قوم نوح کی واضح اور بہت بڑی مثالیں موجود ہیں،۔
سورہ بقرہ میں ارشاد ربانی ہے۔ ” اور ہرگز یہود و نصاریٰ تم سے راضی نہ ہونگے جب تک تم ان کے دین کی پیروی نہ کرو۔ تم فرمادو اللہ ہی کی ہدایت ،ہدایت ہے۔ اور اگر تو ان کی خواہشو ں کا پیر و ہوا بعد اسکے کہ تجھے علم آچکا تو اللہ سے تجھے کوئی بچانے والا نہ ہوگا اور نہ مدد گار۔ “ (سورہ بقرہ آیت 120)

اک اور جگہ ارشاد ربانی ہے ۔ ” اے ایمان والو! یہو د و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔ وہ آپس میں اک دوسرے کے دوست ہیں۔ اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہی  میں سے ہے۔ بے شک اللہ بے انصافوں کو راہ نہیں دیتا۔“ (سورہ مائد ہ آیت 51)

اس بات سے تو کسی مسلمان کے ذہن میں کوئی شک نہیں کہ روئے زمین پہ مسلمانوں کے  سب سے بڑے دشمن یہود ہیں ۔ کیونکہ یہودیوں کا ماننا ہے کہ بنی اسرائیل ہی وہ واحد قوم ہے جو سب سے افضل ہے اور عرب (مسلمانوں) کی وجہ سے انکی یہ افضلیت اللہ کے ہاں مسدود ہوئی  جبکہ دراصل وہ انکی اپنی ہی کارستانیا ں اور نا فرمانیاں تھیں۔ انہوں نے شیطان کی معیت اختیار کر لی اور آج اُن میں سے باقاعدہ ایسے گروہ (ایلومیناتی، فری میسن) موجود ہیں جو باقاعدہ شیطان کی پوجا کرتے ہیں۔ اور ان کا یہ ماننا ہے کہ ان کا مسیحا یعنی دجال انکی مدد و نصرت کے لیے آئے گا اور اس کی مدد سے یہودی نہ صرف نجات حاصل کرلیں گے بلکہ وہ اس روئے زمین پہ سب سے افضل قوم بھی کہلائے جائیں گے۔ اسی لیے وہ باقی دنیا میں موجود تمام انسانوں اور بالخصوص مسلمانوں سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک ان تما م لوگوں کو جینے کا کوئی حق نہیں اور نہ ہی ان کی زندگیو ں کا کوئی مقصد ہے سوائے مرنے کے۔ لہٰذا اپنے اس مسیحا کے آنے یا لانے کی تیاری کی خاطر وہ اسرائیل کی سرزمین پہ اک منظم گروہ کی شکل میں نہ صرف اکٹھا ہوئے ہیں بلکہ وہ دنیا کے تمام اقوام میں معاشی، سیاسی اور انتظامی امور میں سب سے زیادہ بااثر اور طاقت ور قوم بھی ہے۔ وہ اپنے ان گھناؤنے عزائم کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے برسوں سے کوشاں ہیں اور طرح طرح کے تجربات اور اقوام کے بیچ پھوٹ ڈال کر ان کو لڑاتے آئے  ہیں جن سے اُ ن اقوام کا نہ صرف امن تباہ ہوا بلکہ انسانی زندگی بھی بھیک مانگتی نظر آرہی ہے۔ ان میں سے عراق، لیبیا اور شام کا حال قابل ذکر ہے۔ اس شیطانی تنظیم نے اپنے ہی طویل المدت منصوبوں اور عزائم کے بارے میں دنیاوالوں کی ذہن سازی کے لیے اک سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ 1987 میں اک مختصر کارٹون Tracey Ullman Show کے نام سے بنیاد رکھی گئی اور فاکس براڈ کاسٹنگ کے توسط سے 17دسمبر 1989 کو کرسمس  سپیشل کے طور پہ آغازکیا۔ اور پھر جنوری 1990 میں یہ باقاعدہ نشر ہونا شروع ہوا۔ سمپسن کارٹون کے بانی Matthew Abraham Groening میتیھو ابراہم گراو ننگ ہے جو اک یہودی زائنیسٹ اور ایلمومیناتی اور فری میسن جیسی شیطانی نیٹ ورک کا اک پکا اور پرانا الہ کار ہے۔ آئیے ذیل میں اسکے مختلف کارٹون سریز میں دکھائی دینے والی چند پیشنگوئیوں پہ نظر ڈالتے ہیں جو 2019،2020میں  کچھ پوری ہوچکی ہیں اورکچھ پوری ہونا باقی ہیں ۔
1۔ 1990 میں میتھیو گراوننگ نے اپنے کارٹون سمپسن میں دکھا یا تھا کہ سمپسن کا بیٹا اک تین آنکھ والی مچھلی پکڑتا ہے جو کہ ساتھ رہنے والے ساحل پہ مچھیرے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیچھے نیوکلئیر پلانٹ کا جو فضلہ یا فاسل مادے کو اسی دریامیں سٹور کیا جاتا ہے یا ڈالا جاتا ہے اور اس دریا میں رہنے والی مچھلی یہی فاسل مادے کھاتی  ہے ۔ اور پھر20سال کے بعد ارجنٹائن میں ٹھیک وہی ہوتا ہے کہ دریا سے تین  آنکھ والی مچھلی پکڑی جاتی ہے۔ جس دریا کے پیچھے نیوکلیئر پلانٹ ہوتا ہے اور اسکے فاسل مادے اسی دریا میں بہتے ہیں اور دریا میں رہنے والی مچھلیاں وہی کھاتی  ہیں۔ کیا ہی تعجب ہے بیس سال پہلے دکھائی جانے والی کارٹونی تصویر بالکل اسی انداز سے حقیقی دنیا میں رونما ہوئی۔

2۔1994 کے سمپسن کارٹون کی  ایک قسط میں اک عورت دکھائی گئی جو کہ سکول میں لنچ فراہم کرتی ہے اور اسی سکول میں کام کرتی ہے جس میں سمپسن کے بچے پڑھتے ہیں۔ وہ عورت بچوں کو گوشت پیش کرتی رہتی ہے اور وہ مزے سے کھاتے جاتے ہیں۔ جس ڈرم سے وہ لیڈی گوشت اٹھاتی ہے اس پہ لکھا ہوتا ہے ہارس میٹ (گھوڑوں کا گوشت) اور پوچھنے پہ بھی وہ آہستہ سے یہی کہتی ہے کہ یہ ہارس میٹ اور اسکے پارٹس ہیں۔ اور پھر دنیا نے بالکل اسی کے موافق صورتحا ل دیکھی، 1999 میں جب آئرلینڈ کے فوڈ اتھارٹی کے گروپ نے ا ک سکول  کے کیفے پہ چھاپہ مارا اور برآمد ہونے  والے گوشت کی رپورٹ کے مطابق گوشت کا ڈی این اے گھوڑے کے ڈی این اے سے میچ کر رہا تھا۔
3۔ اسی طرح امریکہ کے صدارتی انتخابات کو کارٹون میں دکھا یا جاتا ہے کہ ٹرمپ اپنی  صدارتی تقریر دے رہا تھا اور پھر 2016 میں ٹھیک دنیا نے دیکھا کہ ٹرمپ امریکہ کا اگلا صدر منتخب ہوگیا۔

اب یہ کیسا اتفاق جو سمپسن کو اوسطا ًپانچ سال پہلے معلوم ہو جاتا ہے یا پھر یو ں کہے کہ جو سمپسن کو دکھائی دیتا ہے وہ کچھ عرصے بعد من وعن ویسے ہی حقیقت بن کر سامنے آجاتا ہے،مگر کیسے؟

4۔سمپسن کارٹون میں دکھائے جانے والے 2002 میں اک اور  حیرت انگیز  قسط میں اک  تصویر جس میں سعودی کنگ، مصر کے ال سی سی اور ٹرمپ تینوں مشترکہ اک گول بال پہ ہاتھ رکھ کر کسی سمٹ Summit کا افتتاح یا اس بٹن کو ایکٹیو کرتے دکھائے گئے اور   تعجب کی بات کہ 2017 میں دنیا نے من وعن وہی کارٹونی تصویر حقیقت میں دیکھی اور مہا عجوبہ تو یہ کہ کارٹون میں دکھائی  گئی  پوزیشن بھی حقیقت میں ویسی  ہی تھی۔

5۔لیکن ان سب سے بھی بڑی خبر اور عقل کو حیران کردینے والی چیز کہ 1993 میں سمپسن کارٹون میں دکھایا گیا کہ جاپان کے علاقے اوساکہ کی اک فیکٹری میں دو ورکر کسی بیماری کی وجہ سے پارسل بند کرتے وقت کھانستے ہیں اور چھینک سے بیماری کے وائرس اس پارسل میں گر  جاتے ہیں ، پارسل  بند کر کے چائنہ اور پھر امریکہ شپ کیا جاتاہے۔ امریکہ میں پارسل کھولنے پر وہ وائرس باہر نکلے اور سانس کے ذریعے کھولنے والے کو ایفکٹ کرنے لگا اور یو ں یہ بیماری پھیلنے لگتی ہے۔ کارٹون میں خبرنامے کے  سین میں اس کو اوساکہ فلو اور ساتھ میں کرونا وائرس کی بلٹ چلادیتے ہیں۔ اور آج دنیا  کرونا کے نام سے وائر س کا جان لیوا تجربہ دیکھ رہی  ہے، جو چائنہ میں شروع ہوا اور کرتے کرتے دنیا میں پھیلتا گیا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اگر یہ واقعی آسمانی آفت ہے تو پھر اسکی اطلاع یہودی زائنیسٹ اور ایلومیناتی کے پرانے اور اک پکے ممبر کواس آسمانی آفت کا پیشگی علم کیسے ہوا؟ جس کو اس نے اپنے کارٹون میں ظاہر کردیا۔ یہ وہ سوال اور تعجب بھرا نکتہ ہے جو عقل کو حیران اور پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔
(۶)اسی طرح کوبی برانڈ باسکٹ بال کی دنیا کا نامی گرامی اور ورلڈ کلاس کھلاڑی کے ہلاک ہونے کی کلپ بھی سمپسن کے کارٹون سن 2000 میں دکھایا گیا کہ کوبی برانڈ ہیلی کاپٹر لے کر اپنے ہی بلڈنگ سے کریش کرکے ہلاک ہوتاہے۔ اور 2020میں کابی برانڈ کی موت ہیلی کاپٹر کی کریش میں ہی ہوئی۔ ہے نا عجوبے کی بات۔
(۷) 2001 میں تو سمپسن نے اپنے کارٹون میں یہ تک دکھایاتھا کہ شام میں خانہ جنگی شروع ہوگی اور پھر دنیا نے 2012 میں دیکھا اور شام کس حال میں پہنچا وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔
(۸) آنے والے وقتوں میں اک ایچ ڈی ہولوگرام کی ٹیکنالوجی متعارف ہو رہی ہے، جس میں آپ جس سے بات کروگے تو اس ڈیوائس یا ٹیکنالوجی کی مدد سے وہ شخص اپکے سامنے ایچ ڈی ریز کی مدد سے جسمانی طور پر سامنے نظر آئے گا نہ کہ موبائل سکرین میں جیسے کہ اب

Advertisements
julia rana solicitors london

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے سارے اتفاقات اک ساتھ اور بلکل من وعن ہی کیوں ٹھیک ثابت ہو رہی ہیں۔ کیا ان سب باتوں کا علم اسکو کسی غایبانہ مخلوق کی مدد سے پہلے سے ہی بتائے یا دکھائے جاتے ہیں؟ جی نہیں بلکہ سمپسن کارٹون کے بانی Matthew Abraham Groening میتیھو ابراہم گراو ننگ ہے جو اک یہودی زائنیسٹ اور ایلمومیناتی اور فری میسن جیسی شیطانی نیٹ ورک کا اک پکا اور پرانا الہ کار ہے۔ اور یہ فری میسن اور دجالی گروہوں کے منصوبوں کو میڈیا میں فوکس براڈکاسٹنگ جو امریکن ٹیلی ویژن نیٹ ورک ہے کے ذریعے اپنے کارٹون سمپسن نامی سیریز سے دنیا والوں کی ذہن سازی کر رہے ہیں۔ تاکہ جب یہ سب کچھ حقیقت میں رونما ہو تو پوری دنیا کو کوئی زیادہ عجوبہ نہ لگے۔ اور اسی لیے اس کارٹون کی ساری کی ساری پیشنگوئیاں من وعن ویسے ہی نکلتی ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے اس طر ح وائرس کو پھیلا کر لوگوں کو اتنی کثیر تعداد میں مار نے سے ان کو کیا ملتا ہے یا لوگوں کے مارنے سے ان کے منصوبوں کی کیا سم بند ھ ہیں۔ تو یاد رکھیں ان سب باتوں سے دجال کے رونما ہونے کا نہایت گہرا سم بند ھ ہے اور یہ ساری ذہن سازی اسی کے لیے ہی کی جا رہی ہے۔ کیونکہ دجال کے آنے تک ان کو دنیا کی آبادی کو کم سے کم تر کرنا ہے۔ اور اتنی سارے ممالک اور اتنی ساری عوام سے اک ساتھ جنگ کرکے ان کو ختم کرنا یا کم کرنا انکے بس کی بات نہیں جس کے لیے یہ لوگ اسی طرح کے مختلف ہربے استعمال کرتے ہیں۔ پولیو کا وائرس یا افریقہ میں پھیلانے والا ایبولا وائرس یہ ساری اسی تنظیم کے منصوبوں کی کڑیا ں ہیں او رصرف یہی نہیں بلکہ مختلف ممالک میں خانہ جنگی پیدا کرنے میں بھی ان کے کارندو ں کا ہاتھ ہے اور یوں یہ لوگ اپنے ان منصوبوں میں یکے بعد دیگرے خاطر خواہ کامیابیاں حاصل کررہے ہیں۔ اور اب کے بار چائنہ میں اس وائر س کا تجربہ کرنے کا مقصد چائنہ کی زیادہ آبادی ہے اور ان کے اندازے کے مطابق چائنہ میں یہ مہم کامیاب ہونے کی صورت میں یہ وباء نہایت تیزی سے پھیلنے اور انسانی اموات کا سبب بن سکتی ہے۔ اور ا ن کا یہ تیر بھی ٹھیک نشانے پہ لگااورا ن کے توقعات سے بڑھ یہ نتائج دینے لگا اور یوں آج پوری دنیا تقریبا اس وائرس کی لپیٹ میں ہے۔ یاد رکھیں کسی بھی قسم کے وائر س کے موجد دنیا پوری میں کوئی بھی انسان نہیں ہے اور نہ ہی کوئی انسان کسی بھی سپیشیس کو جنم دینے کا متحمل ہو سکتا ہے۔ بلکہ یہ ساری مخلوقات رب کائنات جل شانہ نے تخلیق فرمائی ہے اور ان میں وائر س کی سپیشیس بھی ہے۔ بس اس کے وجود کو ایکٹیو کیا جاسکتا ہے اور یہ انسان اپنی محنت اور ریسرچ ورک سے کر سکتا ہے۔ اور یوں اسکو مارنے یا ختم کرنے کا بھی کوئی انسان متحمل نہیں ہوسکتا بس اسکے جسم کو ڈورمینٹ کیا جا سکتا ہے اور یہی کام کسی بھی قسم کے وائر س کو ختم کرانے کے لیے بطور ویکسین استعمال میں لائی جانے والی ادویات کا ہوتا ہے۔ یہ بات تو اٹل ہے کہ دجا ل نے نمودار ہونا ہے اور اس دنیامیں 40دن قیا م کرے گا اور اپنے آقا یعنی شیطان کی سرپرستی میں انسانوں یعنی ایمان والوں کو گمراہ کرے گا کیونکہ شیطان لعین نے اللہ سے اسی چیز کے لیے مہلت مانگی تھی کہ جس آدم کو سجدہ نہ کرنے کی پاداش میں لعین و ملعون ٹھہرایا گیا تو اب میں اے اللہ ترے ان بندوں کو گمراہ کر کے رہوں گا۔ اور شیطان کا مومنین کو گمراہ کرنے کا یہ آخری ہربہ اور بہت بڑا ہتھیار ہے۔ اور یہ اک عظیم فتنہ ہے جس سے بہت بڑی تعداد میں لوگ کمزور ایمان کی وجہ سے گمراہ ہو بھی جائینگے۔
اب بطور مسلمان ہمیں کرنا یہ چاہیے، کہ ہم اللہ کے حضور استغفار کی کثرت، اپنے گناہوں کی بخشش اور اپنے ایمان کی حفاظت اللہ کی نصرت کے ذریعے صبر اور صلواۃ کے ساتھ مانگنی چاہئے۔ کیونکہ یہ یاد رکھو اللہ نے سورہ السجدہ میں کھل کر بیان فرمایا ہے کہ ”اور البتہ ہم ضرور چکھائیں ہلکا یا چھوٹے عذاب، بڑے عذاب کے علاوہ شائد کہ وہ لوٹ آئیں۔“ (مفہوم)“ تو اگر اب بھی ہم نہ سنبھلے، اب کے بھی اگر ہم نہ لوٹیں اللہ کی طرف تو پھر ہماری فلاح ممکن نہیں۔ باطل کو تو مٹنا ہی ہے بس اک حق ہی نے زندہ رہنا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply