گلوبلائزیشن، ایک تعارف۔۔۔۔تسمیہ بلوچ

دنیا میں ہر چیز وقت کے ساتھ تبدیل ہو جاتی ہے۔ اسی طرح دنیا میں موجود تمام ریاستیں اور ان کاسیاسی، سماجی، معاشی اور تعلیمی نظام وقت کے ساتھ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ کسی کے پاس طاقت زیادہ ہوتی ہے تو کسی ریاست کے پاس کم، مگر یہ تبدیلی وقت کے ساتھ ہوتی رہتی ہے۔ جیسے کہ انسان پہلے خاندان پر مشتمل تھا، پھر انسان قبیلے میں، بعد میں انسانوں کے درمیاں ابلاغ اتنا تیز ہوا کہ لوگوں نے ایک دوسرے کے کلچر، زبان اور تہذیب کے بارے میں جانا اور وہاں سے گاؤں بننا شروع ہوئے۔ اس تبدیلی میں ریاست کیسے آئی یا اس میں تبدیلیاں کیسے رونما ہوئی، اس پر بھی نظر دوڑاتے ہیں۔

قبیلے: دنیا میں سب سے پہلے قبیلے رہتے تھے۔ وہ محدود ہو کر رہتے تھے، ان پہ کوئی بیرونی طاقت اثر انداز نہیں ہوتی تھی۔جس کی مثال ہمارے پاس یہ ہے: Cherokee tribes of Albama, Bhil tribes of India

اب وقت کی تبدیلی کے ساتھ قبیلے شہری ریاستوں اور سلطنتوں میں تبدیل ہوگئے۔ فردِ واحد کی حکومت کی وجہ سے حکمرانوں اور عوام کے درمیان ایک فرق قائم ہوا۔ یونان کی قدیم شہری ریاستیں، مغل، عثمانیہ ، اور روم کی سلطنت دنیا کی قدیم سلطنتوں میں شمار ہوتے تھے۔ رومن سلطنت میں ایک شہنشاہ ہوتا تھا جو پوری سلطنت کا سربراہ کہلاتا تھا۔

اس دور میں شنہشاہ یا بادشاہ کی مرضی کے مطابق ہر فیصلے ہوتے تھے، چاہے اس سے عوام کو نقصان پہنچتا ہو۔ عیسوی سن کے آغاز میں روم میں مکمل فوجی قبضہ ہو جاتا ہے۔ غلامی عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ یہاں سے رومی سلطنت کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔ روم میں سب کچھ وحشی درندوں کے ہاتھ آ چکا تھا، اس وجہ سے بادشاہ قسطنطین اپنا صدر مقام روم سے مشرق کو منتقل کر دیا اور اس نئے شہر کا نام قسطنطنیہ رکھ دیا۔ جس کی وجہ سے روم دو حصوں میں بٹ جاتا ہے؛ مغربی حصے پر وحشیوں نے قبضہ کر لیا اور بادشاہ نے بھی عیسائی مذہب اپنا لیا۔ رومن سلطنت مذہبی لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔ ایک، کیتھولک دوسرے آرتھوڈوکس تھے۔ رومن کیتھولک چرچ مغربی سلطنت سے شمال اور مغربی یورپ کو پہنچ چکا تھا۔ اس وقت مغربی رومن سلطنت تباہ و برباد ہو چکی تھی۔ اسی دور میں سلطنتوں کی تباہی شروع ہو گئی تھی۔

ان سلطنتوں کی وجہ سے عوام غریب سے غریب تر ہو رہےتھے۔ عوام کی آواز سننے والا کوئی نہ تھا۔ بادشاہ سب سے زیادہ طاقت ور ہوتا تھا۔ کوئی قانون موجود نہیں تھا اور کسی کے پاس خودمختاری بھی نہیں تھی۔ عوام کے لیے کوئی حقوق موجود نہیں تھے۔

اب ہم آتے ہیں اپنے موضوع کی جانب کہ گلوبلائزیشن کیا ہے اور کس طرح موجودہ دور میں ریاستوں اور عوام کی سرگرمیوں پر اثر انداز ہو رہی ہے۔

گلوبلائزیشن کی کوئی مخصوص تعریف نہیں۔ گلوبلائزیشن کے بارے میں مختلف دانش وروں نے اپنی رائے پیش کی ہے اور اس عنوان پر مزید تحقیق کی جا رہی ہے۔ کچھ دانش وروں کا خیال ہے کہ گلوبلائزیشن کی ابتدا قبل مسیح سے شروع ہوئی تھی جس میں قدیم زمانوں سے چلی آ رہی تہذیب و تمدن شامل ہیں۔ کہتے ہیں اس وقت کے لوگوں نے تجارت شروع کر دی تھی۔ افریقہ کے لوگ تجارت کرتے تھے، ایشیا کے لوگوں نے یورپ تجارت کی، یہاں سے گلوبلائزیشن کی بنیاد کا آغاز ہوا۔

کچھ دانش ور کہتے ہیں کہ یہ پندرویں صدی سے شروع ہوئی ہے۔ یورپین نو آبادکار وسائل کی دریافت اور تجارت کے لیے ایشیا اور افریقہ آئے تھے۔ اس زمانے میں پرتگالی لوگوں نے ہندوستان، افریقہ اور فرانس میں تجارت کی تھی۔ اس کو بھی گلوبلائزیشن کی بنیاد کہتے ہیں۔ قدیم اور وسطی دور کے بعد جدید دور کا آغاز ہوتا ہے۔ صنعتی انقلاب کی ترقی اور بحری راستوں کی دریافت سے نو آبادیاتی نظام کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ تجارت کی ترقی سے گلوبلائزیشن کے عمل میں وسعت پیدا ہو جاتی ہے۔

انیسویں صدی میں گلوبلائزیشن مزید ترقی کرتا ہے جس میں زمینی روٹ، ہوائی روٹ اور سمندری روٹ تینوں طریقے سے ایک ریاست کے لوگ دوسرے ریاست اور پوری دنیا میں ایک دوسرے کے نزدیک ہوتے ہیں۔

ان سب تجزیوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ گلوبلائزیشن قبل مسیح سے تھی اور آج اس نے ایک الگ اور ترقی یافتہ شکل اختیار کر لی ہے۔

گلوبلائزیشن کو مختصرآ ہم مختلف ممالک کے درمیان معاشی تعلقات کا وہ پھیلاؤ کہہ سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک عالمی معشیت تخلیق ہوتی ہے اور اسے ریاستوں کے درمیان ایک ایسا ابلاغ بھی کہہ سکتے ہیں جو ایک دوسرے سے ملے ہوں۔

گلوبلائزیشن کی ترقی نے دنیا کو ایک گاؤں میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے اور ابلاغ کی ترقی نے لوگوں کو ایک دوسرے کے اتنے قریب کر دیا ہے کہ امریکہ میں بیٹھا شخص پاکستان میں کسی سے بھی بات کر سکتا ہے۔گلوبلائزیشن کا تعلق نیو لبرل ازم سے بھی ہے۔ نیو لبرل ازم کے آنے سے اس کی ترقی میں خاصا اضافہ ہوا۔ جس طرح نیو لبرل ازم کے سامنے ریاست کی کوئی اہمیت نہیں اسی طرح گلوبلائزیشن بھی ریاست کو اہمیت دینے کے بجائے پوری دنیا کو ایک گلوبل ولیج میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

گلوبلائزیشن میں نہ ریاست نہ قومیں نہ زبان اور نہ ہی ریاستوں کی خود مختاری ہو گی۔گلوبلائزیشن کی وجہ سے ریاستوں کی مقامی مارکیٹوں، بازاروں کی اہمیت ختم ہو رہی ہے۔ ہر ریاست عالمی سطح پر خود کو طاقت ور بنانا چاہتی ہے۔ جس کی مثال حالیہ OBOR پروجیکٹ ہے جس کی مدد سے چین عالمی منڈیوں میں سب سے بڑی طاقت بننے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ طاقت کے حصول میں کوشاں ریاستیں مزید طاقتور بنتی جا رہی ہیں۔

گلوبلائزیشن ہمیشہ ریاستوں کی پانچ چیزوں پر اثر انداز ہوتی آ رہی ہے۔

1۔ معیشت
2۔ ثقافت
3۔ سیاست
4۔ ماحول
5۔ فوج

گلوبلائزیشن نے ریاستوں کے ان پانچ عناصر کو کمزور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔گلوبلائزیشن نے ریاست کی معیشت پر اثرانداز ہو کر نیو لبرل ازم کے ذریعے سرمایہ داروں کو مضبوط کیا۔ ریاستوں کے اندر لڑائیاں شروع ہوئیں۔ ہر ریاست کو ورلڈ بینک کا رکن بنایا گیا۔ طاقت ور ممالک پر مشتمل نیٹو کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اگر کسی ملک میں کوئی مسئلہ ہو تو دوسرے ممالک اس میں دخل اندازی کرتے ہیں۔ ان سب میں گلابلائزیشن کا اہم کردار ہے۔

ڈاکٹر مبارک علی اپنی کتاب “تاریخ اور نیشنل ازم” میں یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ڈبلیو ٹی او (WTO) اور گلوبلائزیشن کی مداخلت محنت کشوں کے شعور کو کس طرح بیدار کرتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گلوبلائزیشن دنیا میں ایک زبان اور ایک ہی کلچرکو عام کرنا چاہتی ہے۔ وہ ریاستوں کی خودمختاری کو ختم کر رہی ہے۔گلوبلائزیشن میں ٹیکنالوجی نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ مقامی بازاروں اور ریاست کے قانون کو نقصان پہنچایا ہے، انہیں کمزور کیا ہے

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply