تُم پنجاب توڑنا چاہتے ہو ؟۔۔۔نجم ولی خان

اس پنجاب کو معاف کر دو جس نے پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے ہمیشہ قربانی دی حتیٰ کہ جب دوقومی نظرئیے پر مدینہ کے بعد تاریخ کی دوسری اسلامی نظریاتی ریاست وجودمیں آ رہی تھی تو اس نے اپنے بدن پر چھری چلوا ئی، دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہوئے لہولہان ہو گیا،دلوں اور خون کے رشتے تک کٹ کے رہ گئے مگر کسی نے پنجاب کو داد نہیں دی، جب بھی دی گالی ہی دی ا۔ اب ایک مرتبہ پھر وہ تمام جماعتیں جن کی ہوم گراونڈ پنجاب نہیں ہے وہ اس صوبے کو ایک مرتبہ پھر تقسیم کرنا چاہتی ہیں۔ کیوں، کیا ا س وجہ سے کہ پنجاب نے پاکستان بننے کے بعد بھی اپنے دل کے دروازے سب کے لئے کھلے رکھے۔ جنوبی پنجاب کے وہ سیاسی رہنما جو تخت لاہور کے طعنے دیتے ہیں، ان میں سے کس کا گھر لاہور میں نہیں ہے مگر شائد پنجاب اورلاہور کے نمک میں وفا ہی نہیں ہے، حالات یہ ہیں کہ جس کے گھر میں چار دانے آجائیں وہ پنجابی خودگھر میں اپنے بچوں کے ساتھ پنجابی زبان نہیں بولتا کہ اس سے وہ خودکو جاہل اور پینڈو محسوس کرتا ہے، وہ پنجابی نہیں رہتا بلکہ کوئی انٹرنیشنل شخصیت بن جاتا ہے۔

جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانا چاہتے ہو مگر اس کی کوئی ایک وجہ تو بتا دو۔ تم محرومیوں کی بات کرتے ہو تومیں تمہیں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ میرے جنوبی پنجاب کے شہر اپنی صوبائی سرحد کے ساتھ لگنے والے اندرون سندھ کے علاقوں سے ایک، دو نہیں کم از کم دس گنا بہتر ہیں، ان سے دو ، چار نہیں چالیس، پچاس برس آگے ہیں۔ یہاں فارم ٹو مارکیٹ سڑکیں ہی نہیں میڈیکل کالج اور انجینئرنگ یونیورسٹیاں بھی ہیں۔ یہاں میٹرو چلتی ہے جس کاخیبرپختونخوا والے ابھی تک خواب ہی دیکھتے ہیں،سندھ اور بلوچستان والوںکے خوابوں سے بھی دور ہے۔ کیا تم نے کبھی بہاولپور کی سڑکیں دیکھی ہیں، مظفر گڑھ کا طیب اردگان ہسپتال دیکھا ہے، راجن پور کا ڈی ایچ کیو دیکھا ہے۔ یہ وہ جگہیں ہیں جہاں سندھ سے لوگ اپنا علا ج کروانے آتے ہیں۔ اگر محرومی کی بنیاد پر ہی صوبہ بنانا ہے تو پھر اندرون سندھ کو الگ صوبہ بناو¿، فاٹا کو صوبے کا درجہ و و جہاں ابھی تک آئین اور قانون تو ایک طرف رہے، بنیادی سہولتوں تک کا فقدان ہے۔

تم کہتے ہو کہ ملتان، بہاولپوراور ڈیرے سے لاہور آنا مشکل ہے تو مجھے بتاو¿ کہ کیا سندھ میں کراچی اور خیبرپختونخواہ میں پشاور جانا آسان ہے۔ ملتان سے لاہور آنے کے لئے اب موٹروے موجود ہے اور سفر محض سوا تین گھنٹوںکا ہے اور کیا تمہیں علم ہے کہ چاغی اور گوادرسے کوئٹہ کا سفر کتنا ہے، بعض مقامات سے تو آپ ایک دن میں دارالحکومت پہنچ ہی نہیں سکتے مگر تقسیم صرف پنجاب نے ہونا ہے۔تم کہتے ہو کہ انتظامی طور پر اتنی بڑی آبادی کا انتظام نہیں کیا جا سکتا مگر ہمارے ساتھ ہی بھارت ہے جہاں اترپردیش کی آبادی ، پاکستانی پنجاب کی آبادی سے دوگنی ہے اور اس کے بعدمہاراشٹر سمیت دو صوبے ہمارے پنجاب کے برابر آبادی کے ہیں۔ حیرت ہے کہ تم لوگ ایک ایسا بلدیاتی نظام نہیں لاتے جس سے اختیارات نچلی سطح تک چلے جائیں۔ اس وقت بھی جو لوکل باڈیز سسٹم لایا جا رہا ہے وہ ایسا عجیب و غریب ہے کہ اس میں ضلعی سطح کا نظام ہی موجود نہیں، یہ صرف یونین کونسلوں اور تحصیل کی سطح تک ہے حالانکہ ضلعے ہماری تاریخی انتظامی تقسیم ہیں۔ نئے بلدیاتی نظام میں ضلعوں کو عوامی نمائندوں کی بجائے بیوروکریسی کے حوالے کیا جا رہا ہے جو جمہوریت کی نفی ہے۔

تم کہتے ہو کہ سرائیکی بیلٹ میں ایک الگ صوبے کا مطالبہ موجود ہے تو پھر اس طرح سندھ میں بھی مہاجر صوبے کا مطالبہ ہے بلکہ یہ حق سب سے پہلے تھرپارکر کے عوام کا ہے کہ انہیں کراچی کی حاکمیت سے نجات ملے ، خیبرپختونخوا میں بھی ہزارہ صوبے کامطالبہ ہے جس کے لئے اب تک ڈیڑھ درجن لوگ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرچکے ہیں۔فاٹا کوبھی الگ صوبہ بنانے کاکہا جاتا رہاہے مگرعمران خان تقسیم کی بات صرف پنجاب میں ہی کرسکتے ہیں،سندھ اورخیبرپختونخوامیںبھی کرکے دکھائیں۔سندھ میں کہاجاتا ہے کہ سندھ کی دھرتی ہماری ہے اورہم اپنی ماں کوتقسیم نہیںہونے دیں گے،کیا یہ سہولت پنجابیوں کی غیرت دیتی ہے کہ ان کی ماں کے ٹوٹے کئے جائیں اور بار بار کئے جائیں۔

جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا باوا آدم تاج لنگا ہ تھا مگر جب الیکشن ہوئے تھے تواس کی ضمانت تک ضبط ہو گئی تھی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی بات پیپلزپارٹی کرتی ہے جس کی ہوم گراونڈ سندھ ہے۔ اس کے لئے مطالبہ خیبرپختونخواکی جماعتیں اے این پی اور پی ٹی آئی کرتی ہیں اور پنجاب کی نمائندہ ہونے کی دعوے دار نواز لیگ شدید قسم کی کنفیوژن کا شکار ہے۔ وہ پنجاب کو تقسیم نہیں کرنا چاہتی مگر جب تقسیم کے مطالبات دیکھتی ہے تو آگے بڑھ کے ایک نہیں بلکہ دو صوبوں کے بل جمع کروادیتی ہے۔ کتنی شرمناک بات ہے کہ پنجاب کی اسمبلی میں پنجاب کی ماں بولی میں بات کرنے کے لئے پہلے اجازت لینا پڑتی ہے اور اس کے سکولوں میں بچوں کو لازمی طور پر پنجابی پڑھانے کا کوئی قانون ہی موجود نہیں ہے، باقی صوبوں میں ماں بولیوں سے ایسی کوئی زیادتی نہیں کی جا تی۔

تم کہتے ہو کہ جنوبی پنجاب کی کپاس کو ملکی معیشت میں حصے کا ریٹرن نہیںملتا اور میں کہتاہوں کہ ربع صدی سے جنوبی پنجاب کی بتیس فیصد آبادی کو اس کے شئیر سے زیادہ مل رہا ہے ۔ کیا یہ بات حقیقت نہیں کہ جنوبی پنجاب کے سیاستدانوں نے پورے ملک پر حکمرانی کی ہے۔ وہ شاہ محمود قریشی جو ایک نئے صوبے کو ومسائل کا حل بتا رہے ہیں کیا ان سے پوچھا نہیں جانا چاہئے کہ انہوں نے اپنے والد سمیت اپنے علاقے سے نذر نیاز اکٹھی کرنے کے سوا کیا خدمت کی ہے۔ یہ جاگیردار اپنے لئے ایک محفوظ راجدھانی بنانا چاہتے ہیں اور یہ بات بھی لکھ لی جائے کہ جنوبی پنجاب اگر صوبہ بنا تو چند سرکاری نوکریاں تو ضرور بڑھ جائیں گی اس کے سیاسی اور انتظامی اخراجات اتنے زیادہ ہوں گے کہ غریب عوام کو جو ہسپتال، یونیورسٹیاں اور سڑکیں محرومی کے نام پر مل رہی ہیں وہ اس سے بھی جائیں گے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ بہت سارے لوگوں کو پنجاب سے نفرت ہے اور وہ اسے بہرصورت توڑنا چاہتے ہیں جیسے ایک وقت تھا کہ پاکستان کے دشمن پاکستان توڑنا چاہتے تھے۔ پی ٹی آئی نے فی الوقت بہاولپور میں ایک سیکریٹریٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں ایک ایڈیشنل چیف سیکرٹری بیٹھے گا جبکہ ایک ایڈیشنل آئی جی ملتان میں بٹھایا جائے گا۔ اس انتظام سے کسی کو اختلاف نہیں ہے کہ یہ اسی طرح ہے جیسے صوبے کی ہائی کورٹ کا ملتان میں بنچ موجود ہے مگرمجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اگر لسانیت کی بنیاد پر صوبہ بنے گا تو ملک میں ایک نیا پنڈورا باکس کھل جائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی سمجھ لیا جائے کہ سرائیکی مکمل طور پر کوئی الگ زبان نہیں ہے بلکہ یہ پنجابی کا ہی ایک چہرہ ہے۔ اگر آپ اسی تقسیم پر راضی ہیں تو لڑائی ریاستی اور سرائیکی بولی والوں میں بھی ہوگی۔ بہاولپور والوں کی زبان ریاستی ہے اور وہ اپنے ثقافتی ورثے پر فخر کرتے اور اپنے آپ کو جنوبی پنجاب والوں سے الگ تصور کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی والوں کے نئے صوبے کا دارالخلافہ بہاولپور ہو گا یا ملتان ہوگا، اس پر ابھی سے پھوٹ پڑ گئی ہے تو کیا اس تنازعے کے بعد دو نئے صوبے بنیں گے۔ یوں بھی بہاولپور صوبہ بحالی کی تحریک بھی عجیب ہے کہ بہاولپور کبھی صوبہ نہیں رہا، وہ متحدہ ہندوستان کی ایک آزاد ریاست تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بات صرف اتنی سی ہے کہ اگر تم نئے صوبے بنانا چاہتے ہو تو انہیں صرف اس بنیاد پر مت بناو¿ کہ تم پنجاب سے نفرت کرتے ہو اور اسے بہرصورت توڑنا چاہتے ہو۔نئے صوبے بنانے ہیں تو انتظامی بنیادوں پر اختیارات کی نچلی سطح پر تقسیم کے ذریعے لوگوں کو سہولت دینے کے لئے بناو¿ لیکن اگرتم صرف پنجاب توڑو گے او ر تعصب کی بنیاد پر توڑوتو پھرپورے پاکستان میں کوئی صوبہ اپنی موجودہ صورت میں باقی نہیں رہے گا اور اس تخریب اور فساد کی راہ تم خود ہموار کرو گے۔ پہاڑ سے پتھر گرنے شروع ہو جائیں تو جہاں پھر وہ خود نہیں رک پاتے وہاں اپنے ساتھ دوسروں کو بھی پاتال میں لے جاتے ہیں۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply