حسبی الله ونعم الوكيل۔۔جمال خان

حسبی الله ونعم الوكيل

تلاوتِ قرآن پاک میں شِفا ہے ،خود خدا اپنے کلام کو شفا  کہتا ہے اس کی آیات کا تمسخر نہ اڑائیں ۔

اور ہم نہیں بھیجتے پیغمبروں کو سوائے خوش خبری دینے والے اور (عذاب) سے ڈرانے والے کے اور جو کافر ہیں وہ غلط دلائل سے بحث کرتے ہیں، تاکہ ان سے حق کو شکست دیں اور انہوں نے مذاق بنالیا میری آیتوں کو، جب انہیں ڈرایا گیا (کہف 56)

اور انسانوں میں ایسا شخص ہوتا ہے، جو تفریحی باتوں کا خریدار ہے، تاکہ اللہ کے راستے سے بغیر واقفیت کے بھٹکائے اور اس کا مذاق اُڑائے ،یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے (لقمان 6)

یہ انسان ہی تو ہے، جو اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو ہلاک کرتا ہے، کہیں وہ انسانی خون کے دریا بہاتا ہے، اور کہیں سَروں کے مینار بناتا ہے، مگر شکوہ خدا سے کرتا ہے کہ وہ کیسا غفور و رحیم ہے۔

اگر ایک شخص کو حفاظتی اقدامات کے ساتھ ساتھ ذکر خدا اور کلام الٰہی سے سکون ،حوصلہ اور صبر ملتا ہے، تو دوسرےکو کیا حق حاصل ہے، وہ اس شخص کے اس عمل کا مذاق اڑائے؟

اے لوگو! تم کیوں اپنے آپ کو زمینی خدا سمجھ بیٹھے ہو ۔کیا تاریخ میں زمینی خدا کا دعویٰ کرنے والے فرعونوں اور قوموں کے انجام کو بھلا بیٹھے ہو ۔

اپنے ہاتھوں سے تباہی  و بربادی اور قیامت صغریٰ برپا کرنے والے انسانوں کے عمل کے جواب میں ایک فلسفی چیخ اٹھتا ہے کہ ” نعوذبااللہ” خدا مرچکا ہے” دوسرا بولتا ہے “وہ یہ کائنات بناکے ” نعوذبااللہ” رحلت فرماگیا ہے ۔
یاد رکھو !اس کی بادشاہت پوری کائنات میں قائم ہے، اور اس کا حکم اور ان کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے۔ بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے۔

کون ہے اس کے علاوہ جو انسانیت کو اس آزمائش  “کرونا وائرس “کی ہلاکت خیزیوں سے بچا سکے ۔۔

فرشتوں نے جب انسانی تخلیق کے خدائی فیصلے پر دبے دبے لفظوں میں رب سے شکوہ کیا کہ ” کیا تو اس میں ایسے شخص کو خلیفہ بنائے گا، جو اس میں فساد مچائے گا اور (ایک دوسرے کے) خون بہائے گا۔جبکہ ہم تیری حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح وتقدیس بھی کر رہے ہیں۔ ’’اللہ تعالیٰ نے انہیں جواب دیا کہ ’’جو کچھ میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے”۔

اس دنیا کے اندر ہر انسان کی کتاب زندگی میں آزمائش اور مصیبت کا لفظ ضرور لکھا ہوا ہوتا ہے، بچہ ہو کہ بوڑھا ، جوان ہو کہ ادھیڑ عمر  ، مرد ہوکہ عورت ،ہر ایک کو زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے  میں آزمائشی دور سے گزرنا پڑتاہے ۔تاریخ کے ہر دور میں انسانوں پر کڑی سے کڑی آزمائشیں آتی رہی ہیں ۔

ایسی ہی ایک کڑی آزمائش کا آج پوری انسانیت کو سامنا ہے۔صرف چند ماہ پہلے چین میں کرونا وائرس نامی جراثیم کے پہلے کیس سے لیکر مختلف ممالک میں کم وبیش پانچ ہزار ہلاکتوں تک پوری دنیا میں ایک قیامت صغریٰ برپا ہے ۔
جدید ترین ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے اس انقلابی دور میں دنیا کے کونے کونے میں بسنے والے انسانوں کی اکثریت جہاں لمحہ بہ لمحہ اس وائرس کی تباہ کاریوں سے لیکر مختلف ممالک کی جانب سے کیے گئے حفاظتی انتظامات تک آگاہی حاصل کر رہی ہے، وہیں دوسری طرف خوف و ہراس انجانے اندیشوں وسوسوں افراتفری اور سب سے بڑھ کر موت کے انجانے خوف نے پوری انسانی آبادیوں کو ایک ایسی تکلیف دہ صورتحال سے دوچار کردیا ہے، کہ جہاں کسی شخص کو ہلکی سی چھینک کیا آئی ،باقیوں نے ڈر کے مارے دوڑیں لگادیں ۔

پوری دنیا کی حکومتیں اپنے اپنے عوام کو اس خوفناک وبائی  مرض سے بچانے کے لئے ہر طرح کے ممکنہ اقدامات اپنے اپنے وسائل کے مطابق کر رہی ہیں ۔آج کی دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا ہے اور پچھلے سو سال میں انسان ترقی ومعراج کی ساری سیڑھیاں طے کر کے اب خلاء  کی وسعتوں کو چیرتا ہوا بہت آگے تک نکل گیا ہے ۔

میڈیکل کے شعبے میں ترقی کی انتہا یہ ہوگئی ہے کہ آج کچھ سائنسدان موت کو ہمیشہ کے لئے شکست دینے کے بارے میں دن رات تحقیق و تجربات میں مصروف ِ عمل ہیں،اور یہ کہنا مناسب ہوگا کہ انسانی ترقی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے ۔مگر! تاریخ اپنے آپ کو ہمیشہ دہراتی آرہی ہے، اور معلوم انسانی تاریخ اور قرآن مجید اور دوسری الہامی کتابوں کے مطابق ہر دور میں انسانی زندگیوں میں وہ لمحات آتے ہیں جب انسان اپنی بےپناہ کامیابیوں ،اپنے حیرت انگیز کارناموں ،اپنی لامحدود طاقت کے زعم میں اس پوری کائنات کے مالک ،پورے نظام زندگی کو چلانے والے رب کے سامنے غرور وتکبر سے اپنے زمینی خدا ہونے کا دعویٰ دائر کردیتا ہے، ان تاریخی واقعات، انسانوں کی سرکشی ،گستاخی، نافرمانی، اس کے غرور گھمڈ کی فلم چلنے لگتی ہے، جو کبھی نمرود کبھی فرعون مصر اور کبھی قوم عادوثمود وغیرہ کی تھی ۔ انسان زمین پر ااکڑ اکڑ کر چلنے لگتا ہے، تو رب کائنات اسے پھر خبردار کرتا ہے ۔۔
وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا ۖ إِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولًا۝
اور زمین پر اکڑ کر (اور تن کر) مت چل کہ تو زمین کو پھاڑ تو نہیں ڈالے گا اور نہ لمبا ہو کر پہاڑوں (کی چوٹی) تک پہنچ جائے گا
سورة ،الإسراء، آية 37
تاریخ نے آج ہمیں پھر ایک ایسے ہی موڑ پر لاکھڑا کردیا ہے، جہاں انسانی عظمت کے دعوے انسان کا سارا غرور، سارا تکبر ،سارا گھمنڈ ،ملیا میٹ ہوگیا ہے، ساری انسانی ترقی دھری کی دھری رہ گئی ہے۔۔ملکی سرحدیں ایک دوسرے کے لیے بند ، ایئرپورٹ بند ، کھیلوں کے میدان بند ،سکولز کالجز اور یونیورسٹیز بند،فٹنس سینٹرز بند،تھیٹر سینما بند ،اجتماعات پر پابندی ،مسجدیں بند ،گرجا گھر بند، مندر بند گردوارہ بند،مکہ بند مدینہ بند ، عمرہ بند عبادتیں بند ۔ایک دوسرے سے یا تو ملنا ہی نہیں ،یا پھر ملتے ہوئے ایک دوسرے سے فاصلے سے ملنا۔میاں بیوی ایک دوسرے سے خوف زدہ ،بھائی سے بھائی خوفزدہ،بہن سے بہن خوفزدہ،دوست دوست سے ،سہیلی سہیلی سے خوفزدہ،بیٹا ماں باپ سے خوفزدہ ،استاد شاگردوں سے، شاگرد استادوں سے ،پڑوسی پڑوسی سے اور مہمان باعثِ زحمت،جون ایلیا نے شاید ایسے موقع کے لئے  کہا تھا ۔۔
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے”

دوسری طرف لوگوں کا ایک ایسا بڑا طبقہ بھی ہے، جو گزرے کل بھی اور آج بھی خدا کی سچی آیات کو اس کے نبیوں کی سچی تعلیمات کو، مسلسل ہدف تنقید اور طنز ومزاح کا نشانہ بناتا آرہا ہے ۔سوشل میڈیا کے بےباک لبرلزز ٹی وی ٹاک شوز اور اخبارات میں کالم اور بلاگز لکھنے والے بےلگام لکھاری  آج بھی ان لوگوں کا تمسخر اُڑاتے ہیں، جو آزمائش اور صبر کی اس گھڑی میں اپنے رب کے ساتھ رابطہ رکھے ہوئے ہیں ۔

ان وظائف اور قرآنی آیات کا مذاق اڑاتے ہیں جن کے بارے میں خدا خود فرما رہا ہے کہ
قُلْ ھُوَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھُدًی وَّشِفَاء
’’(اے محمد) کہہ دیجیے، یہ قرآن ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت اور شفا ہے۔‘‘ (حم السجدہ)

میرا ان سب لوگوں سے ایک سوال ہے،جو صبح وشام ان لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں جو پوری دنیا میں آئی اس آزمائش میں دوسرے تمام ممکنہ حفاظتی اقدامات کے ساتھ ساتھ خدا کی آیات،وظائف اور اس کے نبی ﷺ   کے فرمان کو دوسرے مسلمان بہنوں بھائیوں کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں تو ایسے اعتراضات کا کیا جواز بنتا ہے ؟

کیا ہر شخص کا یہ بنیادی حق نہیں کہ وہ ہر ایسا عمل ،ایسا اقدام کرے، جس سے اس کے اندر حوصلہ سکون اور صبر آئے ،اور وہ اس مشکل گھڑی میں اپنے رب سے رحمت اور شفقت طلب کرے اور ایسا کرنے سے اسی دِلی سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے، دوسرے کون ہوتےہیں کہ وہ اسکے اس عمل پر بحث کریں ۔

اگر کسی دوسرے شخص کو اس مشکل وقت میں شراب کباب موج مستی یا ورزش کرنے سے سکون ملتا ہے تو یہ بھی اس شخص کا حق ہے، کہ وہ ایسا کرے اور اگر اسے ذکر خدا سے سکون ملتا ہے  تو اس کے حق میں بھی دعائے خیر کرتے رہنا چاہیے کہ یہی نبیوں پیغمبروں کا شیوہ تھا ۔

مگر یہ کیا منطق ہے کہ قرآنی آیات اور وظائف ایک دوسرے کو بھیجنے پر یہ ” افلاطون” ہمارے مسلمان بہن بھائیوں کو کبھی انہیں ماضی کا طعنہ دیں کبھی دقیانوس پتھر کے دور کا انسان قرار دیتے پھریں ۔۔کبھی اسے ضعیف الاعتقاد ،کبھی جاہل مولوی اور کبھی بےوقوف ہونے کا طعنہ دیں ۔ اور کیا بقول ان” بقراطوں ” کے ہمارے ان مسلمان بہن بھائیوں کے اس عمل سے” انسانیت” کو کتنا نقصان ہوا ۔۔۔ ان لوگوں سے میں یہ پوچھنے کی جسارت کروں گا کہ کیا اعلی  تعلیم یافتہ مہذب اور روشن خیال یورپ نے پچھلے سو سال میں دو عالمگیر جنگوں میں کروڑوں لوگوں کو راکھ کا ڈھیر میں نہیں بدلا تھا ۔کیا وقت کے فرعونوں نے دو جاپانی شہروں سمیت ویتنام ،عراق افغانستان، شام،مصر وغیرہ میں لاکھوں لوگوں کا ناحق قتل عام نہیں کیا ۔
جو لوگ قرآنی آیات کا مذاق اُڑاتے ہیں ان کے لئے خدا فرماتا ہے ۔
“تباہی ہے ہر گنہگار جھوٹے کے لیے۔

جو سنتا ہے آیات الٰہی کو کہ وہ اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں، پھر وہ تکبر سے کام لیتا ہوا ہٹ دھرمی کرتا ہے جیسے کہ انہیں اس نے سنا ہی نہیں تو اسے خوشخبری دیجیے، دردناک عذاب کی”
ہر دور میں خدا سے “ٹکر” لینے والے بڑے بڑے فلسفی اور دانشور آج مٹی میں مل کر خود مٹی مٹی ہوگئے، مگر ہمیشہ رہنے والی ذات کا ذکر مبارک صبح وشام چوبیس گھنٹے دنیا کے کونے کونے میں ہورہا ہے، کہاں گئے وہ ” زرخیز دماغ جو لوگوں کو خوش خبری دیتے تھے کہ نعوذبااللہ خدا مرچکا ہے یا پھر کہتے تھے خدا اپنے حصہ کا کام کرچکا اور یہ کائنات بناکر رحلت فرماچکا ہے(نعوذ باللہ)

Advertisements
julia rana solicitors

کہاں گئے وہ انسان دوست دانشور جو بڑے فخر سے کہتے ہیں ،یہ کائنات اپنے آپ ہی ایک خودکار طریقے سے چل رہی ہے ۔ تو پھر کیوں ایک ” چھوٹے” سے وائرس سے ڈر کو اپنے اپنے ڈربوں میں جاکر چھپ گئے ہو ۔۔ کون ہے جو آج تمھیں اس عذاب سے چھٹکارا دلوا سکتا ہے؟
دکھاؤ مجھے اپنے سائنسی کرشمات ۔۔دکھاؤ مجھے اپنی طاقت کہاں ہے تمھارا سارا علم ؟
تو آج پھر کس کی بادشاہی ہے، جو صرف کہتا ہے” کنْ فَیکونُ”جب وہ(خدا) کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ تو اسے بس اتنا ہی کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے۔
ہاں صرف اور صرف وہی ایک ذات تو ہے جو اپنے بندوں پر رحم فرماتا ہے جو اپنے بندوں کو ہر آزمائش سے نکالتا ہے ۔۔۔اب بھی وہی ایک ذات ہے جو انسانیت کو اس بڑی آزمائش سے نکالے گا انشاللہ۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply