آفٹر شیو لوشن ۔۔رابعہ الرَبّاء

رات گئی بات گئی، مگر پھر ایک رات آئی سفر کی ایک رات، جو اپنے ساتھ بے شمار راز لاتی ہے۔ کچھ کی گرہیں کھول دیتی ہے۔ کچھ کی گرہیں لگا دیتی ہے کہ کوئی اور رات آئے گی۔
وہ بھی ایک ایسی ہی تنہا رات تھی۔
جب اس نے پہلی بار اس کو اچانک دیکھا۔جس کو دیکھ کر آفٹر شیو لوشن اور آفٹر شیو بام کی مہک تن من   کو تو  چھو گئی تھی۔ روز بالوں سے بھرے فیشن زدہ چہرے دیکھ دیکھ کر اس کی آنکھو ں میں جہنم کے انگارو ں کی سی گر می آچکی تھی۔ وہ اکثر سوچتی کیسا دور آگیا ہے جب مر دانگی صرف چہرہ بال زدہ ہو نے کا نام رہ گیا ہے۔ ساراجسم بال و پر سے خالی ہو گیا ہے۔ گویا جیسے فصلیں اب زمین پہ نہیں اُگتیں۔ خلاؤں میں اُگائی جانے لگی  ہیں۔
خیر وہ بھی ایک ایسی ہی رات تھی۔
جس نے بے بسی کے تین دن مسلسل دیکھے تھے۔ جب وہ کسی نمائش گاہ میں ایک چھت تلے رہنے والے  دو جسموں کے بندھن کے لئے پیش کی گئی اور مرد نما کسی مخلوق کی میلی نگاہو ں سے اتنا میلا ہو چکی تھی کہ باتھ شاور کے نیچے بیٹھے اس کی آنکھو ں کا نمکین پانی قدرتی میٹھے پانی کو نجانے کب تک تکلیف دیتا رہا۔ نجانے کب تک دونوں پانی آپس میں ملتے رہے۔ اسے لگتا جیسے وہ نگاہیں اسے ناپاک کر دیتی ہیں۔ نگاہیں پاک بھی تو کر دیتی ہیں۔ ان معصوم بچوں کی نگاہیں،جو ابھی بول بھی نہیں سکتے اورآپ کو دیکھتے ہیں، ننھے منے قدمو ں سے لڑ کھڑاتے بھاگتے آتے ہیں اور آپ سے لپٹ جاتے ہیں۔ وہ وقت سے زیادہ بڑی ہو گئی تھی مگر اس کا دل ابھی تک اتنا ہی معصوم تھا۔ جتنا ان بچوں کو ہو تا ہے جن کی محبت آنکھو ں کا ذخیرہ ہو تی ہے۔ اس لئے اسے ایسے ہی مرداچھے لگتے تھے۔ جو مسکراتے تو ان کا بچپن جاگ اٹھتا تھا۔ وہ بھی ایک ایسا ہی مرد تھا۔
وہ بھی ایک اسی ہی رات تھی۔

جب اچانک وہ اسے ملا اور اس کو دیکھتے ہی اس کا بچپن جاگ اٹھا تھا۔ اسے اب علم تھا زندگی ایک سفر ہے۔جس میں ہم سب مسافر ہیں۔ کو ئی اس سفر میں کہیں اتر جاتا ہے، کوئی کہیں۔ رستہ ایک بھی ہو توہر شخص کی منز ل الگ اور نا معلوم ہو تی ہے۔

اس لئے زندگی سے اسے کو ئی خاص امید نہیں تھی، نہ ہی مسافرو ں سے۔اسے صرف اپنا سفر طے کر نا تھا۔ بشری تقاضے تھے جن سے وہ منکر نہیں تھی۔ قوت سماعت تھی،وہ سننا چاہتی تھی، کبھی کوئی  مدھرگیت، کبھی کوئی بارش کی رم جھم، کبھی کوئی حسین لب و لہجہ جس کو سن کر روح پروا زکو تیا ر ہو جائے، قوت بصارت تھی، دیکھنا چاہتی تھی،حسن فطرت کا،حسن شجر کا حسن بشر کا،جس سے اس کی آنکھو یں رقص کر نے پہ بے اختیار ہو جائیں۔ قوت شامہ تھی، چاہتی تھی کہ آنکھیں جن کو دیکھ کر محوِ رقص ہیں،سماعت جن کو سن کر پروا زکو آمادہ ہے، وہ ان کی مہک محسوس کر سکے۔ وہ بصارت سے مہک کا احسا س بھی کشید کر لیتی تھی۔ بنانے والے نے اس کی حسیات کو ہم جان اور ہم روح بنایاتھا۔ وہ ایک سے دوسرے کے اتنے قریب تھیں کہ ایک کی موجودگی دوسرے کا احساس خودہی بیدار کر دیتی تھی۔ وہ بصارت سے سمارت اور سماعت سے لمس کی لذت سے گزر جاتی تھی اورکسی کو معلوم بھی نہیں ہو تا تھا کہ کس کائنات میں کیا طوفان آکر گزر چکا ہے۔ وہ کسی ساتو یں آسمان یا کسی اندھیرے سمندر کو ساتھ لئے پھرتی تھی۔ جہا ں اس کے احسا س خو دہی جنم لے کر خود ہی دفن ہوجانے پہ قادر تھے۔ لیکن وہ ان سے کو ئی گلہ شکوہ نہیں کر تی تھی۔ کیو نکہ اسے معلوم تھا کہ کسی زمان ومکان کا فرق لے کر پیدا ہو نے والے کی گواہی صرف اس کی لحد یا موت ہو سکتی ہے۔

وہ بھی ایک ایسی ہی رات تھی جب اسے نے اسے دیکھا تھا تو تمام حسیات نے لمحے بھر کو ایک بے مقصد انگڑائی لی تھی۔ اتنی اذیت ناکی کے بعد اس کو یہ لمحہ اچھا لگا۔ اسے علم تھا اس لمحے نے بھی گزر جانا ہے۔ مگر زندگی کی امید، آنکھو ں کے نورکی ایک کونپل تو کسی زمین میں بو جائے گا۔ کیونکہ درخت لگانے والے یہ کونپل اپنی نسلوں کے لئے لگاتے ہیں۔
وہ بھی ایک رات تھی

جب اسے اس کا پیغام ملا۔ اسے اس کی امید بالکل بھی نہیں تھی کیونکہ حسن کا تکبر اس کی اجازت نہیں دیتا۔ مگر طاقت کا تکبر اپنی شاخت ما نگتا ہے۔وہ جانتے ہو ئے بھی تو اسے شناخت نہیں دے سکتی تھی۔ جب سے اس میں انڈورفنس کی وافر مقدار مسکرانے لگی تھی اک چپ نے اس میں بسیرا کر لیا۔اوراس کے لب مسکرانے لگے تھے۔خامشی کے پاس رازخود چل کر آتے ہیں۔ اور جب زمان و مکاں کے فرق سے ٹکراتے ہیں تو پلٹ جاتے ہیں۔ وہ اس درد کے لئے بھی تیا ر تھی۔ اس لئے اس نے اس کے پیغام کو مذاق کی غلیل سے اڑادیا۔ وہ اسے نہیں بتانا چاہتی تھی کہ وہ ایک لمحہ جی چکی تھی۔ جو فطرت نے دیا تھا۔ اس نے اگلی نسلو ں کے لئے کونپل لگا دی تھی۔ سو نہیں چاہتی تھی کہ یہ ننھا پودا مسلا جائے۔ لیکن پھر بھی وہ تیار تھی کہ اب زمین میں بارود بھی تو بویا جاتا ہے۔
وہ ایک رات تھی۔

جب مسافر زندگی کے ایک اورسفر پہ نکلی۔ شہرسے دور اسے نجانے کیا سکون ملا کر تا تھا۔ اسے یوں لگتا تھا جیسے وہ خود سے ملتی ہی تب ہے جب شہر سے دور ہو تی ہے۔ اس اندھیری ٹھنڈی رات نہ کو ئی کتاب اس کی ساتھی تھی نہ ہی کو ئی پیغام، وہ تھی اس کی تنہائی تھی اور اس کے ساتھ باتیں کرتا اس کا حال اور اس کا ماضی۔ سوالوں کے جواب اپنی تمام شرینی و ترشی کے ساتھ اسے بغل گیر ہو رہے تھے اوروہ شفقت سے ان کے سر پہ ہاتھ پھیڑ کر انہیں شانت کر دیتی۔ ایک بوسہ پیشانی پہ دیتی اوران کو ان کے سفر پہ بھیج دیتی۔ کیونکہ اسکو تو اپنا سفر کر نا تھا۔ وہ کیو ں کسی کو اپنے ساتھ زبردستی روکتی۔ وہ یقین رکھتی تھی کہ جانے والے کو روک بھی لو تو وہ اپنا نہیں ہو تا۔اور جو اپنا ہو تا ہے اسے جانا ہی نہیں ہو تا۔
وہ بھی ایک رات تھی

جب وہ خود سے مل کر لوٹی تھی۔ وہ تھکن سے شرابور تھی۔مگر اس نے اپنے یقین کے مطابق اسی حا لت میں جواب لکھنا تھا کیونکہ وہ پر سکون سونا چاہتی تھی۔ اور اس کے کاندھوں پہ سوچوں کا ایک بوجھ تھا۔اسے کسی کو بتانا تھا کہ زندگی سب کے لئے پھل نہیں لاتی اس لئے کبھی کسی سے یہ سوال نہیں کیا کرتے کہ آج اس سے کونسا پھل کھایا۔ کچھ پیٹ خالی بھی ہوتے ہیں۔ اس لئے تکبر کو شرک مانا جاتا ہے اور بند گی میں خدا ہو تا ہے۔
”پہاڑوں پہ رہنے والے شخص کے بارے میں امید ہے کہ خوش ہو گا۔

بہت مشکل سوال تھا جس کا کوئی جواب نہ پہلے میرے پاس تھا نہ ہی اب ہے۔ البتہ معذرت کہ میں نے سب کچھ ہوا میں اڑا دیا۔ یقین کیجئے رات گئی بات گئی۔ مگر پھر ایک رات آئی۔سفر کی رات جس میں راز خود کھلتے ہیں۔ میں ایک ایسی ہی انجان جگہ تھی جہا ں نہ کتاب تھی۔ نہ گوگل تھا، نہ ماحول تھا، نہ نیند تھی، بس میں تھی پہلوٹھی کا چاند تھا، ستارے تھے باتیں تھیں۔سوچوں کی پٹاری میں بہت کچھ پلنے لگا جس میں آپ کا ایک سوال بھی تھا۔مجھے لگا میں نے جناب کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔

واپسی پہ جہا ں گوگل دوست بنا تو دیکھا کہ کس کے ساتھ کچھ نامناسب ہو گیا کہ معذرت کی تو خدا تو نہیں بن بیٹھے گا۔ کیونکہ میر ے پاس وقت خدا تھا۔ گلوگل کی سیاحت نے بتایا کہ وہ سوال جو جناب نے مجھ سے پو چھا تھا۔ اصل میں تو سوال میرا ہو سکتا تھا۔ تاکہ جناب فلسفہ زندگی سنا سکیں۔کیو نکہ جناب نے باقاعدہ زندگی سے ہاتھ ملایا ہوا تھا۔ اور منزل پا لی ہو ئی تھی۔ گرچہ میرے لئے یہ بھی کوئی متاثر کن بات نہیں رہ گئی تھی۔ کیونکہ اب تک جان چکی تھی کہ حالات و واقعات ساتھی بن جائیں تو منزلیں قدموں کے نیچے ہی ہوا کر تی ہیں۔ البتہ متاثر کر نے کے لئے ایک عکس بہت تھا۔ جس میں ایک لڑکے نے ہاتھ میں ایک کتابfourty rules of love پکڑی ہو ئی تھی۔ اور غالب امکان ہے کہ وہ لڑکا عدنان تھا۔جس کتاب نے مجھے بات کر نے کا اعتماد بخشا۔
لیکن اس بات میں بھی بات بس اتنی ہے کہ میں گرچہ غلط تھی مگر کچھ لو گ میری طرح کے بھی ہو تے ہیں جن کی بچپن سے نہ کوئی منزل ہوتی ہے، نہ کوئی رستہ ہو تا ہے۔ زندگی خود انہیں اپنے ساتھ انگلی تھامے لئے پھرتی ہے۔خشک پتو ں کی طرح۔ جن کو خزاں کے بعد اکھٹا کر کے آگ لگا دی جاتی ہے۔ جسکوکبھی تحفے میں قلم دے دیا جاتا ہے تو کبھی کاغذ۔ جس کے سینے پہ تو اپنے تمام راز قبر میں مردے کی طرح اتاردیتے ہیں۔

جناب زندگی کے جس شعبے سے ہیں۔ اس اکادمی سے بچے جب پڑھ کرنکلتے ہیں بظاہر تو وہ حاکم بن جاتے ہیں۔ باطن  سے وہ خدا بن جاتے ہیں۔ وہ اکادمی ان سے ان کی معصومیت چھین لیتی ہے۔ مگر ایک شعبہ وردی والا بھی ہے۔ جس کے پیروں میں لوہے کی ہیل والی بند جوتی ہو تی ہے۔ جس کی مخصوص ساخت میں مسلسل رہنے سے ان کے اندر کی بندگی زندہ رہتی ہے۔ اور وہ اس مزاج میں ڈھل جاتے ہیں۔
خدا اور بندگی۔۔۔
خیرپہاڑوں پہ رہنے والی ایک کیوٹ سمائل حس جمالیات کے رقص کے سوا ،اور تخیل کے فریب کے سوا کو ئی معنی نہیں رکھتی۔ اب ایک اور حسین رات کے ستارے مسکرا رہے ہیں۔ اور میں سفر کی تھکن سے شرابور ہو ں۔ سونا چاہتی ہوں شب بخیر،
اور اس رات اسکے سینے کا بوجھ اتر گیا۔ وہ بہت گہری نیند سو گئی۔
وہ اگلی ہی رات تھی

جب عدنان کا جوابی پیغام آیا ہوا تھا۔ اور اچانک مذاق مذاق میں بات ہو گئی۔وہ بھی دنیا کے رنگ دیکھ چکا تھا جو اس کی کیوٹ سمائل میں بہت طنز کے ساتھ ٹمٹماتے تھے۔ لیکن ابھی آنکھو ں میں یہ ٹمٹماہٹ سرایت نہیں کی تھی کبھی آتی تھی کبھی جاتی تھی۔ اس کو علم نہیں تھا کہ وہ جس کے ساتھ بات کر رہا ہے وہ سماعت سے بصارت اور بصارت سے سامعہ اورمعہ سے شامہ سے لامسہ سے گزرکر سکتی ہے۔ اور اس سب کے ساتھ ساتھ وہ لمحہ بھر میں ہی زمان و مکان سے بے خبر بھی ہو سکتی ہے۔

عدنان کو سگریٹ پیتے دیکھ کر اسے کو برا ا نہیں لگا مگر اپنا سانس رکتا محسوس ہوا۔ تو اسکو کہہ دیا۔ کہ بات کرنے کو کو ئی بات بھی تو نہیں تھی یہ تک نہیں سوچا کہ اسے کیسا لگے گا اس کو بھی اچھا نہیں لگ سکتا۔سگریٹ اس کا بھی تو سنگی ساتھی ہو سکتا ہے۔یو ں بھی کہا جاتا ہے عورت سے محتاط مر دکے لبوں پہ سگریٹ یا سگار ضرور ہوتا ہے اس کے کیتھارسس کا رستہ سگریٹ کا دھواں ہو تا ہے۔ جس کو وہ پہلے اندر لے کر جاتا ہے پھر باہر لاتاہے تو گویا اپنی ان کہی بھی دھویں کے سنگ اڑا دیتا ہے اس سب کے باوجوداس نے بات کہہ دی کہ اْس نے بہت عرصہ بعدایک مرد کو سگریٹ پیتے دیکھا تھا۔ سانس اس لئے بھی رکا تھا کہ وہ باباکو خود سگریٹ لگا کر دیا کر تی تھی۔مگر یہ بات وہ کیسے کہہ سکتی تھی۔کہ محبت جب عشق ہو تا ہے۔سارے قانون بد ل جاتے ہیں۔ مگر وہ اس کو یہ نہ بتا سکی کہ اس کے آفٹر شیو لوشن کی مہک بھی اسے محسوس ہو رہی تھی۔ جو آج کے دورمیں معدوم ہو چکی ہے۔
”تم تک دھواں تو نہیں آرہا ناں؟۔۔۔
اس کے لفظوں کی بنت بتا رہی تھی کہ اس کو زندگی سے کوئی شدید گلہ ہے۔ وہ مسکرادی۔۔ کہ زندگی جیا ہے تو گلہ ہے۔
اس نے پوچھا کہ تم سکریٹ پیتی ہو؟کو ئی نشہ کرتی ہو
وہ مسکراکر کہنے لگی
”بے فکر رہو تم سے سگریٹ نہیں مانگوگی کیو نکہ میں پیتی ہی نہیں ہو ں،
سگریٹ کا دھواں آسمان کی طرف اڑا رہا تھا۔ اوروہ زمین کی طرف دیکھ رہی تھی۔
یہ بھی ایک رات تھی

Advertisements
julia rana solicitors london

جب صر ف ایک ہی حس کام کر رہی تھی۔ آفٹر شیو لوشن کی مہک ہوا ؤں کے سنگ اس کے چاروں اور پھیلی ہو ئی تھی۔ مگر اس نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیں تھیں۔تخیل وتصور کی پرواز سے اس کی تما م حسیں آج پھر ہم جان ہوگئیں تھیں۔ اور اس کی ذات کی نفی کر چکی تھیں۔
مگر اب ایسی راتو ں میں انڈورفنس جیت جاتا تھا۔
اور وہ مسکراتی رہتی تھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply