• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • جلد شائع ہونیوالے ناول” چُھٹکی” سے لیا گیا اقتباس(باب دہم)۔۔عارف خٹک

جلد شائع ہونیوالے ناول” چُھٹکی” سے لیا گیا اقتباس(باب دہم)۔۔عارف خٹک

خدا سے شکوے کرتے ہوئے دل کے اندر جیسے ایک معرکہ سا چل رہا تھا۔جبکہ باہر سارا غُبار آنسوؤں اور ہچکیوں سے نکل رہا تھا۔بچپن سے لیکر جوانی تک کی ہر کمی اور محرومی کا گلہ کررہا تھا۔برسوں سے چُپ تھا لیکن آج برداشت نہیں ہورہا تھا۔کیونکہ اب میرے پاس کھونے کے لئے کُچھ بھی نہیں باقی بچا تھا۔اسی حالت میں بیٹھے جانے کتنی ہی دیر گُزری۔کہ کسی ہاتھ کا لمس مُجھے اپنے کاندھے پر محسوس ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors

میرے اندر اتنی سکت نہیں تھی کہ میں نظر اُٹھا کر اُس دلاسہ دینے والے بندے کا شکریہ ادا کرتا۔۔نا ہی کوئی خواہش۔زندگی سے ہر احساس جیسے ختم سا ہوگیا تھا۔شرم و حیا سے آج اپنا ناطہ ٹوٹ گیا تھا۔اگر ہزاروں لوگ بھی مُجھے دیکھتے۔تو پرواہ نہیں تھی۔کسی نے اج تک میری کوئی پرواہ نہیں کی۔تو میں کیوں اور کس کی کروں۔زندگی میں پہلی بار حالات اور بے نام اندیشوں سے بغاوت کرنے پہ اُتر آیا تھا۔آنسو پونچھتے ہوئے میری نظر کندھے پر رکھے ہاتھ پر گئی۔تو جیسے ہزار وولٹ کا کرنٹ لگ گیا۔مُجھے لگا جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔اور خواب بھی بُہت سُہانا سابے، بے یقینی اور خوف کے مُلے جُلے احساسات سمیت میں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔مبادا یہ خواب ختم نہ ہو جائے۔یہ خوش گُمانی اور خود فریبی کہیں تلخ حقیقت کا رُوپ نہ دھار لے۔کیونکہ اس بار میں خود کو سنبھال نہ سکوں گا۔
میری آنکھیں بند کرنے سے کاندھے پر دھرے ہاتھ کی گرفت مزید مضبوط ہوگئی۔میں نے نہ چاہتے ہوئے سر اُٹھا کر نم آنکھوں سے دیکھا۔تو میری چُھٹکی کھڑی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ گئی نہیں تھی۔اُس کی آنکھیں لال ہورہی تھیں۔ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کافی دیر سے روتی رہی ہو۔میں ایک جھٹکے سے کھڑا ہوگیا۔اور بیتابی سے پوچھنے لگا۔
“تم گئی نہیں ہو؟”
میرے سوال پر اُس کا ہاتھ اُٹھا اور زناٹے دار تھپڑ میرا گال لال کرگیا۔چیختے ہوئے بولی۔
“کب سے انتظار کررہی ہوں۔کہ مُجھے روکو گے۔برسوں سے اس اُمید پر ساتھ رہتی آئی ہوں کہ کبھی تو میراہاتھ تھامو گے۔کب سے اشارے دے رہی ہوں۔کہ مُجھے روک لو۔مگر تم نے ایک کوشش تک نہیں کی۔”
میں چُپ چاپ اُس کے غصہ بھرے شکوے سُنتا رہا۔اُس کے سخت الفاظ جیسے پھولوں کی طرح محسوس ہورہے تھے۔اُس کا تھپڑ مُجھے بُرا نہیں لگا۔بلکہ مُجھے تو احساس ہی نہیں ہوا۔خوشی سے جیسے ہواؤں میں اُڑ رہا تھا۔میری جُرم کے حساب سے یہ تھپڑ کُچھ بھی نہیں تھا۔اُس وقت میرے لئے بس یہ اہم تھا۔کہ چُھٹکی واپس نہیں گئی۔میری روایتی بُزدلی کے لئے ایک تھپڑ تو کیا تھپڑوں کی بارش بھی وہ کردیتی۔تو پرواہ کس کافر کو تھی۔
چُھٹکی نان سٹاپ بولے جارہی تھی۔اور روئے چلی جارہی تھی۔میں نے بے اختیار اُس کو اپنی طرف کھینچا۔اور زور سے سینے سے لگا کر بھینچ لیا۔وہ بھی خود سپُردگی کے عالم میں میرے سینے سے لگ گئی۔میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔بلکہ اتنی خوشی شائد اب تک کی زندگی میں مُجھے ہوئی نہیں تھی۔جو کیفیت آج طاری تھی۔چُھٹکی کو بانہوں میں سمیٹے ہوئے میں نے سرگوشی کی۔
“تُجھے معلوم تھا۔پھر بھی جارہی تھی؟”
اُس نے شرمگیں مُسکراہٹ سے جواب دیا۔
“سید گُل کو دُعا دو۔جس نے سالوں بعد تیرے اندر غیرت جگا دی۔ورنہ میں نے ساری عُمر تیرے لئے یہاں اپنی زندگی برباد کردینی تھی۔”
میں نے مصنوعی ناراضگی دکھاتے ہوئے بانہوں کا گھیرا کھولتے ہوئے اُسے خود سے پرے کردیا۔اور بولا،،،
“کیا کہا؟”
وہ مسکراتے ہوئے پھر سے میرے گلے لگ گئی۔اور بولی،،،
“تم تو خان صاب بالکل مرد ہو ہی نہیں۔بڑی مشکلوں سے تیرے اندر کے مرد کو جگایا ہے۔”
میں نے زیرِلب سید گُل کو گالی دی۔اور بےخودی سے چُھٹکی کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ پیوسٹ کردئیے۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply