• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • خالد جاوید کا ناول ” موت کی کتاب”: ایذا رسانی کی کتاب(دوسرا،آخری حصّہ)۔۔فیصل اقبال اعوان

خالد جاوید کا ناول ” موت کی کتاب”: ایذا رسانی کی کتاب(دوسرا،آخری حصّہ)۔۔فیصل اقبال اعوان

اس کتاب میں ایک بہت ہی رکیک اور بساندھ مارتی زندگی پیش کی گئی ہے۔ بیان بے حد مریضانہ اور کراہت انگیز ہے۔ اگر اس کی علامتی یا تمثیلی تعبیر کی جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ زندگی کی زبونی، فروماندگی، نکبت اور غلاظت کی علامت ہے۔ اس کی روشنی میں ہم ایک ہی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ زندگی اپنی اصل میں دکھ، گٹھن، گندگی، تکلیف، نا آسودگی، ملال اور پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں۔ جینے کا مطلب ہی دکھ اور عفونت میں جینا ہے۔ ناول اس کراہئیت کا اظہار کرتا ہے جو زندگی کے چہرے سے امید اور خوش فہمی کا غازہ اتر جانے کے بعد آدمی محسوس کرتا ہے۔ لیکن اس تعبیر میں مطلق سچائی نہیں۔ زندگی یکسر دکھ اور رنج و کلفت ہی کا نام نہیں بلکہ دکھ سکھ کی دھوپ چھاؤں سے عبارت ہے۔ غم و اندوہ، ہجرو فراق، نا امیدی و یاسیت کی اندھیری راتوں میں راحت و انبساط، وصل و ملاپ، امنگ و ترنگ اور نشاط و امید کے جگنو بھی چمکتے ہیں اور فکر کے اندھیروں میں ادھر ادھر روشنیاں بکھیرتے ہیں۔ صفحہ نمبر 130 کے دوسرے پیراگراف کی یہ لائنیں دیکھئے:
” میرا پورا سر کیچڑ، خون اور مادہ منویہ سے گیلا ہو گیا۔ بدبو اور تکلیف کی شدت سے میں سکتے میں آ گیا ہوں۔ مجھے چکر آ رہے ہیں، مگر اس دھمک کے صدمے سے میں ہل ڈل بھی نہیں سکتا۔ اب تو میں رو بھی نہیں سکتا۔ میں رو نہیں پا رہا ہوں۔ اپنا ہوش کھو رہا ہوں۔ میں مر رہا ہوں، نہیں میں یہیں اسی اندھے مقام سے ہوش سنبھال رہا ہوں۔ اپنی ہمزاد خودکشی کو میں نے اندھیرے کی اس دیوار سے دریافت کیا۔ اور اسی لمحے سے اسے اپنے شعور میں شامل کیا۔ اب میں واقعی مر جانا چاہتا ہوں۔ میں اس مہربان تاریک جنت میں دم توڑ دینا چاہتا ہوں۔ مجھے سخت پسینہ آ رہا ہے۔ خون سے لتھڑا ہوا پسینہ، خون کی بو پسینے کے ایک ایک قطرے میں شامل ہوگئی ہے۔ میں جینے کا ارادہ ترک کر رہا ہوں۔ میں اپنی صدیوں پرانی نا آسودہ خواہشات کا دامن چھوڑنا چاہتا ہوں، جن کی وجہ سے مجھے اس اندھیرے میں آنا پڑا۔ مگر اب میں اس سے باہر نہیں جانا چاہتا۔ میں واپس عدم میں لوٹ جانا چاہتا ہوں۔”

صفحہ نمبر 111 کا پہلا پیراگراف ملاحظہ فرمائیں:
” شدید سردی کے دن آرہے ہیں، زخموں سے پیپ کی دوری ختم ہوتی جارہی ہے۔ جلد ہی میں ایک قدِ آدم زخم کے اندر چلوں گا۔ مجھے صاف نظر آ رہا ہے کہ بس اب یہ ہونے ہی والا ہے۔ پَس، مواد اور خون سے لتھڑاا ہوا بجبجاتے ہوئے ایک کیڑے کی طرح، ہاں یقینا وہاں بہت بدبو ہوگی، مگر پھر بھی ایک نئی بدبو، آخر اس جنازے کو کب تک سنبھالے رہوں جس کے بوجھ سے میرے کندھے سڑ گئے۔ بدبو تو وہاں سے بھی آتی ہے اور بغل میں گیلا پن پر اتر آتا ہے بایاں کندھا بار بار اتر جاتا ہے۔ اس لیے اچھا ہی ہے کہ زخم سے پَس کی دوری ختم ہوئی میں نے اپنے چاقو کو دن بھر تیز کیا ہے۔ کئی روز ایسے گزر گئے کہ مجھے ٹھنڈے پسینے اور چکر نہیں آئے۔ آگہی کا راستہ کچھ کمینی اور بغض بھری دعاؤں نے مسدود کر رکھا ہے۔ خودکشی کم گو ہو گئی ہے مگر وہ ہر وقت میری پیٹھ پر اس طرح بیٹھی رہتی ہے جیسے گھاس کے میدان میں گھومتے اور چرتے ہوئے کسی چوپایے پر کوّا۔”
صفحہ نمبر 104 کی دسویں سے سولہویں سطر ملاحظہ ہو:
” ایک روز جب میں وہاں دیر تک بیٹھا رہا تو اچانک میری نظر ٹوائیلٹ کی سیٹ پر پڑ گئی۔ مجھے لگا جیسے میری بیوی نے سیٹ کو اپنی لپ اسٹک سے جگہ جگہ سے پوت ڈالا تھا۔ باہر ہوا چل رہی تھی کیونکہ کواڑ آہستہ آہستہ ہلنے لگے تھے۔ اندھیرا سا ہونے لگا۔ دونوں وقت مل رہے تھے۔ میں نے تاک میں رکھی ہوئی موم بتی روشن کی اور لپ اسٹک کو غور سے دیکھا۔ نہیں وہ گاڑھا گاڑھا خون تھا جو سفید پیلی سیٹ سے جگہ جگہ چپکا ہوا تھا۔ میرے پیر بری طرح کانپنے لگے۔ یہ خون میری آنتوں سے آیا تھا۔ یہ خون ان آنسوؤں سے تعمیر ہوا تھا جو پانچ سال کی عمر میں میری آنکھوں میں نہ آ کر، اس تاریک مقام پر بیٹھے بیٹھے میری آنکھوں میں اتر گئے تھے۔”
اس ناول میں جس زندگی کی تصویر ملتی ہے وہ دل کو افسردہ کرنے والی ہی نہیں بلکہ طبیعت کو منغض کرنے والی ہے۔ اس زندگی میں کوئی حسن ، زیبائی، لطف، خوشی، ولولہ، امید یا مسرت نہیں بلکہ جا بہ جا اعصابی گراوٹ، کوڑھ، جزام، برص، گندگی، غلاظت، نجاست،، تعفن، بول و براز، بدبو اور سڑاند ہے۔ سچے فن کار کے آرٹ کا جادو، تاریک ترین اور غم ناک ترین لمحات میں بھی قاری کو مغموم سے زیادہ مسحور اور متحیر کرتا ہے۔ اپنے مریضانہ افکار، انفعالیت، گندگی اور گھٹن سے قاری کو شرم سار ، بیزار اور منغض کرنا ادب نہیں بلکہ ادب پر غضب ڈھانا ہے۔ صفحہ نمبر 105 کے دوسرے اور تیسرے پیراگراف کی مندرجہ ذیل سطور دیکھیے:
” میں اپنی بڑھتی ہوئی داڑھی سے نہ صرف اپنے چہرے کو بلکہ پورے بدن کو ڈھک دینا چاہتا تھا۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں میرا جسم کسی کے پیٹ میں پہنچ کر ایک دن پیٹ کے کیڑے کی طرح فضلے میں لپٹا ہوا پانی کے ایک زبردستی ریلے کے ساتھ گندی نالی میں نہ بہ جائے، اس لیے میں نے اپنے ناتواں جسم کو غلیظ داڑھی، میل، غلاظت اور بدبو کے اندر احتیاط کے ساتھ چھپا کر رکھ دیا۔
ڈاکٹروں نے میری دعائیں بدل دیں۔ اب میں صرف نیلے رنگ کی گولیاں کھانے لگا جو میرا باپ اور میری بیوی مل کر بڑی مشکلوں کے ساتھ زبردستی میرے منھ میں ٹھونس دیتے تھے۔ گھر میری گندگی، کھانسی، بلغم، جوؤں اور بدبو سے پٹ کر رہ گیا۔”
صفحہ نمبر 104 کا آخری پیراگراف ملاحظہ کریں:
“میں نے جسم کا خیال رکھنا بالکل ہی چھوڑ دیا۔ میں گندا اور غلیظ رہنے لگا۔ میرا رنگ راکھ کی طرح سلیٹی مائل ہو گیا۔ میرے میل بھرے ناخن بڑھ کر دو دو انچ کے ہو گئے، جن سے میں اپنےجسم پر خراشیں ڈالنے لگا۔ میں اپنے پیلے اور کیڑے لگے سڑتے ہوئے دانتوں سے اپنی انگلیوں کی پوریں کاٹنے لگا۔ انگلیوں پر بدنما زخم بننے لگے، جو بھرتے نہ تھے۔ میں۔ان زخموں پر پیشاب کرنے لگا۔ جسم کے اندر اور باہر، جب دونوں ہی طرف اتنی گندگی تھی تو پیشاب میں انگلی ڈبونا اور دل کے لہو میں انگلی ڈبونا ایک ہی بات تھی۔”
صفحہ نمبر 105 کا پہلا پیراگراف کچھ یوں ہے:
” ٹوائیلٹ میں چیونٹے بڑھنے لگے۔ میرے پیشاب کی دھار گاڑھی اور سفید ہوتی گئی۔”
صفحہ نمبر 125 کے تیسرے پیراگراف کی مندرجہ ذیل سطور دیکھیے:
” یہ بہت شدید جھٹکے ہیں، میں زور زور سے چیخ رہا ہوں، مگر میرے ہونٹوں پر پلاسٹک کی چوڑی پٹی بندھی ہے۔ ان جھٹکوں سے میری آنتیں اچھل اچھل کر حلق میں آنے لگی ہیں۔ میرا پیشاب خطا ہو گیا ہے۔ میں ایک زلزلے کی زد میں ہوں۔”

صفحہ نمبر 128 کے دوسرے پیراگراف کی یہ لائنیں بھی ملاحظہ ہوں:
” اب میں خاموش کرسی سے اٹھ کر لڑکھڑاتا ہوا اپنی کوٹھڑی کی طرف بڑھ رہا ہوں۔ میرے سر پر نیند کا بھاری زنگ آلود صندوق ہے جس کے پیندے میں لگی ہوئی کیلیں میرے سر کے اس حصے پر چبھتی ہیں جہاں میری یادداشت دفن ہے۔ میں نیند میں پیشاب کر رہا ہوں۔ نیند میں کیا گیا پیشاب خواب میں کئے گئے پیشاب کی طرح ہوتا ہے۔ اس پیشاب کے ساتھ نیند کی کھراند بھی اندھیرے فرش پر پھیل جاتی ہے۔”

محولہ بالا پیشاب آور اقتباسات پڑھنے کے بعد یوں لگتا ہے جیسے یہ موت کی کتاب نہیں مُوت کی کتاب ہے۔
گلی سڑی لاشیں، غلاظت زدہ ماحول، کیفیات کا تشدد آمیز اور مریضانہ بیان آرٹ نہیں ہے۔ ان حقائق کو آرٹ کے حقائق میں بدلنے کے لئے لکھاری کو ایسا دستِ ہنر چاہیے جو مٹی کو چھو کر سونا بنا دیتا ہے۔ خالد جاوید صاحب کم از کم اس جوہر سے محروم نظر آتے ہیں، لیکن وہ فاروقی اینڈ ایسوسی ایٹس کے مؤکل ہیں جو ان کے ناول کی من چاہی اور من بھاتی تفسیر و تاویل اور معنی آفرینی کرنے میں مشغول ہیں۔ ان نقادوں کے پاس اتنا وقت کہاں کہ ناول کا محاکمہ بھی کریں اور اس کے حسن و قبح سے متعلق کوئی قدری فیصلہ بھی صادر فرمائیں۔ ہذیان کو عرفان ثابت کرنے والے، کسی تخلیق کا کیا اپنی تنقید کا دفاع بھی نہیں کر سکتے۔ ڈھٹائی پھر بھی دیکھنے لائق ہے کہ مجذوب کی بَڑ کو الہام تاویلنے میں غرق ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب نے ہمیشہ اپنے عہد سے نظریں چرائیں ہیں لہذا ہر وہ ادیب جو ان کی سنتِ مؤکدہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے عہد کی سچائیوں سے “پاک” ادب لکھتا ہے، موصوف لنگوٹ کس کر اپنے گرگوں کے نعروں میں، اس کے دفاع کے لئے اکھاڑے میں کود پڑتے ہیں۔ اور دنگل شروع ہو جاتا ہے۔ کبھی ہئیت پرستی کا داؤ لگ رہا ہے تو کبھی محمل نظریات کی قینچی ماری جا رہی ہے۔ اور پھر فاروقی صاحب لگاتے ہیں معمے اور گنجلک اسلوب کا دھوبی پٹکا۔ لیجئے صاحب! ادب ہو گیا چاروں شانے چت اور فاروقی صاحب بن گئے رستمِ گماں معذرت رستمِ زماں۔

علامتی اور استعاراتی اسلوب یقیناً سیدھے سادے بیانیے سے زیادہ تخلیقی اور تخیلی جہتوں کا حامل ہے لیکن اس کا ڈسپلن حقیقت پسندانہ اسلوب کے مقابلے میں بہت سخت ہے جس میں معافی کی گنجائش نہیں۔ زرا سی آنچ ہلکی رہ جائے تو علامت آپ کی حجامت کرا دیتی ہے۔ استعارے کے غبارے سے ہوا نکلتے ہی چرخ پہ جھولتا مصنف منہ کے بَل زمین پر گرتا ہے۔ “موت کی کتاب” کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی واقعہ ہوا ہے لیکن فاروقی صاحب بہ ضد ہیں کہ اس زیرِ ہلاہل کو قند کہا جائے۔
” موت کی کتاب” متکلم کی زبان سے بیان ہوتی ہے۔ قاری اس بیزار کن کردار کے ایک جیسے آہنگ اور لہجے میں، اس کی اوٹ پٹانگ اور طولانی تقریریں سننے پر مجبور ہوتا ہے، لیکن اس بیزار کن خطابت، بے جا تکرار اور حرف و معنی کا کچومر نکال کے بھی مصنف اور نقاد شاکی ہیں کہ یہ زخیرہِ اوخاش قاری پر فاش ہونا مشکل ہے جیسے کوئی مورکھ آپ کا دماغ چاٹ کر بھی گلہ کرے کہ آپ میری بات نہیں سمجھے گویا اس کی یاوہ گوئی بھی کوئی فلسفہ ہے جس کی تفہیم کے بغیر دین و دنیا برباد ہونے کا زبردست خطرہ یے۔ محترم, مبہم تحریر بدترین لکھت ہوتی ہے کہ اپنے بنیادی عقیدے ابلاغ ہی کی منکر ہو جاتی ہے۔ کوئی بھی صنفِ سخن، پہلے اچھی تحریر کی صفات کا امتحان پاس کرے گی؛ ناول، افسانہ، داستان اور شعر کی صفات کی کسوٹی پر بعد میں پرکھی جائے گی۔ میاں! آپ تو کوالیفائنگ راؤنڈ ہی میں باہر ہوگئے اصل مقابلے میں آپ کا تذکرہ کیسا۔
ناول پر ہندوستان کے معروف شاعر، ادیب اور پٹنہ کے سہ ماہی شمارے ” آمد” کے اعزازی مدیر، خورشید اکبر صاحب نے بھی دل چسپ تبصرہ کیا ہے: ” مقدمے کے توسط سے خالد جاوید نے ‘ موت کی کتاب ‘ کے ’ غیر معمولی ‘ ہونے کا پورا نفسیاتی بندوبست کر ر کھا ہے لیکن ادب کا سنجیدہ قاری اس طرح کی اضافیات ور لغویات میں کب الجھنے والا ہے۔ میں ان کی اس بات سے متفق ہوں کہ ایسی ایذا رساں تحریر قلم بند کرنے اور اسے کتابی صورت میں چھپوا کر منظر عام پر لانے کی کیا ضرورت تھی، جتنے مشورے قاری کو دیے جا رہے ہیں کاش مصنف نے خود ہی ان پر عمل کر لیا ہوتا۔” (سہ ماہی آمد، شمارہ۔ 1)
خالد جاوید صاحب ” عرضِ مصنف” صفحہ نمبر 7 میں فرماتے ہیں:
“میں شمس الرحمن فاروقی صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے باوجود اپنی مصروفیات کے میرے ناول میں نہ صرف دلچسپی لی بلکہ جگہ جگہ املا اور زبان کی غلطیاں ٹھیک کرنے کے ساتھ ساتھ ناول کی نوک پلک درست کرنے میں بھی مجھے اپنا حد درجہ تعاون بخشا۔
میری دانست میں فاروقی صاحب نے ناول منگوایا ضرور ہے، لیکن اس میں دل چسپی وغیرہ لینے کی زحمت نہیں کی۔ فاروقی صاحب کے تبصرے اور ان کی فکری دیانت داری لاکھ مشکوک سہی لیکن ان کی علمِ لغت اور املا میں مہارت لاریب ہے۔ اگر انھوں نے ناول کے املا اور اس کی نوک پلک سنوارنے میں کوئی دل چسپی لی ہوتی تو یہ کم از کم زبان و بیان کی اغلاط سے پاک ہوتا۔ اور اگر واقعی فاروقی صاحب نے اسے بہ غور دیکھا ہے تو پھر حسنِ ظن کا تقاضا ہے کہ املا کی اغلاط کو “شہرزاد کراچی” کے حسنِ طباعت کے کھاتے میں ڈال دیا جائے۔
صفحہ نمبر 23 میں توتا کو طوطا لکھا گیا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ مشتاق احمد یوسفی کے بہ قول ط سے طوطا لکھا جائے تو نہ صرف یہ کہ زیادہ ہرا لگتا ہے بلکہ ط کی وجہ سے اس کی چونچ بھی نظر آنے لگتی ہے۔ تفنن برطرف ، طوط کا یہ املا ط سے رائج ہوگیا ہے، لیکن اسے غلط العام ہی سمجھنا چاہیے ۔ درست املا توتا ہے۔
اسی طرح گھڑت کا املا گڑھت ( صفحہ نمبر 23)، صفحہ نمبر 39 پر صواب اور دیگر صفحات میں ثواب تحریر ہے۔ صفحہ نمبر 85 میں دھکیل، ڈھکیل بن گیا ہے اور صفحہ نمبر 91 میں گم صم ( ١٨١٨ء کو “کلیات انشاء” میں مستعمل ملتا ہے) ، گم سم کی صورت میں جلوہ افروز ہے۔ صفحہ نمبر 92 پر روغن کھرچ کو ملا کر روغنکھرچ لکھا گیا ہے، اسی طرح صفحہ نمبر 117 کے آخری پیراگراف میں کٹگھرے ( جوڑ کر) اور کٹ گھرے ( توڑ کر) دونوں طرح لکھا ہے۔ اس کے علاوہ کئی ایسے الفاظ جو توڑ کر لکھنا احسن ہیں انہیں جوڑ کر لکھا گیا ہے مثلاً دلچسپی، صحتمند وغیرہ۔ بہ قول ڈاکٹر فرمان فتح پوری، یہ غلط املا ہے ( بحوالہ اردو املا اور رسم الخط صفحہ نمبر 64 تا 65)
املا کی اغلاط کی ذمہ داری تو طباعت پر ڈالی جا سکتی ہے لیکن دیگر معائبِ بیان سے ناول نگار اور ان کے مداح نقاد کو بری الزمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ خالد جاوید صاحب سے نوآموز لکھاریوں جیسی اغلاط کی توقع نہیں تھی۔ تکنیک، اسلوب اور موضوع کے ساتھ ساتھ انھوں نے زبان و بیان کے حوالے سے بھی بہت مایوس کیا ہے۔ صفحہ نمبر 33 کے پہلے پیراگراف پانچ سطور میں چھ مرتبہ محبت کے لفظ کی تکرار ہے۔
” محبت زمین پر گرتی ہے پھر اٹھتی ہے۔ صرف کتے کی طرح چار ہاتھ پیر چلنے سے ہی ان مردہ نقابوں کو تاعمر سکتا تھا۔ محبت کی ماہئیت ہی ایسی ہے۔ محبت ایک کائی لگے ہوئے تالاب کی کھر پتوار میں الجھ کر رہ گئی ہے۔ محبت مٹی تو نہیں ہے مگر اب ایک داخلی غلط فہمی کا شکار ہو گئی۔ محبت ہمیشہ مغالطوں میں پھنسی رہتی ہے۔ اسے کبھی یہ پتہ ہی نہیں رہتا کہ اسے جانا کس سمت میں ہے۔ محبت کی لکیریں ہمیشہ بھنور بناتی ہیں۔”
صفحہ نمبر 63 کی دوسری سے تیسری لائن میں ماں کی گردان ہے:
” میری ماں کی ماں ایک میراثن تھی، مگر میری ماں نے تھوڑا بہت پڑھ لکھ لیا تھا اور اپنی ماں کا پیشہ نہیں اپنایا تھا۔”
اسی صفحے کے دوسرے پیراگراف میں سات مرتبہ ماں کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ صفحہ نمبر 75 کی تیرہویں سے سولہویں سطر میں مصنف پرچھائیں کا پہاڑا یاد کر رہا ہے:
” میں ایک مایوس کن پرچھائیں ہوں۔ اسٹیج پر کانپتی ہوئی یہ انسانی پرچھائیں نہیں، یہ کسی شے کی پرچھائیں بھی نہیں۔ یہ روشنی میں نظر آنے والی پرچھائیں نہیں ہے۔ یہ ہوا میں جھولتی ایک گندی گالی کی پرچھائیں ہے۔ اندھیرے میں بیٹھی شرمندہ ہوا کی پرچھائیں۔”
اسی طرح صفحہ نمبر 41 کے چوتھے پیراگراف میں جسم، صفحہ نمبر 45 کی ساتویں سے آٹھویں سطر میں حماقت، صفحہ نمبر 47 کے دوسرے پیراگراف میں اندھیرے، صفحہ نمبر 59 کی چھٹی سے آٹھویں سطر میں انکھیں اور اسی صفحے کے دوسرے پیراگراف میں نفرت، صفحہ نمبر 60 کے دوسرے پیراگراف میں رونے، صفحہ نمبر 85 کے دوسرے پیراگراف میں لکیریں، صفحہ نمبر 86 کی دوسری سے چوتھی سطر میں تمہارے، صفحہ نمبر 87 کے پہلے اور دوسرے پیراگراف میں روح، صفحہ نمبر 107 کے پہلے پیراگراف میں باٹ، صفحہ نمبر 115 کی آخری چار سطور میں کتے اور صفحہ نمبر 128 کے دوسرے پیراگراف میں پیشاب کی گردان, قاری کے اوسان اڑا دیتی ہے۔
مندرجہ بالا معائب کے باوجود ناول نگار، فاروقی صاحب کا شکر گزار ہے کہ انھوں نے اس کتاب کی نوک پلک سنوارنے اور املا کی اغلاط درست کرنے میں اس کے ساتھ حد درجہ تعاون کیا۔ ایسے تعاون سے تو طاعون کم ہلاکت خیز ہوتا ہے کہ بچت کا کوئی نہ کوئی امکان تو وہ بھی چھوڑ دیتا ہے۔ محترم! آپ کے لئے تو ناول کا موضوع ہی کچھ کم مہلک نہ تھا، اس پر ستم یہ کہ فاروقی صاحب کا تعاون مانگ لیا، بیڑا غرق تو ہونا ہی تھا، سو ہوا۔
خالد جاوید صاحب نے “عرض مصنف” صفحہ نمبر 7 میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ” لکھنا ایک تکلیف دہ عمل ہے۔ لکھ کر آپ دوسروں کو ایذا پہنچاتے ہیں اور خود آپ کے اندر بھی ایک گہرا زخم اگ آتا ہے ۔میں نے بارہا ایمانداری کے ساتھ یہ سوچا ہے کہ مجھے لکھنا بند کر دینا چاہیے مگر میری بد مذاقیوں کے یہ سلسلے ختم ہی نہیں ہو پاتے۔”
مصنف کے اس بلیغ اعترافِ جرم سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ خاصا حقیقت پسند ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک اور بات بھی پایہِ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ یہ عمل اپنے خطرناک نتائج کو ذہن میں رکھتے ہوئے عمداً کیا گیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر ناول نگار اپنی بد مذاقیوں پر قابو پا لیتا اور فاروقی صاحب کی بجائے اپنے دل کی بات سن لیتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تجزیات آن لائن

Facebook Comments