اردو مشاعرے، کل سے آج تک

اردو مشاعرے، کل سے آج تک
سکندر ابوالخیر
شاعری انسانی جزبات کی عکاسی کرنے کا ایک خوبصورت اور نہایت طاقتور ذریعہ ہے۔ یہ بات قرینِ قیاس ہے کہ شاعری میں کمال حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے موثر ابلاغ کا سلسلہ بھی اُسی وقت سے شروع ہوگیا ہوگا ۔ شاعر کا اپنے کلام کو سنانا، اس پر داد و تحسین وصول کرنا اس کو لوگوں کے جذبات ابھارنے اور تعلیم و ترغیب کا ذریعہ بنانا، کسی نہ کسی طور نسلِ انسانی کی تمام تہذیبوں کا حصہ رہا ہو گا۔
ہمارا موضوع اردو مشاعرے کی تاریخ کا ایک سرسری جائزہ لینا ہے اس لئے ہم مختصراً تذکرہ کریں گے ہندوستان کا جہاں اردو پروان چڑھی اور فارس اور عرب کا جہاں اس کی جڑیں ملتی ہیں۔
ہندوستان کی قدیم تاریخ میں شاعروں کا سنسکرت اور مقامی زبانوں میں شاعری کرنا، اس کو مجمع میں سنانا، اور اس میں جہاں راجاؤں کی سرپرستی کے تذکرے ملتے ہیں وہیں شاعروں کا امتحان لیا جانا اور ان کے لیے اقدار کے بلند معیار کے تعین کے تذکرے بھی ملتے ہیں ۔ کَوی سمّیلن قدیم روایات میں شامل ہے ۔
اس بات سے تو سب بخوبی واقف ہیں کہ عربوں میں شاعری میں مہارت اور بلاغت اس تہذیب کی قابل زکر خصوصیات میی شامل تھیں۔ میلوں ٹھیلوں میں شاعروں کا کلام خصوصی توجہ کا مرکز ہوتا۔ جنگوں میں شاعروں کو ساتھ رکھا جاتا جو اپنے قبیلے کے جنگجوؤں کا حوصلہ بڑھایا کرتے اور دشمن کی ھجو میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔ شاعر ہر جشن اور اہم موقع کا حصہ ہوتے تھے ۔ شاعری کے مقابلے ہوتے اور پذیرائی کے طور پر شاعر کا کلام لکھ کر قابل احترام جگہ آویزاں کیا جاتا۔
فارسی شعرا کا ایک دوسرے کو اپنا کلام سنانے کا رواج شروع سے موجود تھا ۔کبھی دو یا زیادہ شعراء جمع ہوتے تو کسی مصرعِ طرح پر متفق ہو کر اپنا کلام ایک دوسرے کی نذر کرتے۔ بڑے مشاعروں کے لئے غزل کا مصرع پہلے ہی سے دیا جاتا جس پر طبع آزمائی کی جاتی ۔ دربار کی حوصلہ افزائی بھی شامل ہوتی۔ یہ سلسلہ کافی عرصہ تک قائم رہا ۔ علامہ شبلی کی کتاب ” شعرا العجم ” اس بارے میں ایک اہم حوالہ ہے۔
مسلمانوں کی آمد کے ساتھ ساتھ فارسی زبان ہندوستان میں مقبول ہوتی گئی ۔ فارسی شاعری اس قدر عروج پر پہنچ گئی تھی کہ اسے سند کا درجہ حاصل تھا ۔ اردو زبان ہندوستان میں تیزی سے ترقی کر رہی تھی لیکن اکثر شعرا فارسی میں طبع آزمائی کو ترجیح دیتے تھے ۔ آہستہ آہستہ ہندوستان کے شعرا نے فارسی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی لکھنا شروع کر دیا ۔
دلی کے مشاعروں کی سلاطین نے حوصلہ افزائی کی ۔ مشاعروں کا اہتمام بڑی تہذیب اور لوازمات کے ساتھ ہونے لگا۔ لکھنؤ میں بھی امراء کی خاص توجہ اور سرپرستی کے ساتھ مشاعرے تہذیب کا اہم حصہ بن گئے۔ شرفاء اور امراء کے ساتھ ساتھ عوام الناس کو بھی شریک کیا جانے لگا۔ دکن، عظیم آباد (پٹنہ) اور قدیم بنگال بھی اس شاعرانہ تہذیب کا حصہ رہے۔
اسی دور میں استادی اور شاگردی کا رواج عام ہوا۔
اساتذہ اپنے شاگردوں کی بھیڑ کے ساتھ مشاعروں میں شرکت کرتے۔ شاعروں کی چشمک جہاں تفریح طبع اور دلچسپی کا باعث ہوتی اور شعرا کو زیادہ محنت اور لگن پر قائم رکھتیں وہیں ہنگامہ اور بدمزگی کا ذریعہ بھی بن جاتیں۔ بعض مرتبہ چپقلش کچہری اور کوتوال تک پہنچ جاتی۔ مشاعروں میں رقابت نے ایسا تکلیف دہ ماحول پیدا کیا کہ بادشاہ وقت کو محل میں مشاعرے بند کرنا پڑے ۔ ان سب کے باوجود مشاعرے اردو شاعری کی توقی کے لیے اہم وسیلہ بنے رہے ۔
مغلیہ سلطنت کے زوال اور عالمی حالات کی تبدیلی نے جہاں ہر شعبے کو متاثر کیا اردو اور مشاعرے دونوں ہی اس سے متاثر ہوئے ۔ باہر کی دنیا کے اثرات کے علاوہ شاعری میں پرانی روش کو تبدیل کرنے اور اسے بامقصد کرنے کے رجحانات سامنے آئے۔
جدید شاعری کے ساتھ مشاعروں میں بھی جدت آنے لگی۔ موضوعاتی مشاعرے کی داغ بیل پڑی۔
دلی اجڑنے کے بعد انجمن پنجاب لاہور کے مشاعروں میں اصلاح کا پہلو نمایاں تھا جو نہایت موثر ثابت ہوا ۔ دائرہ ادبیہ لکھنؤ نے بھی انجمن پنجاب کی حمایت میں آواز اٹھائی ۔ اسی دور میں اردو صحافت نے زور پکڑا اور گلدستہ جیسے موضوعاتی مشاعرے منعقد ہوئے اور ان میں پیش کردہ شاعری رسائل کی زینت بنی۔
سن انیس سو پینتیس سے ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا جس سے اردو شاعری میں اہم اور دورس تبدیلیاں ظہور پذیر ہویں۔ نئے شعرا کی اکثریت اس میں شامل تھی۔ مشاعروں کا رنگ یکسر تبدیل ہو گیا ۔ مشاعروں میں نظمیں سنائی دینے لگیں۔ جہاں مقصدیت نظموں کا محور بنی وہیں غزل پر عشقیہ خیالات کی اجارہ داری ختم ہو گئی ۔ غزلوں میں سماجی اور سیاسی موضوعات قابلِ قبول قرار پائے ۔ ریڈیو کے مشاعروں کا سلسلہ شروع ہوا تو شاعری اور اس کے پیغامات کو دور دراز سامعین تک پہچانے کا آسان طریقہ میسر آ گیا ۔
آزادی اور ہندوستان کی تقسیم کے بعد شعراء کی ہجرت اور سفر کی بندش نے ایک مرتبہ پھر ہر شعبے کو متاثر کیا ۔ علاقائی زبانوں کا عروج شروع ہوگیا ۔ اردو ہندوستان میں زوال پذیر ہونے لگی ۔
ہندوستان میں ہندی کوی سمیلنوں کا احیاء ہوا۔
علی جواد زیدی اپنی کتاب ” تاریخِ مشاعرہ” میں لکھتے ہیں ” اردو مشاعروں نے ہندی کوی سمیلنوں اور فارسی مشاعروں کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ خود فارسی مشاعروں پر عربی مشاعروں کی گہری چھاپ رہی ہے۔ اردو مشاعرے میں زمانہ گزرنے کے ساتھ اپنی خاص فضا، ماحول اور لوازم کچھ اس طرح متعین ہو گئے کہ وہ کچھ اور ہی چیز بن گئے۔ جب ہندی کوی سمیلنوں نے دوسرا جنم لیا تو وہاں بھی اردو مشاعروں کی پیروی ہونے لگی”
موجودہ زمانے میں غزلوں کا پھر سے احیا ہوا ہے اور اس میں مقصدیت اور سماجی حس کی جہت آنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ نظموں کے جنون نے کچھ پسپائی اختیار کی ہے ۔
ٹیلیویژن نے مشاعروں کو خوبصورت اسٹیج فراہم کیا۔ طنز و مزاح کی شاعری کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ موضوعات اور آدابِ مشاعرہ میں تبدیلی آتی گئی ۔ حلقہ بنا کر بیٹھنا اور شمع کی گردش معدوم ہو گئے۔ استادی شاگردی کا ادارہ ناپید ہو گیا۔ اسٹیج، لاوڈسپکر اور نظامت رواج میں آئے۔ تقدیم و تاخیر پہلے بھی مسئلہ تھے آج بھی ہیں۔ شعراء کی یاد میں شام منانے کا چلن عام ہوا ہے۔ مشاعروں کی ادبی حیثیت کمزور اور تفریحی حیثیت مضبوط ہو گئی ہے ۔ مشاعروں کی تعداد زیادہ اور شرکا کا شعری فہم کم ہو گیا ہے ۔ کوئی بڑا مشاعرہ جس میں بڑے شعراء کو ایک ساتھ جمع کیا جا سکے وہ مشکل ہی نہیں ناممکن ہو گیا ہے جس میں مالی وجوہات کے علاوہ سیاست اور گروہ بندی جیسے مسائل شامل ہیں ۔ ٹکٹ اور کاروباری اشتہارات کی مدد سے مشاعروں کا انعقاد ہونے لگا۔
اردو کے نئے مراکز وجود میں آئے ہیں اور معاشی اور تحفظ زندگی کی خاطر دنیا بھر میں ہجرت کرنے والوں کی پہلی نسل نے اپنی تہذیبی روایات کو باقی رکھنے کی کوشش کی ہے ۔ اس وقت دنیا کے بڑے شہروں میں بھی اردو مشاعروں کا باقاعدہ انعقاد ہوتا ہے اور ہر شہر میں کئی تنظیمیں اس کارِ ادب کا ذمہ اٹھائے ہوئے ہیں ۔ کئی مشکلات اور نقائص کے باوجود مشاعرے اردو شاعری کی خدمت میں مصروف ہیں ۔
دعا ہے کہ یہ سلسلہ اور اس میں بہتری کی کوششیں جاری رہیں ۔
سکندر ابوالخیر ۔
اس جائزے کی ترتیب میں علی جواد زیدی کی کتاب “تاریخِ مشاعرہ” سے حوالے لئے گئے ہیں ۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply