رودادِ مکالمہ کانفرنس کراچی

رودادِ مکالمہ کانفرنس کراچی
سجاد خان

مکالمہ کانفرنس اپنے وقت سے کوئی گھنٹہ بھر تاخیر سے شروع ہوئی، وجہ اس کی یہ تھی جس فلائٹ سے انعام رانا آرہے تھے وہ روایتی ریاستی بے ہنگم پن کے باعث تاخیر کا شکار ہوئی یعنی ایک وفاقی وزیر کے لئے تمام مسافروں کو زحمت دی گئی.
بالآخر انتظامیہ کی مشاورت اور غالباً انعام رانا سے رابطہ کے بعد کانفرنس شروع کردی گئی. معراج دوحہ صاحب نے خوبصورت ثنا خوانی سے محفل کی ابتدا کی. نظامت کے فرائض سعدیہ کامران صاحبہ انجام دی رہی تھیں اور اپنے فریضے سے خوب انصاف کررہی تھیں. پہلی تقریر کے لیے حافظ صفوان صاحب کا نام پکارا گیا جو اولیا کی سرزمین ملتان سے تشریف لائے تھے اور مدیر مکالمہ کی حیثیت سے موجود تھے انھوں نے مکالمہ کی غرض و غایت اور اہمیت سے آگاہ کیا اور بتایا کہ ویب سائٹ کی لکھاریوں کی تعداد تین سو متجاوز ہوچکی ہے. اور مژدہ سنایا کہ مکالمہ پر چھپنے والے مضامین کا مجموعہ چھاپا گیا ہے جو آپ کی خدمت میں پیش کیا جائے گا.
اس کے بعد مبشر حسین زیدی صاحب کو بلایا گیا جنھوں نے شاندار تقریر کی اور بتایا کہ سوشل میڈیا ابھی بچہ ہے اس کو بالغ ہونے میں وقت لگے گا. ان کی تقریر ہونے تک ابھی انعام رانا پہنچ نہیں پائے تھے۔ کہنے لگے مجھے کہا گیا تھا کہ مکالمہ کانفرنس میں آئیے آپ کو انعام ملے گا لیکن مجھے ابھی میرا انعام نہیں ملا جس پر زوردار تالیاں بجائی گئی.

مجموعی طور پر مبشر زیدی صاحب ہی پوری محفل پر چھائے رہے جن کی اسپیچ بھی تھی اور شاندار اسپیچ تھی ان کا انٹرویو بھی تھا اور وہ بھی جاندار تھا، دونوں میں ان کی ظرافت، ذومعنی جملے، خوبصورت قہقہے کم نہ تھے کہ اس دوران محفل بھی وقفے وقفے سے وہ جملے جڑ دیتے اور محفل کشتِ زعفران بن جاتی.

عقیل عباس جعفری صاحب، علی رضا صاحب اور دیگر شرکا نے بھی مختصر تقریریں کی جب کہ شاد مردانوی نے خوبصورت منظوم کلام سنایا.

بعد ازاں جب انعام رانا پہنچے اور انھوں نے خوبصورت انداز اور شیریں لہجے میں اپنی اسپیچ دی تو طویل تاخیر کی کلفت بھی جاتی رہی. کہتے ہیں میرے پہنچنے تک نصف سے زائد مقررین اپنی بات کہہ چکے جس سے ثابت ہوا کہ مکالمہ انعام رانا کا نہیں آپ سب کا ہے.

پروگرام کے دوران خوشگوار حیرت ہوئی جب ایک ادھیڑ عمر اور چاندنی بالوں والے کٹر لبرل ادیب جن کی اکثر شامیں آرٹس کونسل کی چار دیواری میں گزرتی ہیں، کو دمکتے چہرے کے ساتھ یہ کہتے سنا کہ مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے ان تمام لوگوں میں پندرہ بیس فیصد مولوی اور دینی طلبہ کو بھی دیکھ رہا ہوں. یہ میرے لیے ایک نیا اور انوکھا منظر ہے. ہم چاہتے ہیں کہ یہ لوگ یہاں آیا کریں، بیٹھا کریں، کچھ ہمیں ان سے سیکھنے کو ملے گا، غلط فہمیاں دور ہوں گی، رنجشیں مٹیں گی. ان کی باتوں سے ایک عجیب فرحت کا احساس ہوا کاش لبرل اور نان لبرل یا اہلِ مذہب دونوں کی یہی سوچ ہو تو انقلاب آجائے.

پروگرام کے پہلے سیشن یعنی تقریری سیشن کے بعد انٹرویو کا سیشن ہوا اور جس میں فیض اللہ خان، عارف خٹک اور انعام رانا کے خوبصورت انٹرویو سننے کو ملے.
پروگرام کے اختتام میں مہمانان کو انتظامیہ کی جانب سے سندھی اجرک اور ٹوپیاں ہدیہ کی گئیں. اور پھر جو فوٹو سیشن شروع ہوا تو ہر طرف کیمرے کی چکا چوند تھی اور کیمروں کے آگے مسکراتے چہرے تھے.

یوں محبتوں اور چاہتوں کی ملن شاندار مکالمہ کانفرنس کا اختتام ہوا اور ہم فیض صاحب کا یہ شعر پڑھتے ہوئے گھر لوٹ آئے.

Advertisements
julia rana solicitors

اٹھ کر تو آگئے ہیں ہیں تری بزم سے مگر
کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply