اختلاف رائے اور جمہوریت ۔۔ساجد محمود خان

                  اظہارِ  رائے کی آزادی جسے انگریزی میں فریڈم آف  سپیچ اینڈ ایکسپریشن کہا جاتاہے۔ اظہار رائے کی آزادی کا سادہ سامطلب بولنے کی آزادی ہے، اس میں لکھنے کی آزادی بھی شامل ہے۔کسی بھی جمہوری معاشرے میں شہریوں کو اظہار رائے کی مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے. اسی اظہار رائے کی آزادی سے ہمیں اختلاف رائے کا پتہ چلتا ہے اور اجتماعی طور آپس میں اختلاف رائے کا پایا جانا کسی بھی جمہوری معاشرے کی ترقی اور نمو میں اہم کردار ادا کرتا ہے. جب کسی بھی موضوع پر محتلف رائے سامنے آتی  ہیں، تو اس سے ہمیں اس زیرِ بحث موضوع کو مختلف زاویوں سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ اس بات کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ جب ایک موضوع یا مسئلے پر ایک سے زیادہ لوگ اپنی اپنی رائے پیش کرتے ہیں تو دراصل وہ تمام لوگ اپنی فہم و فراست اور تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے اس مسئلے کے پائیدار حل یا کسی منصوبے کی بہتری میں اپنے حصے کی شمع روشن کر رہے ہوتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ ایسی سینکڑوں مثالوں سے بھری پڑی ہے جہاں پر عظیم لوگوں کے درمیان بھی مختلف امور پر اختلاف رائے پایا جاتا تھا جس کا مقصد کسی بھی معاملے پر مختلف پہلوؤں سے غور کر کے اس کی خامیوں کو کم سے کم کرنا تھا.

اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کسی بھی صحت مند جمہوری معاشرے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے اور اسی امر کے پیش نظر اسمبلیوں میں حزب اختلاف کو ایک بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے. پاکستان کی موجودہ سیاست میں یہ امر نہایت خوش آئند ہے کہ ناصرف پارلیمنٹ بلکہ سیاسی پارٹیوں کے اکابرین میں بھی مختلف امور پر اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔  سیاست دان اس اختلاف رائے کے رکھنے کے باوجود بھی ایک چھتری تلے سیاسی عمل میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں.

حضرت مفتی شفیع رحمة اللّہ علیہ اختلاف رائے کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اہل عقل بصیرت پر مخفی نہیں کہ دینی و دنیوی دونوں قسم کے معاملات میں بہت سے مسائل ایسے آتے ہیں جن میں آراء مختلف ہو سکتی ہیں ان میں اختلاف عین عقل و دیانت کے مطابق ہے. وہ مزید بتاتے ہیں کہ ان میں اتفاق دو صورتوں میں ہو سکتا ہے ایک تو یہ کہ اس مجمع میں کوئی اہل بصیرت و اہل رائے نہ ہو یا پھر جان بوجھ کر اپنے ضمیر اور رائے کے خلاف دوسرے کی بات سے اتفاق کرے.

ہمارے وطن عزیز میں کچھ لوگوں کا یہ وطیرہ ہے کہ وہ معمولی اختلاف کو اتنا بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں جیسے ملک میں کوئی بہت بڑا کہرام مچ گیا ہو. اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ بعض اوقات اختلافات اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں جس سے بڑے بڑے نقصانات کا اندیشہ ہوتا ہے مگر کسی ایک مسئلے پر اختلاف رائے کو اتنی ہوا دینا اور لوگوں میں ایک منفی تاثر پیدا کرنا کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں نہیں ہے. حال ہی میں کچھ امور پر ایسے واقعات جن کا تعلق اہم اداروں سے متعلق قانون سازی سے تھا، بہت زیادہ  واویلا کیا گیا۔  یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلاف رائے  کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا اور ایک غیر یقینی کی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جو کہ ایک غیر ضروری واویلا تھا. میری ذاتی رائے میں اس طرح اختلاف رائے پر غیر ضروری تبصروں اور واویلا سے اجتناب کرنا چاہیے اور  حکومت، پارٹیوں، گروپوں وغیرہ کے درمیان موجود اختلاف رائے کو مثبت انداز میں دیکھتے ہوئے اپنی زبان اور قلم کو ملک اور قوم کی بہتری کے لیے مثبت انداز میں استعمال کرنا چاہیے۔ غیر ضروری اختلاف رائے رکھنے والوں کیلئے اعجاز رحمانی کی زبان  میں اتنا ہی کہوں گا

Advertisements
julia rana solicitors

اسے یہ حق ہے کہ وہ مجھ سے اختلاف کرے
مگر وجود کا میرے بھی اعتراف کرے
اسے تو اپنی بھی صورت نظر نہیں آتی
وہ اپنے شیشۂ دل کی تو گرد صاف کرے!

Facebook Comments

ساجد محمود خان
۔ سیاسیات کا طالب علم۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply