نہ آر نہ پار نہ بیچ منجدھار؟۔۔حسن نثار

آج کا عنوان ہی زندگی کی سب سے بڑی اذیت ہے اور امتحان بھی۔ انسان نہ ڈوبتا ہو نہ تیرتا ہو، نہ جیتا ہو نہ مرتا ہو، نہ فارغ ہو نہ کچھ کرتا ہو، نہ مایوس ہو نہ کوئی امید ہو، نہ زمین پہ ہو نہ آسمان پہ ہو، اس کیفیت کا کوئی ان افراد یا اقوام سے پوچھے جن کی نسلیں ’’ٹرانزٹ‘‘ میں ہی تحلیل ہو جاتی ہیں۔

میں ایک مائع ہوں تخلیق کے مراحل میںنہ جانے کون سے سانچے میں ڈھل رہا ہوں میں یہی کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔آپ کو یاد ہے بھٹو نے اس کیفیت کی اذیت سے نجات پانے کے لئے تختہ دار پر کہا تھا”FINISH ITʼʼ—– “FINISH IT”اس کا کیا مطلب تھا؟

درمیانی وقفہ بیحد دردناک تھا اور یہ درد کیا ہے؟نہ آر نہ پار نہ بیچ منجدھارمجھے اِس کنارے پہ مار دومجھے اُس کنارے پہ موت کے گھاٹ اتار دومجھے درمیان میں بیچ منجدھار غرق ہونے دولیکن مک دی مکائو اک طرف لگائومار دو لیکن سسکا سسکا اور ترسا ترسا کے نہ مارو کہ مجھے ہر ٹارچر قبول ہے سوائے زندگی اور موت کے درمیان ’’سسپنس‘‘ والے ٹارچر کے۔

کنفیوژن مت پھیلائو کہ کوئی چھوٹی موٹی سرجری نہیں ہو رہی۔ ملک اور معاشرہ کا ’’لیور ٹرانسپلانٹ‘‘ ہو رہا ہے، گردے تبدیل ہو رہے ہیں اور وہ جو لاڑکانہ سے لندن تک چیخ رہے ہیں، ’’مہنگائی‘‘ پر مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں ان کی مثال اس قاتل جیسی ہے جو اپنے مقتول کو بے رحمی سے قتل کرنے کے بعد اس کے جنازے میں شریک ہو کر اس بری طرح گریہ اور سینہ کوبی کرے کہ مقتول کے قریبی رشتہ دار بھی دنگ رہ جائیں۔

اقتصادیات نہیں، پورا کلچر تبدیل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اور اس طرح ہو رہی ہے کہ کبھی کبھی جلد بازی کا شک اور گمان گزرتا ہے اسی لئے چند روز پہلے ہی یہ مشورہ دیا تھا کہ جلد بازی میں بھی آہستگی اور دھیرج سے کام لو۔ اتنے تجربے کئے تو حالیہ تجربے کی تکمیل ہونے دو۔

عوام اور ہر ادارہ یقینی بنائے کہ ’’سائیکل‘‘ ادھورا نہ رہے۔ اسی خوف سے اس ملک کے ’’ٹی ٹی کپور‘‘ اور تمام ’’کمیشن کمار‘‘ کوئلوں پر ماتم میں مصروف ہیں کہ اگر یہ ملک ’’راجواڑے‘‘ اور ’’باپ دادا کی جاگیر‘‘ کی جگہ سچ مچ مضبوط ، متوازن، محفوظ اور مرتب قسم کا ملک بن گیا تو ان پیشہ وروں کا کیا بنے گا۔

جس ملک پر اولادوں کی حکومتوں کے خواب دیکھے جا رہے ہیں، یہ سب سراب میں تبدیل ہو گئے اور یہ ملک اس کے عوام کو واپس مل گیا تو قبائلی سرداروں اور دست کاروں کی سکیورٹی کیلئے کھربوں روپے کہاں سے آئیں گے؟ صحیح کہتا ہے وہ کہ ’’میں کرپٹ نہیں اس لئے فوج ساتھ ہے‘‘ یہ جو فوجی مداخلتوں کی آڑ لیتے رہے میں ہمیشہ حقارت سے انہیں یہ کہتے ہوئے آڑے ہاتھوں لیتا رہا کہ ان ٹاپ ٹو باٹم بددیانت، خودغرض اور نااہل بہروپیوں کی عزت کون کرے جن کے طفیلئے بھی یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ ’’کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں‘‘۔

بہت ہو گیااب آر یا پار یا بیچ منجدھارفیصلہ ہو جانا چاہئے کہ ایشین ٹائیگر بن کر جینا ہے یا ایشین چھپکلی اور ایشین کاکروچ بن کر جینا ہے۔ میجر سرجری میجر قسم کا حوصلہ، صبر، ضبط اور تحمل مانگتی ہے۔ عشروں پر محیط مرض بلکہ موذی امراض پر مہینوں میں قابو پانا ممکن نہیں۔ جتنے سال بگاڑ میں لگے، اتنے مہینے تو بنائو کے لئے درکار ہوں گے۔

چہرہ مسخ ہونے میں سیکنڈز لگتے ہیں لیکن اسے بحال کرنے کے لئے کاسمیٹک سرجری کو خاصا وقت صرف کرنا پڑتا ہے۔سچ یہ کہ میں خود کبھی کبھی کنفیوژن، فرسٹریشن اور اکتاہٹ کا شکار ہو جاتا ہوں کہ تعلق میرا بھی تو اسی قبیلے کے ساتھ ہے جو ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے جماندرو مرض میں مبتلا ہے لیکن پھر جب ٹھنڈے دل سے سوچتا ہوں تو ٹھنڈ سی پڑ جاتی ہے۔

IMFجیسا مہاجن بھی کہہ رہا ہے کہ’’پاکستانی معیشت میں بہتری توقعات سے بڑھ کر ہے‘‘پھر اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا’’ایکسچینج ریٹ مارکیٹ ریٹ کے مطابق، زرمبادلہ کے ذخائر میں توقع سے زیادہ اضافہ ہوا، جاری کھاتوں کا خسارہ تیزی سے کم ہو رہا ہے، ٹھوس معاشی پالیسیوں کا تسلسل جاری ہے‘‘حکومت بھی میڈیا کے ساتھ میچ ڈالنے سے احتراز کرے کہ یہ ’’میچ‘‘ تو فیلڈ مارشل نہ جیت سکے۔

میڈیا پر قابو کی آرزو ہوا کو مٹھیوں میں جکڑنے جیسی حماقت ہے۔ جتنی قوت میڈیا کو ’’فتح‘‘ کرنے میں صرف ہو گی اس سے آدھی قوت کے ساتھ مدلل جواب دو اور یاد رکھو میڈیا پر چخ چخ، الزام دشنام سن کر لوگوں کی بھڑاس بھی نکلتی رہتی ہے اور پریشر ککر پھٹنے سے محفوظ رہتا ہے۔

طیب اردگان اور عمران خان کو ساتھ ساتھ دیکھ کر دھیان اک خوب صورت امکان کی طرف گیا جس کا بیان پھر سہی۔ فی الحال اتنا ہی کافی ہے کہ صبر کا پھل میٹھا بھی ہو گا اور زیادہ بھی۔آر یا پار یا بیچ منجدھار نہیں ان شاء اللہ ہدف کے آر پار ہو کے رہیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply