کوئی شک؟۔۔۔۔گل نوخیز اختر

بات ہورہی تھی کہ ہم لوگ کتنے وہمی اور شکی ہیں۔ عدیل نے کوئی عملی نمونہ پیش کرنے کے لیے کہا۔ میں نے اسے ساتھ لیا اور اندرون شہر کی طرف روانہ ہوگیا۔ موچی گیٹ سے ذرا پہلے ایک تانگے والے پر نظر پڑی جس کا تانگہ شائد آجکل دودھ وغیرہ کی سپلائی کے کام آتا تھا۔ تانگے والا ایک درخت کے نیچے دراز تھا ، ساتھ ہی اس کا تانگہ اورگھوڑا بندھا ہوا تھا۔ میں نے عدیل کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اورآگے بڑھ کر تانگے والے سے سلام لیا۔ وہ چونک کرسیدھا ہوگیا۔ میں نے تانگے کی طرف اشارہ کیا’’چاچا جی یہ بیچنا ہے؟‘‘۔ تانگے والے نے اپنی آنکھیں ملیں، پھر غور سے میری طرف دیکھا اور کھنکار کر بولا’تانگہ یاگھوڑا؟‘‘۔ میں نے جلدی سے جواب دیا’نہیں! صرف یہ لکڑی والا تانگہ‘۔ تانگے والے نے ایک نظر بوسیدہ سے لکڑی کے تانگے پر ڈالی ، پھر سرکھجاتے ہوئے بولا’لے لو لیکن پانچ ہزار کا دوں گا‘۔ میں نے سرہلایا’بالکل ٹھیک ہے، آپ کل یہ تانگہ تیار رکھئے گا، ہم پانچ ہزار دے کر لے جائیں گے‘۔ میرا جواب سن کر وہ یکدم سن ہوگیا۔ ہم اٹھ کر چلے آئے۔
اگلے دن دوبارہ اس کے پاس پہنچے ۔آج اس کی طبیعت میں کچھ لاپرواہی سی نظر آئی۔ ہمیں دیکھتے ہی بولا’صاحب جی! اصل میں کل میں نیند میں تھا، ورنہ خالص دیار کی لکڑ کا تانگہ کون پانچ ہزار میں بیچتا ہے۔ ‘ میں نے اطمینان سے پوچھا’تو پھر آپ اس کا کیا لیں گے؟‘۔ اس نے ایک لمحے کا توقف کیے بغیر فوراً کہا’آٹھ ہزار‘۔ میں نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا’چاچا جی! میں آپ کو اس کے دس ہزاردوں گا، بس تانگہ کل مجھے دے دیجئے گا‘۔ یہ سنتے ہی تانگے والے کے چہرے پر شکوک کی پرچھائیاں لہرانے لگیں۔ہم پھر اٹھ کر آگئے۔ اگلے دن پھر پہنچے تو تانگے والا خاصا مضطرب نظر آرہا تھا۔ بات شروع ہوئی تو جلدی سے بولا’اصل میں یہ تانگہ میرے بھائی کا ہے اور وہ کہتا ہے کہ اب ایسے تانگے مارکیٹ میں آنے ہی بند ہوگئے ہیں، بڑا لاجواب پیس ہے لہذا پندرہ ہزار سے ایک پیسہ کم نہیں ہوگا۔‘ میں نے کچھ دیر سوچا ، پھر آہستہ سے کہا’میں آپ کو اس کے پچاس ہزار دینے کے لیے تیار ہوں، اب کوئی اعتراض؟‘۔ یہ جملہ سنتے ہی تانگے والا کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ کچھ دیر اسے میری بات پر یقین نہ آیا۔پھر جونہی حواس بحال ہوئے ایک دم سخت آواز میں بولا’جاؤ جاؤ کام کرو، میں نے نہیں بیچنا یہ تانگہ۔۔۔‘‘میں نے بہتیرا زور لگایا، رقم ایک لاکھ تک بڑھا دی لیکن تانگے والا لڑنے مارنے پر اتر آیا۔ میں نے عدیل کی طرف دیکھااور اس نے ہنستے ہوئے سرہلادیا۔
میری ایک رشتہ دار خاتون کی بیٹی کے لیے پہلا رشتہ ڈاکٹر کا آیا۔خاتون ہکا بکا رہ گئیں۔فوراً ہماری طرف دوڑی آئیں’بھائی جان میرا تو دل نہیں مان رہا‘۔ میں نے حیرت سے پوچھا’لڑکے کو آپ جانتی ہیں؟‘۔ اثبات میں سرہلا کر بولیں’ہاں! آٹھ دس سال سے جانتی ہوں، ملنے ملانے والے ہیں، لڑکی کو الگ گھر بھی لے کر دینے کو تیار ہیں۔‘ میں نے کنپٹی کھجائی’تو پھر دل کیوں نہیں مان رہا‘۔ سہم کر بولیں’لڑکا ڈاکٹر ہے، کھاتے پیتے لوگ ہیں، آخر میری بیٹی ہی انہیں کیوں پسند آگئی؟‘۔ میں نے اپنا سرپکڑ لیا۔ بہت سمجھایا کہ ضروری نہیں ہوتا بیس رشتے دیکھنے کے بعد ہی کوئی اچھا رشتہ ملے، بعض اوقات پہلا رشتہ ہی بڑا اچھا آجاتا ہے۔ لیکن وہ نہیں مانیں۔ بالآخر چھان پھٹک کے بعد انہوں نے اپنی ایم اے پاس لڑکی کی شادی ایک ایسے لڑکے سے کر دی جس کی گاڑیوں کی ورکشاپ تھی۔پچھلے دنوں خاتون آنسو بہا بہاکر بتا رہی تھیں کہ ڈاکٹر والے رشتے کے وقت شیطان نے انہیں ورغلا دیا تھا ورنہ وہ لڑکا تو ہیرا تھا۔
میرے ایک دوست کو ایک کمپنی کی طرف سے سافٹ ویئر انجینئر کی جاب آفر ہوئی۔ موصوف انٹرویو دینے گئے اور نوکری سے انکار کرآئے۔وجہ پوچھی تو بتانے لگے کہ کمپنی کچھ مشکوک لگ رہی تھی۔ تفصیل پوچھی تو بتایا کہ مجھے ڈیڑھ لاکھ تنخواہ، گاڑی اور گھر دے رہے تھے۔ اب بھلا اتنی تنخواہ اور مراعات کون دیتا ہے۔مجھے تو یقین ہوگیا ہے کہ وہ مجھ سے کوئی خطرناک کام کروانا چاہتے ہیں لہذا میں انکار کر آیا ہوں۔ آج کل یہی دوست پانچ پانچ سو روپے میں ویب سائٹس ڈیزائن کررہے ہیں اورجس کمپنی کے بارے میں انہیں شبہ تھا اس کے بارے میں پتا چلا ہے کہ وہ دوبئی کی کمپنی تھی اور اپنے سارے ملازمین کو دوبئی لے جاچکی ہے۔
ہمارا شک اور وہم اتنا پختہ ہوچکا ہے کہ ہم پہلی بار یقین کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے کہ کوئی ہمارے ساتھ مخلص بھی ہوسکتا ہے۔دوکاندار سے ریگولر ڈرنک کی بوتل لیں ، بے شک آپ دوکان سے باہر کھڑے ہوکر بوتل پی رہے ہوں، وہ پچاس روپے ایکسٹرا رکھ لے گا کہ جب بوتل واپس کرنے آؤگے تو دوں گا۔اُستاد کو یقین ہے کہ وہ جس بچے کو پڑھانے پر مامور ہے اس کے والدین اس کا معاوضہ کھاجائیں گے لہذا اس نے اصول بنا لیا ہے کہ فیس ایڈوانس لینی ہے۔کام کا معاوضہ کام کے بعد دینے کا رواج ہی ختم ہوتا جارہاہے۔ ڈاکٹر، سکول، گھریلو ملازم، بچوں کو سکول چھوڑنے والی وین۔۔۔سب ایڈوانس پیسے لیتے ہیں۔ مہینے کے بعد پیسے لینے والا کام صرف حکومت کرتی ہے یعنی پہلے بجلی، گیس، پانی استعمال کیا جاتاہے، پھر اس کا بل آتاہے۔
ہمیں شک ہے کہ ہر بندہ دو نمبر ہے۔۔۔اور یقین ہے کہ ہم ایک نمبر ہیں۔دوسروں کے ساتھ کچھ غلط ہوجائے تو یہ ان کے اعمال کی سزا ہوتی ہے لیکن ہمارے ساتھ ایسا کچھ ہوجائے تو یہ آزمائش ہوتی ہے۔خوش نصیبی کو لات مارنے میں بھی ہمارا ثانی نہیں۔ہمیں نوبل پرائز مل جائے پھر بھی ہم ناراض، آسکر مل جائے پھر بھی ناخوش۔۔۔اور ائیرپورٹ کے امیگریشن کاؤنٹر پر جامہ تلاشی لی جائے پھر بھی غصہ ۔اصل میں دنیا کو چاہیے کہ نوبل پرائز کسے دینا ہے، آسکر کسے دینا ہے یہ ہم سے پوچھ کر دیا کرے۔سوپچاس ہمارے بندوں کو بھی یہ انعامات ریگولر ملتے رہیں تو کیا حرج ہے ۔ لیکن دنیا چونکہ جاہل اور سازشی ہے لہذا وہ تو چاہتی ہی یہ ہے کہ اپنی مرضی ہم پر مسلط کرے۔
شکی اور وہمی لوگوں کی سب سے بڑی قسم وہ ہے جو اپنے مطلب کی ہر بات پر فوراً یقین کرلیتی ہے۔ہماری ماسی کہنے لگی ’صاحب جی! سنا ہے حکومت نے گیٹ کے باہر والی جگہ دھونے پر پابندی لگا دی ہے اور اب جو کوئی بھی ایسا کرے گا اسے دولاکھ جرمانہ کیا جائے گا‘۔ میں نے غور سے اس کی بات سنی اور سمجھ گیا کہ موصوفہ اپنے طریقے سے اس کام سے چھٹکارا پانا چاہتی ہیں لہذا مدعا حکومت پر ڈال کر گھر گھر دہشت پھیلانا چاہ رہی ہیں۔ میں نے اطمینان سے سگریٹ کا کش لیا اور دھیرے سے کہا’ثریا! تم نے آدھی خبر سنی ہے۔۔۔باقی کی خبر یہ ہے کہ حکومت نے کہا ہے کہ آئندہ جو ماسی بھی ہفتے میں تین سے زائد چھٹیاں کرے اس کی تنخواہ میں سے دو لاکھ روپے کاٹ لیے جائیں‘۔ یہ سنتے ہی اس کی تین منٹ طویل چیخ نکل گئی۔۔۔!!!!

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ روزنامہ جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply