یہ تحریر شریف خاندان کے خلاف نہیں ہے۔کاشف حسین

مجھے پتا ہے تم نواز شریف سے نفرت کرتے ہو، شدید مخالف میں بھی ہوں۔ میں بھی جانتا ہوں کہ یہ کتنے سالوں سے حکمران ہیں اور کیا کیا کر سکتے تھے مگر نہیں کیا۔ مجھے اندازہ ہے کہ اپنے اقتدار پہ سمجھوتے کرنے والوں کے اپنے بس میں کیا تھا اور کہاں ان کے پر جلتے ہیں۔ میں بھی خاندانی ملوکیت کے نام پہ سجائی گئی جمہوری بساط کا ناقد ہوں۔ میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مگر ٹھہرو !! بے وقوف دشمن مت بنو، اپنے ماضی سے سیکھو۔
کہاں بے نظیر بھٹو اور کہاں مریم نواز؟ جب تم یہ کہتے ہو نا کہ ان کاموازنہ ہو ہی نہیں سکتا تو تب تم بھی یہ موازنہ ہی کر رہے ہوتے ہو۔ ان دونوں کے موازنے کو جتنے بلند آہنگ سے رد کروگے معاملہ ہاتھ سے نکلتا جائے گا۔ مریم نواز بے نظیر بھٹو نہیں کیونکہ وہ مریم نواز ہے، لیکن تم بنا دو گے۔ جانتے ہو کیوں؟ کیونکہ پنکی” کو بھی دشمنوں نے “بے نظیر” بنایا تھا۔ تسلیم کہ مریم نواز 20 کروڑ پاکستانیوں کی لیڈر نہیں تو کیا بے نظیر تھی؟ وہ بھی تب کسی کے لیے پنکی، کچھ کے لیے  مغربی تہذیب کی نمائندہ، کئیوں کے لیے سکیورٹی رسک اور کسی کے لیے محض “عورت” تھی۔

مجھے پتا ہے مریم نواز کے پاس موروثیت کے علاوہ کوئی اہلیت نہیں تو کیا بے نظیر کے پاس تب بھٹو کے نام کے علاوہ کوئی اثاثہ تھا؟ ذرا بتانا محترمہ کے پاس تب کون سے مثالی ادارے بنانے یا چلانے کا تجربہ تھا؟ استقبال کے لیے لاہور میں امڈ آنے  والے لاکھوں لوگ کیا صرف بھٹو کے نام پر نہیں آئے تھے؟ بے نظیر کے کریڈٹ پہ جلاوطنی اور بھٹو کی قبر ہی تھی نا؟ تو مریم نواز بھی جلا وطنی کاٹ چکی اور مسلم لیگ کے ہر چاہنے والے کے دل میں نواز شریف کی کئی بار برطرفی اور نا اہلی کا مزار ہے۔ آج نواز شریف میرے اور آپ کے لیے بدعنوانی کا استعارہ ہے تو کیا؟ کل یہی لیبل اس سے زیادہ نمایاں طور پہ زرداری پہ چسپاں نہیں تھا؟ مریم نواز کے شوہر کا بھی ٹھیک اسی طرح منظم انداز میں تمسخر اڑایا جا رہا ہے جیسے تمھارے بڑے زرداری کی بھد اڑاتے تھے۔ رات کی تاریکی میں بھٹو کے پھانسی گھاٹ پہ جھول جانے کے بعد بہت سوں نے اسی طرح سکھ کا سانس لیا تھا جیسے آج نواز شریف کی نا اہلی اور بر طرفی پہ میں اور آپ شاد ہیں۔

لیکن کچھ گڑ بڑ ہے دوستو! ماضی گواہ ہے کہ یہ سب جب بھی ہوا پیارے پاکستان کو نقصان پہنچا۔ کہیں تاریخ اپنے آپ کو دہرانے تو نہیں جا رہی؟ بھٹوز کو مارنے اور نواز شریفوں کو برطرف کرنے سے اگر پاکستان پھل پھول رہا ہے تو میں بھی تمہارے ساتھ ہوں۔ لیکن ۔۔۔۔ اگر اس کے برعکس ہو رہا ہے تو سوچنا پڑے گا۔ تاریخ کا پہیہ موڑنا ہے تو اپنا چلن بدلنا ہوگا۔ سیاسی مخالفت کو نفرت اور دشمنی بنانے سے روکنا ہوگا۔ افراد کی بجائے معاملات کو زیر بحث لانے کا چلن اپنانا ہوگا۔ ہمیں خود کو بدلنا ہوگا

بے نظیر بھٹو کے لیے پھول جھاڑتے ہوئے، مریم نواز پہ انگارے برساتے پاکستانیوں! میرے عزیز ہم وطنو، ہوش کے ناخن لو۔۔اگر مریم نواز سے سچی نفرت کرتے ہو تو سنو! اپنی بندوقوں، توپوں اور زبانوں کے منہ بند کر لو۔ منہ سے کف اڑاتے ہوئے تہمتیں لگاؤ گے تو ہر دل عزیز بنے گی، قلم سے زہر اگلو گے تو اسی کا قد بلند ہوگا، بندوق تانو گے تو نہتی عورت دلیر لیڈر بنے گی۔ سکیورٹی رسک قرار دو گے تو عوام وزیراعظم بنا دے گی اور دھماکے کر کے مارنے کا منصوبہ بنانے  بیٹھو تو سوچ لینا کہ پھر کیپٹن صفدر کو سلیوٹ کرنا پڑے گا ۔ شش۔۔۔۔(میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ تحریر شریف خاندان کے خلاف نہیں ہے)

Facebook Comments

کاشف حسین
مجموعہ خیال ابهی فرد فرد ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply