ادب اور سماجی قبولیت۔۔امجداسلام امجد

گزشتہ دنوں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور اور انقرہ یونیورسٹی جمہوریہ ترکی کے اُردو شعبوں کے اشتراک سے اس عنوان کے تحت ایک دو روزہ ادبی کانفرنس ہوئی اور اس موضوع کے ایسے ایسے گوشے سامنے آئے کہ بہت سی دیکھی ہوئی چیزیں بھی نہ صرف نئی نئی سی لگنے لگیں بلکہ ان کے پس منظر اور پیش منظر بھی بدلتے چلے گئے۔

عرفِ عام میں اس بھاری بھرکم علمی اصطلاح اور نظری بحث کا مطلب صرف اتنا تھا کہ کیا معیاری اور مقبول ادب دو علاحدہ علاحدہ وجود ہیں یا ان میں کوئی اور تعلق بھی موجود ہوتا ہے اور اگر ایسا ہے تو اس کی نوعیت کو کس طرح سے سمجھا اور سمجھایا جا سکتا ہے۔

یہ بحث یوں تو بہت پرانی ہے لیکن اس جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں اس کے کچھ ایسے پہلو بھی سامنے آئے ہیں جو اگر بالکل نئے نہیں تو بہت حد تک غیر مانوس ضرور ہیں یعنی اب یہ صرف مواد اور ذوق کی درجہ بندی کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ اس نے ’’شہرت‘‘ اور ’’مقبولیت‘‘ کے ساتھ ساتھ ادبِ معلی اور ادبِ محلہ کے درمیان بھی کچھ نئی جہتوں کا اضافہ کر دیا ہے یعنی اب اس میں معیاری اور مقبول کے ساتھ ساتھ ’’مشہور‘‘ کی میم بھی شامل ہو گئی ہے (یہاں میم سے مراد حروفِ تہجی والی ’م‘ ہے اور اسے زیر کے ساتھ ہی پڑھنا ضروری ہے) یوں دیکھا جائے تو اب ’’ادب اور قبولیت‘‘ کی اصطلاح میں مقبول اور مشہور ایک طرف اور معیاری اور اعلیٰ دوسری طرف کھڑے نظر آتے ہیں۔ روائتی طور پر ان کے بارے میں مندرجہ ذیل تصورات ، سوالات کی شکل میں ڈھلتے نظر آتے ہیں۔

۱۔ کیا مقبول سے ہماری مراد گھٹیا، سطحی اوربغیر ذہن پر زور دیے سمجھ میں آ جانے والا ادب ہے؟ ۲۔ کیا مقبول ادب ’’معیاری‘‘ اور معیار ادب ’’مقبول‘‘ نہیں ہو سکتے؟ ۳۔ کیا دونوں کا ایک ساتھ رہنا اور چلنا ممکن ہے؟ ۴۔ کیا معیاری سے ہماری مراد غیر مقبول ادب ہے؟ ۵۔ کیا کسی ادب کا مقبول ہونا اُس کے غیر معیاری ہونے کے لیے ایک شرط ہے؟ ۶۔ کیا سوشل میڈیا وغیرہ پر حاصل کی گئی یا باقاعدہ منصوبہ بندی سے تعمیر کردہ شہرت کو مقبولیت کے خانے میں رکھا جا سکتا ہے؟۷۔ معیار اور مقبولیت کا آئیڈیل توازن کیا جا سکتا ہے؟

ان سوالوں کی لسّی کو مزید پتلا بھی کیا جا سکتا ہے مگر میرے نزدیک اس مسئلے کا موزوں ترین حل عظیم چینی لیڈر اور ادیب ماوزے تنگ نے 1942 کی ینان کانفرنس میں اس طرح سے پیش کیا تھا :

’’دنیا کا سارا ادب پراپیگنڈہ ہوتا ہے مگر سارا پراپیگنڈہ ادب نہیں ‘‘اس تشریح کی روشنی میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ:’’دنیا کا سارا معیاری ادب مقبول ادب ہوتا ہے مگر سارا مقبول ادب ’’معیاری‘‘ نہیں ہوتا‘‘

ڈاکٹر ضیا الحسن نے اپنی گفتگو میں اس مسئلے کی بنیاد ٹیکنالوجی کے فروغ اور یورپ کے اُس سرمایہ دارانہ نظام میں تلاش کی جس میں آزادی ، تعمیری اور تخلیقی سوچ اور اخلاقیات بنیاد تصورات کو اپنی مرضی سے زمانے اور اس کی اہمیت کو گھٹانے کے لیے طاقتور طبقوں نے دنیا کو اُس معاشیات کی بنیا دپر استوار کرنے کی کوشش کی جس کی جڑ اُن کے طبقاتی مفادات میں تھی اور یوں ادب میں بھی مقبولیت کو ایک قابلِ فروخت جنس اور کاروباری ہتھکنڈے کی شکل دے دی گئی اور اسے اُن اعلیٰ انسانی اور اقداری نظام اور فکر سے زیادہ بڑا اور دنیا وی طور پر نفع آورشئے بنا دیا گیا تا کہ اس کے ذریعے سے اس فکر کا راستہ روکا جا سکے جو تبدیلی کے راستے کھولتی اور ہموار کرتی ہے ۔ ممکن ہے پہلی نظر میں یہ بات کسی مفروضے جیسی لگے لیکن میرے خیال میں یہ مفروضہ کئی ایسی حقیقتوں پر بھاری ہے جن کی معنویت اور مقصدیت کا دارومدار اجارہ داری اور استحصال پر مبنی رویوں کی حفاظت اور ان کا فروغ ہے۔

امرِ واقعہ یہ ہے کہ مقبول اور معیاری ادب کے درمیان کوئی حدِ فاصل کھینچنا تقریباً ناممکن ہے کہ بیشتر صورتوں میں یہ دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلتے دکھائی دیتے ہیں البتہ ایسا مقبول ادب عام طور پر کم معیاری ہوتا ہے جو کسی خاص اور محدود وقت میں یک دم گھنے بادلوں کی طرح ہر طرف پھیل تو جاتے ہیں مگر کچھ ہی دیر میں اس طرح بِنا برسے بکھر بھی جاتے ہیں کہ بعض اوقات اُن کا نشان تک باقی نہیں رہتا۔ دُور کیوں جایئے آج سے صرف تیس چالیس برس کے بے حد مقبول ادب کو یاد کرنے کی کوشش کیجیے تو آپ کو خود بخود اس سوال کا جواب مل جائے گا ۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ معیار اور مقبولیت کے فرق اور تعلق کو جاننے اور سمجھنے کے لیے کسی اصول پر مبنی کوئی ایسا پیمانہ ابھی تک معرضِ وجود میں نہیں آیا جسے مکمل طور پر مستند کہا جا سکے لیکن ایسی مقبولیت جو وقت کے طوفان میں تھوڑی بہت کمی بیشی سے قطع نظر قائم اور سلامت رہے اور survive کرسکے اس بات کا ثبوت سمجھی جا سکتی ہے کہ اس کی جڑ ’’معیار‘‘ یہی ہے اور تھی ۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ مقبولیت جس کی اساس معیار پر ہو اس کے survive کرنے کے احکامات نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں جب کہ عظیم ادب صرف دستبرد زمانہ سے محفوظ ہی نہیں رہتا بلکہ زمان کے دائرے سے نکل کر اپنی ایک الگ دنیا بسا لیتا ہے۔ ایک ایسی دنیا جس میں عوام اور خواص کی تمیز ایک طرح سے اپنا وجود ہی کھو بیٹھتی ہے غالباً اس طرح کی کسی ایک دوسرے کا رستہ کاٹتی ابلاغی صورتحال میں ہی میرؔ صاحب نے یہ شعر کہا تھا کہ :

شعر میرے ہیں گو خواص پسند

پر مجھے گفتگو عوام سے ہے

ادب اور سماجی قبولیت کے اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے ایک مثال یوں بھی دی جا سکتی ہے کہ کسی فن پارے کی مقبولیت کے دو بظاہر ایک جیسے مگر بن باطن مختلف معیار تماشائی اور تماش بین کے درمیان موجود باریک مگر بہت بنیادی فرق سے بھی سمجھے جا سکتے ہیں وہ یوں کہ جب تک تماشا دکھانے والا اپنی مرضی سے تماشا دکھاتا ہے تو اُس کے ناظر یا تماشائی اپنی پسندیدگی کا اظہار اس کے بنائے ہوئے دائرے کے اندر رہ کر کر تے ہیں لیکن جب یہ تماشائی اپنی پسندیدگی کے اظہار کے لیے تماش بین کی شکل اختیار کر جاتے ہیں تو پھر تماشا ان کی شرطوں کا پابند اور محتاج ہو جاتا ہے اب چونکہ تماش بینوں کی پسندیدگی کے تقاضے نہ صرف بدلتے رہتے ہیں بلکہ ان کی سطح بھی مسلسل گرتی رہتی ہے کہ وہ اپنے سفلی جذبات کی تسکین کے لیے تماشا گر کو معیار سے دُور اور اپنی ذہنی سطح سے قریب تر لاتے چلے جاتے ہیں اور وہ زیادہ سے زیادہ تالیوں اور واہ واہ کے شور کو مقبولیت گردا نے کی خود فریبی میں یہ بھی بھول جاتا ہے کہ تماش بین کبھی کسی کا نہیں ہوتا اور اس نے کچھ دیر بعد کسی اور تماشے کی طرف نکل جانا ہوتا ہے یعنی اس طرح کے سماجی قبولیت کے ڈرامے کی عمر دو چار سینوں سے زیادہ نہیں ہوتی اس طرح کے تماش بین اُس بے ہنر مداّح کی طرح ہوتے ہیں جن کی داد سے خوش ہونے کے بجائے سقراط کے اس جملے پر غور کرنا چاہیے کہ جب اُس کی کسی بات پر حاضرین میں سے ایک اَن پڑھ اور کم عقل نظر آنے والے بندے نے زور زور سے تالیاں بجائیں اور واہ واہ کا شور مچایا تو سقراط ایک دم رک گیا اور قریب کھڑے ایک ساتھی کی طرف دیکھ کر بولا:’’کیا میں نے کوئی بے وقوفی کی بات کی ہے؟‘‘

Advertisements
julia rana solicitors

گورنمنٹ کالج کے وائس چانسلر ڈاکٹر اصغر زیدی شعبہ اُردو کے اساتذہ ڈاکٹر خالد سنجرانی ، ڈاکٹر صائمہ ارم اور انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی سربراہ ڈاکٹر آسمان بیلن ازجان کو مبارکباد کہ اس کانفرنس نے ہم سب کو سوچنے اور سمجھنے کا ایسا خوبصورت موقع فراہم کیا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply