تنہائی کے پانچ سال۔۔رؤف کلاسرہ

آج‘ نعیم بھائی کے بغیر پانچ برس گزر گئے۔ 21 فروری 2013ء کو وہ فوت ہوئے اور یقین ہے کہ آتا نہیں۔ وقت کا دریا کتنی جلدی بہہ گیا۔
لیہ کی طرف جاتے ہوئے ایک دفعہ پھر وہی لمبا اور تکلیف دہ سفر درپیش تھا۔ پہلے مجھے لگا تھا کہ یہ ہم بہن بھائیوں کا نقصان ہے‘ نعیم بھائی جنہوں نے ماں باپ کی وفات کے بعد ہم سب کو باپ بن کر پالا پوسا تھا‘ وہ اچانک مسکراتے ہوئے غائب ہوگئے تھے۔ ایک رول ادا کرنا تھا وہ ادا کر چکے تو جانے کا وقت آ گیا۔ ان کے فوت ہونے کے کچھ دنوں بعد مجھے احساس ہونے لگا کہ ہمارا نقصان اُس نقصان کے مقابلے میں بہت کم تھا‘ جو ہمارے علاقے کے غریبوں کا ہوا تھا، ان کے بہاولپور کے دوستوں کا ہوا تھا، دنیا کے کس کس کونے سے فون نہیں آئے۔ کتنے پرانے دوست اور نئے‘ سب غمزدہ۔ ہر ایک کے پاس اپنی کہانی۔ہم سب بھی روتے دھوتے اپنی زندگیوں کی طرف لوٹ گئے۔ ان کے دوست بھی لوٹ گئے ہوں گے لیکن جب بھی گائوں جاتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ ان کا خلا پُر نہیں ہوا، نہ ہی ہو گا۔

ایک دن سوچا کہ میں خود نعیم بھائی بننے کی کوشش کیوں نہیں کرتا؟ اس خیال پر خود ہی مسکرا پڑا۔ میرے اندر وہ سمندر جیسا ظرف، عام انسانوں کے لیے بے پناہ محبت اور پیار کہاں جو ان کے اندر‘ ہر کسی کے لیے تھا۔ گائوں کا بچہ‘ بوڑھا‘ عورت‘ مرد سب ان کے دیوانے۔ ایک دفعہ عید پر گھر پہنچے تو اماں کی چھوٹی کوٹھری‘ جہاں ہم سب بچپن میں‘ سردیوں میں چولہے پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے‘ وہ ہر قسم کے کرائوڈ سے بھری ہوتی تھی۔ چائے کے دور چل رہے تھے۔ خواتین، مرد، بچے اور زیادہ تر اپنے علاقے کے غریب وہاں جمع تھے۔ ایک میلے کا سماں تھا۔ قہقہے لگ رہے ہیں، جگتیں ماری جا رہی ہیں، کوئی بڑا چھوٹا نہیں‘ سب انسان ایک چھت تلے اکٹھے تھے۔ میری بیوی نے یہ ماحول دیکھا تو اسے کچھ عجیب سا لگا۔میں نے کہا: نعیم بھائی کی اپنی زندگی ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی اپنی شرائط پر ہی گزاری ہے۔ وہ انہی غریب لوگوں کے ساتھ خوش رہتے ہیں۔ ان کے اندر کوئی احساسِ برتری‘ کوئی احساسِ کمتری نہیں۔ اسے اکبر بادشاہ کا دربار سمجھو‘ جہاں سب رنگ، نسل، مذہب اور ذاتوں کو برابر کا درجہ ملتا ہے۔ یہاں کوئی ٹھاکر، جٹ، ملک، مہر یا خان نہیں ہے۔ یہ ایسے ہیں اور ایسے ہی رہیں گے۔ تم مداخلت نہ کرنا۔ ہم بچپن سے انہیں ایسا ہی دیکھتے آئے ہیں۔

چند ماہ پہلے مجھے اندازہ ہوا کہ ان کے جانے سے ہمارے علاقے کے غریبوں کا کتنا نقصان ہواہے۔ گھر بیٹھا تھا کہ ایک لڑکی اپنے بھائی کے ساتھ آئی۔ اس کے ہاتھ میں دیسی مرغا تھا۔ مجھ سے پوچھا: آپ ڈاکٹر نعیم کے بھائی ہو؟ میں نے کہا: جی۔ بولی: آپ کے لیے دیسی مرغا لائی ہوں۔ آپ کھائو گے‘ تو ہمیں لگے گا کہ نعیم کھا رہا ہے۔ میں دم بخود بیٹھا ان بہن بھائیوں کو دیکھتا رہا۔ انہیں بٹھایا اور پوچھا: آپ کون ہیں؟ بولی: آپ ہم بہن بھائیوں کو نہیں جانتے لیکن ہمارے بابا رب نواز کو آپ جانتے ہوں گے۔ مجھے یاد آیا‘ رب نواز اپنی فیملی کے ساتھ ہمارے گائوں کے قریب جھگیوں میں رہتا تھا۔ یہ لوگ چھوٹی موٹی محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے تھے۔ مجھے برسوں پہلے کا وہ دن یاد آیا جب رب نواز اپنی بیوی اور دو بیٹوں کو ساتھ لایا، نعیم بھائی گھر کے لان میں بیٹھے تھے۔ رب نواز ہاتھ باندھ کر روتے ہوئے بولا: ڈاکٹر صاحب میرے یہ دونوں بیٹے پیدائشی نابینا ہیں، آپ ہی کچھ کریں۔ نعیم بھائی‘ جو بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال میں آئی سرجن تھے‘ نے ٹارچ منگوائی۔ تھوڑی دیر تک دونوں بھائیوںکی آنکھوں کا معائنہ کرتے رہے۔ انہیں لگا کہ آنکھوں میں کچھ روشنی ہے اور آپریشن سے دونوں ٹھیک ہوجائیں گے۔ اپنی جیب سے دو ہزار روپے نکال کر رب نواز اور اس کی بیوی کو دئیے اور کہا: اس میں سے ایک ہزار آپ دونوں کا ہے‘ آپ جو چاہیں‘ کریں۔ لیکن یہ دوسرا ہزار آپ کا اور آپ کے بچوں کا کرایہ ہے۔ اگلے ہفتے بہاولپور میرے پاس پہنچ جائیں۔ اگر میں نے صرف ایک ہزار روپیہ دیا تو تم دونوں نے کھا جانا ہے اور بچے تمہارے یہیں رہ جائیں گے‘ لہٰذا دو ہزار روپے دے رہا ہوں کہ اس سے کرایہ دینا۔

وہ لڑکی بولی: میں چھوٹی تھی مگر میں بھی بابا، اماں اور اپنے دونوں بھائیوں کے ساتھ بہاولپور گئی۔ ڈاکٹر نعیم نے ہم سب کو اپنے گھر میں رکھا۔ ہم کئی ہفتے وہاں رہے‘ پہلے میرے دونوں بھائیوں کی ایک ایک آنکھ کا آپریشن ہوا۔ دو تین ہفتے بعد انہوں نے دوسری آنکھ کا آپریشن کیا۔ خدا کی رحمت سے بچوں کی بینائی لوٹ آئی۔اس لڑکی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ پھر کہا: ڈاکٹر نعیم نے میرے چھوٹے چھوٹے بھائیوں کی آنکھیں لوٹا دیں۔ ہم ان کے پاس کئی ہفتے رہے‘ انہوں نے ہمارا ایک روپیہ بھی نہیں خرچ ہونے دیا۔ رب نواز کی بیٹی بولتی رہی۔ یادوں میں گم سم میں خاموشی سے اسے سن رہا تھا۔

”ڈاکٹر صاحب جب بھی گائوں آتے تو ہماری جھگی ضرور آتے۔ وہ کہتے تھے کہ میری فیس یہ ہے جب بھی میں آیا کروں‘ دیسی مرغی کھلایا کرو‘‘۔ وہ اداس ہو کر بولی: اب چار سال ہوگئے ہیں۔ ڈاکٹر ہمارے گھر مرغی کھانے نہیں آیا۔ ہم مرغی تیار کرتے ہیں لیکن ڈاکٹر نہیں آتا۔ اب کسی نے بتایا ہے کہ تم آئے ہوئے ہو۔ میرے بابا رب نواز نے کہا: جائو رئوف کو مرغا دے آئو، ہم سمجھیں گے کہ ڈاکٹر نعیم نے کھایا ہے۔ پھر کہا: اب میرے دونوں بھائی بڑے ہو گئے ہیں‘ نارمل زندگی گزارتے ہیں۔ ان دونوں کی شادیاں کر دی ہیں۔ میں تھوڑا سا حیران ہوا اور بولا: وہ تو اتنے بڑے نہیں تھے‘ پھر کیوں اتنی جلدی شادی کر دی؟ بولی: اب پندرہ‘ سولہ برس کے ہو گئے ہیں۔ میں نے کہا: تو تمہارے باپ نے تمہاری شادی کیوں نہیں کی؟ بولی: میں نے شادی نہیں کرانی۔ میں نے پوچھا: یہ کیا بات ہوئی‘ دو چھوٹے بھائیوں کی کرا دی جن کی ابھی عمر بھی بہت کم ہے اور خود نہیں کی؟ وہ اداس ہو کر بولی: نہیں‘ میں نے شادی نہیں کرانی۔ میں اپنے ان دو چھوٹے معصوم بھائیوں کے ساتھ رہوں گی، ان کا خیال رکھوں گی۔ جب ان کی آنکھیں نہیں تھیں تو اس وقت سے یہ ہر وقت میرے ساتھ رہتے ہیں۔ انہیں ہر وقت میری ضرورت رہتی ہے۔ یہ میرے عادی ہو چکے ہیں اور میں ان کی۔ میں اب ان کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ مجھے اب بھی یاد آتا ہے کہ جب وہ میرے پاس آتے‘ مجھ سے باتیں کرتے تھے کہ بتائو آسمان کیسا دکھتا ہے، پرندے آوازیں نکالتے وقت کیسے لگتے ہیں؟ انسانوں کی شکلیں کیسی ہوتی ہیں‘ ہم کیسے لگتے ہیں‘ تم خود کیسی دکھتی ہو؟ ہمیں کوئی چیز کیوں نہیں نظر آتی‘ تم کیسے دیکھ لیتی ہو؟ اماں اور بابا کی شکلیں کیسی ہیں؟ جب رات کو کتے بھونکتے تو دونوں ڈر جاتے اور میرے بستر میں آکر مجھ سے لپٹ جاتے۔ میں نے ان کی انگلیاں پکڑ کر انہیں چلانا سکھایا۔ اب ان کے بغیر کہیں دل نہیں لگتا‘ اس لیے میں اپنے بھائیوں کے پاس رہوں گی۔

میں نے کہا: اب تو ان کی آنکھیں روشن ہوئے ایک عرصہ گزر گیا ہے۔ اب تو انہوں نے شادیاں بھی کر لیں۔ بولی: پھر کیا؟ مجھے ابھی بھی لگتا ہے کہ میرے چھوٹے بھائیوں کو ہر وقت میری ضرورت ہے۔ بس میں نے شادی نہیں کرنی‘ میں ساری عمر ان دونوں بھائیوں کے ساتھ گزاروں گی۔ وہ اچانک اداس ہو گئی پھر بولی: بس سب ٹھیک ہے‘ زندگی بہت اچھی ہے۔ لیکن کیا کریں اب ڈاکٹر نعیم صاحب نہیں رہے۔ ہم سب انتظار کرتے رہتے ہیں‘ اب ہمارے گھر کھانا نہیں آتا۔ سب ہمیں چھوٹی ذات کا سمجھتے ہیں‘ ڈاکٹر ہی ایک ایسا انسان تھا جو ہماری جھگی میں آتا تھا، اب کوئی نہیں آتا۔

نعیم بھائی کو نوبیل پرائز ونر ناول نگار گارشیا بہت پسند تھا۔ اس کے ناول کا اردو میں ‘تنہائی کے سو سال‘ کے نام سے ترجمہ بھی کیا تھا۔ اس لڑکی کی بات سن کر مجھے گارشیا کا ناول No one writes the colonel یاد آیا۔ ڈاکٹر نعیم کے بعد اب ان غریبوں کی جھگی میں بھی کوئی نہیں جاتا۔ اچانک اسے کچھ یاد آیا اور اس نے اپنے ہاتھوں میں سختی سے پکڑا مرغا میرے ہاتھ میں تھمایا۔ میں نے جیب سے پیسے نکال کر دینے کی کوشش کی تو اس کی آنکھوں میں آنسو ابھرے۔ مجھے اپنی حرکت پر شرمندگی ہوئی۔ اس نے پیسوں کو ایک طرف کیا۔ مرغا میرے ہاتھ میں تھمایا اور بولی: بس آپ کھا لینا، ہمیں لگے گا ڈاکٹر نے کھایا ہے۔ آنسو چھپائے اس لڑکی نے بھائی کا ہاتھ پکڑا اور گھر کی دہلیز پار کر گئی۔
نعیم بھائی سے جڑی‘ نہ ختم ہونے والی اداس تنہائی کو پانچ سال ہوگئے تھے!

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ 92 نیوز!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”تنہائی کے پانچ سال۔۔رؤف کلاسرہ

Leave a Reply