دوغلی عورت/روبینہ فیصل 

یہ تحریر اس حیرت کے بعد لکھی گئی ہے جو مجھے کشور ناہید کے اس مضمون کو پڑھ کر ملی جس کا تذکرہ ہمارے معروف صحافی حامد میر نے اپنے کالم میں بھی کیا ہے جس میں بقول حامد میر انہوں نے عمران خان کے خلاف مردانہ وار قلم چلایا ہے۔۔

 طوالت کے باعث اسے دو حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے تاکہ آپ مکمل ارتکاز کے ساتھ وہ جھوٹ، وہ تضاد، وہ دو غلے رویے دریافت کر سکیں جو ہمارے معاشرے کی تباہی کی اصل جڑ ہیں۔
احمد بشیر مرحوم (نیلم احمد بشیر، بشری انصاری، سنبل اور اسما کے والد محترم) اس لئے میرے پسندیدہ لکھاری ہیں کہ ان کی سادگی اورخلوص کی مٹھاس ان کے لکھے ایک ایک تلخ لفظ سے بھی ٹپکتی ہے۔مجھے بن ملے ہی ان کی سچائی پر ایمان اس لئے ہے کہ میں ان کی بیٹی نیلم احمد بشیر سے مل چکی ہوں۔ اتنی بڑی مصنفہ ہو نے کے باوجود جتنی” سادگی اور سچائی” ان میں ہے وہ احمد بشیر کا ہی عکس ہو سکتا ہے۔
احمد بشیر کی ایک خاکوں کی کتاب ہے” جو ملے تھے راستے میں “، اس میں سب ہی خاکے پڑھنے لائق ہیں مگر ایک خاکہ چھپن چھری ضرور پڑھیے گا۔۔اس کو پڑھنے کے بعد بھی میں دل و جان سے اس بات پر ایمان رکھتی تھی کہ میری یا دوسرے لوگوں کی ذاتی پسند ناپسند ایک طرف مگر محترمہ کشور ناہید صاحبہ حقوق ِ نسواں،جابر حکمرانوں پر بے لاگ تنقید،برا بر انسانی حقوق کے لئے ایک بلند آواز ہیں مگر۔۔۔
اس مگر کو فی الحال میں یہیں چھوڑتی ہوں اور بات کر تی ہوں احمد بشیر کی “چھپن چھری” کی۔۔
 وہ لکھتے ہیں کہ جب پہلی دفعہ کشور ناہیدنے انہیں اپنی دوسری کتاب کا تعارف لکھنے کو کہا تو وہ حیران ہو ئے کہ تب تک وہ ان کو اتنا نہیں جانتے تھے۔انہوں  نے سادگی سے پو چھا میں ہی کیوں لکھوں اور کیا لکھوں تو محترمہ نے فرمایا ;
“چونکہ تم مجھے زیادہ جانتے نہیں اس لئے مجھ پر لکھنے کے لئے تمہیں گپیں ہانکنی پڑیں گی ،اس سے تقریب دلچسپ ہو جائے گی، میں ان لوگوں کے نام بھی بتا دوں گی جن کے ساتھ میرے سیکنڈل قابل قبول ہو ں گے۔”
احمد بشیر؛ مگر میں سیکنڈل نہیں گھڑنا چاہتا، لوگوں کی بیویاں طلاقیں لینے لگیں گی۔
کشور ناہید؛ ارے نہیں، کوئی طلاق نہیں لیتا نہ دیتا ہے، بس بوریت دور ہو جاتی ہے،بلکہ سیکنڈل میں فائدہ ہی ہو تا ہے۔
احمد بشیر؛ نہ بھائی میں کسی کے خلاف سیکنڈل نہیں گھڑتا۔
کشور؛ تو اپنے ساتھ گھڑا لو۔
احمد بشیر؛ کوئی بات بھی تو ہو میرے ساتھ خواہ مخواہ؟
کشور؛ بات کا کیا ہے میں تمہارے دفتر آکر تمہارے زانو سہلا دوں گی،تم فوٹو گرافر تیار رکھنا۔”
مجھ ناچیز نے بہت سال پہلے جب یہ خاکہ پڑھا تو یوں پڑھا کہ آزاد انسان ایسے ہی سوچتے ہو ں گے۔۔یہ آزاد منش خاتون ہیں یقیناََانہیں زندگی میں بہت تنقید سننے کو ملی ہو گی تب ہی تو انہوں نے اپنی آپ بیتی کو طنزاً” بر ی عورت کی کتھا “کہاہے۔
اپنی اِس کتھا میں، وہ ایسے انسانوں کا عمومی اور ایسی عورتوں کا خصوصی دکھ لکھتی ہیں جو زندگی آزادی سے، اپنے حساب کتاب سے، اپنی سوچ سے جینا چاہتے ہیں اور زمانہ کیسے کیسے ان پر انگلیاں اٹھاتا ہے۔۔
اپنی کتھا میں وہ لکھتی ہیں۔۔۔“چھت پر چڑھ جا نا تو شور،اے ہے کوئی بلا بھوت چمٹ جائے گا، اے ہے لمبی چٹیا کوئی جن بھوت دیکھے گا تو عاشق ہو جائے گا۔۔اے ہے شادی خود کر لی (پسند کی شادی تھی) شرع منع کرتی ہے۔ میں دودھ نہیں بخشوں گی۔۔اماں نے کئی سال تک میرا چہرہ نہیں دیکھا اور جب دیکھا تو کلیجے سے لگا کر پیار نہیں کیا۔۔اے ہے شوہر کے مر نے کے پندرہ دن کے بعد وہ دفتر جا رہی ہے۔عدت بھی پو ری نہیں کر رہی۔۔توبہ توبہ کیا زمانہ آگیا ہے۔ “
اس معاشرے کو یہ بے باکی پسند ہو یا نہ ہو، مجھے یہ سب اچھا لگتا ہے یا نہیں مگر میں یہ تسلیم کر چکی تھی کہ کشور ناہید بوسیدہ رسم و رواج کی ایک باغی عورت ہے۔ اور انہیں اس بات کا کر یڈٹ دینا میں اپنا فر ض سمجھتی تھی۔۔
آہ! یہ کتنا بڑا جھوٹ تھا جو ہماری نسل کو ان نام نہاد لبرلز نے گڑتی کے نام پر چٹایا ۔میں کتنی غلط تھی اس لئے نہیں کہ میں ناسمجھ تھی اس لئے کہ جنہیں ہماری نسل صحیح سمجھتی رہی وہ کتنے غلط نکلے۔۔
پھر اس کتھا میں کچھ ایسے واقعات بھی تحریر ہیں جس میں کبھی کوئی استانی یا کبھی کسی کولیگ یا کسی سہیلی نے کشور ناہید کو گندی نظروں سے دیکھا مگر وہ اپنا دامن  صاف بچا گئیں اور ہم جنس پر ستی کی اس لعنت سے محفوظ رہیں۔
وہ ایم اسلم،قیسی رام پو ری، اس طرح کے ناولوں میں ہیرو ہیروئن کے ملاپ، شب عروسی کے قصے بار بار اور چھپ کر پڑھنے اور اس کے بعد لمبے لمبے سانس لے کر لطف اٹھانے تک ہی محدود تھیں  ۔۔حالانکہ لکھتی ہیں کہ ان کے سکول میں استانیوں اور لڑکیوں کے عاشقانہ قصے عام تھے۔
پھر اس باغی لڑکی نے سکول میں ہیڈ مسٹریس اور سیکنڈ ہیڈ مسٹریس کو بھی مطالعہ کے بڑے کمرے میں سرگوشیوں اور قہقوں کے درمیان ایک دوسرے کی گود میں دریافت کیا۔ اور وہاں سے بھی بھاگ گئیں۔۔
لکھتی ہیں؛ میرے لئے تو بے لطفی بھی ا س لئے تھی کہ میں تو خود اسی ذائقے  کے پاس سے بھاگی تھی “۔۔
اس بات کا ملال شائد انہیں عمر بھر رہا، اسی لئے تو اِس عمر میں جب وہ اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ ہڑپ کر چکی ہیں، ایسی باتوں کے متعلق سوچتی رہتی ہیں اور اپنے ذہن میں قصے بناتی رہتی ہیں ورنہ وہ ایک قومی ہیرو کے بارے میں ایسا فضول بہتان بغیر ثبوت کے نہیں لگاسکتی تھیں۔
 اور سنیے۔۔وہ،بر قعہ کے بارے میں لکھتی ہیں۔۔” ہاں بر قع تو سات سال کی عمر سے سر پر چڑھا اور یو نیورسٹی تک رہا۔کالج یونیورسٹی کے زمانے میں لیڈیز روم میں بر قع رکھ کر مباحثے اور مشاعرے میں حصہ لیتی پھر واپس بر قع  اوڑھ کر گھر پہنچ جا تی۔ “
اس ایک عمل میں کشور ناہید صاحبہ کی نسل کی منافقت نظر آجانی چاہیے تھی مگر ہم لاتوں کے بھوت ہیں ایسی باتوں سے کہاں مانتے ہیں۔
ان کی کتھا میں ہر اس بزرگ یا سینئر شاعر کا کچا چٹھا کھولا گیا ہے جس نے شاعری کی اصلاح کی آڑ میں محترمہ پر ہاتھ صافٖ کر نا چاہا اور پبلک میں کہتے سنا کہ؛” ارے یار اٹھنے ہی نہیں دیتی تھی، بڑی مشکل سے اٹھ کر آیا ہو ں۔۔” مگر ساتھ ساتھ ایسے کئی بزرگ شاعروں کا بھی تذکرہ ہے جس کی رہنمائی میں انہوں نے بہت کچھ سیکھا مگر تب یہ نہیں بتایا کہ وہ بزرگ اول الذکر سے کیسے مختلف تھے؟۔۔
عورت مرد کی برا بری کی بات لکھنے والی جب اپنی کتاب میں یہ لکھے کہ ہم نے اپنے افسروں سے دفتر کے سارے رُکے ہو ئے کام، ان کی خوبصورتی،ٹائی،اور ان کی جوانی کے رعب کے قصے ان سے سن کر مزے سے کروائے ہیں۔۔تو بات تو سمجھ آجانی چاہیے تھی کہ احمد بشیر چھپن چھری میں ا س کے لئے یہ کیوں لکھ رہے ہیں؛
“اسے یہ معلوم ہو گیا ہے کہ بر سر اقتدار لوگوں سے ذاتی تعلقات کے بغیر پاکستان میں زندہ رہنا مشکل ہے۔اور ایسے لوگوں سے ذاتی تعلقات قائم کر نا اسے آتے ہیں۔وہ بیک وقت نصرت بھٹو اور شفیقہ ضیا سے ذاتی تعلقات قائم کر سکتی ہے۔جنرل مجیب الرحمٰن اور اعتزاز احسن سے بر ابر تعلقات رکھتی ہے۔”
احمد بشیر کو چھپن چھری لکھ کر دو ضمیمے لکھنے پڑے۔۔ کیوں؟۔۔یہ میں آگے چل کر بتاتی ہو ں ابھی ضمیمہ ب سے یہ پڑھیے  اور جان لیجیے  کہ جتنی گھٹیا زبان انہوں نے عمران خان کے بارے میں استعمال کی اس کے پیچھے یہی نفسیات ہو گی۔۔۔
“کشور کی زندگی کا مرکزی جذبہ اپنے منفی امیج کا ابھار ہے۔ وہ احساس ِ کمتری کی وجہ سے اچھے بھلے مڈل کلاس شریفوں  اور عزت داروں کو، اگر وہ بڑے عہدوں پر فائز ہوں تو بجلی کے جھٹکے دے دے کر اپنی طرف کھینچتی ہے۔ مگر ان کے بڑے عہدے ختم ہو جائیں تو ان کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھتی۔ “۔
اسی خاکہ،وہ میں کشور کی دنیا داری کومزید اجاگر کرتے ہیں؛ “مثبت امیج کے لئے کشور کے پلے کچھ بھی نہیں ہے۔۔میں تو اسے خوش کر نا چاہتا ہوں اس لئے میں کہتا ہوں کہ وہ بڑی ذلیل عورت ہے۔ سنگدل ہے، چھوٹوں کو تھپڑ مارتی ہے، بڑوں کے آگے گھوڑی بن جا تی ہے۔ وہ انتہائی دنیا دار ہے۔ ہر قیمت پر آگے بڑھنا چاہتی ہے (یہ نقطہ دھیان سے پڑھاجا ئے)۔اس کی کہنی سیمنٹ کی بنی ہو ئی ہے۔ وہ سسٹم کو خوب سمجھتی ہے۔ “۔۔
 اب سمجھ جائیے کشور ناہید وغیرہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خود کو جبر کے نظام کا باغی کہا مگر در حقیقت پس پردہ اسی نظام سے ہاتھ ملائے رکھے، ورنہ کسی ظالم میں یہ جرات نہ ہو تی کہ وہ ایسے مالشیوں پالشیوں کے بغیر یہ نظام بر قرار رکھ سکتا،یہ درحقیقت لنکا کے راون کے وہ ہزاروں ہاتھ ہیں جوایک کاٹو تو دوسراآپ کو مار گرانے کو آجاتا ہے۔
احمد بشیر نے چھپن چھری میں جب کشور ناہید کو” گشتی عورت ” لکھا تو ایک طوفان بر پا ہو گیا۔ حقوقِ  نسواں کے علمبردار اپنی اپنی چھریاں نکال کر ان کے پیچھے لگ گئے۔۔ایک دانشور عورت کو گشتی کیوں لکھ دیا۔۔؟
خود کو مردوں کے بر ابر کہنے والی اور خود کو بے شرم، انوکھی اور بولڈ کہلانے   والی، مرد دوستوں کو گالیاں دینے اور ان کی گالیوں سے لطف  اندوز ہو نے والی کشورناہید، احمد بشیر  کے اسے” گشتی “لکھنے پر  ناراض ہو گئی۔۔اور میں احمد بشیر کی سادگی کی یونہی قائل نہیں۔ وہ اس بات کی وضاحت میں جو دو ضمیمے لکھتے ہیں وہ اس گالی کی نفی نہیں کرتے بلکہ اس کو مزید استقامت اور جلا بخشتے ہیں۔وضاحتی فقرہ صرف ایک یہی ہے کہ کشور ناہید کو “گشتی” میں نے نہیں ا س کے شوہر یوسف کامران نے کہا تھا میں نے تو صرف اس کے کہے کو  خاکے میں لکھ دیا تھا۔۔
گشتی والا پیرا گراف بھی لکھ ہی دوں۔۔
احمد بشیر لکھتے ہیں “یوسف کو یوسف کی حیثیت سے جاننے والا واحد شخص میں ہو ں۔ہم دونوں یوسف کی گاڑی میں جارہے تھے۔ آگے ٹانگے پر کشور بیٹھی نظر آئی،میں نے اسے اشارے سے متوجہ کیا اور جلتا ہوا سگریٹ اس پر پھینکا، میں نے ڈھیٹ ہو کر یو سف سے کہا”; اس نے نہیں دیکھا “۔
یوسف (کشور کا شوہر، احمد بشیر اس بات سے تب تک واقف نہیں تھے) رکھائی سے بولا;
“دیکھ لیا ہے بڑی گشتی عورت ہے تم اس کو نہیں جانتے۔”
احمد بشیر کے خاکے میں ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ محترمہ کو مرد خاص کر کے بڑی عمر کے مرد لبھانے رجھانے کا بہت شوق تھا، ان کے بارے فرماتی ہیں۔۔
” یہ لوگ بڑے خوب صورت استعارے ایجاد کرتے ہیں،اور اپنے اندر کی کان میں اتر کر آہستہ آہستہ چوری چوری تصورات کے خزینے لا کر میرے قدموں میں ڈھیر لگاتے رہتے ہیں۔دوسروں سے جلتے نہیں بلکہ ڈرتے ہیں۔سیکنڈل سے ان کی جان ہَوا ہوتی ہے۔”
احمد بشیر لکھتے ہیں؛“مگر وہ (وہی بڑی عمر کے مرد) کشور کی بد عادتوں کو جانتے ہیں،اپنی نیاز مندی کے ثبوت میں اس کو اپنا قیمتی سے قیمتی راز بتا کر وہسکی پینے چلے جاتے ہیں اور پھر کشور ان کو خوب بدنام کرتی ہے۔اس کے دل میں ان کے ملامت کے ڈھیر لگے ہو تے ہیں،وہ ان کی جذباتی پرورش کرتی ہے اور پیٹھ پیچھے ان کا مذاق اڑاتے نہیں تھکتی۔ “
یہ سب باتیں پڑھ کر، آپ کو یقین ہو جائے گا کہ یہ خاتون بہت آزاد خیال اور آزاد منش ہیں۔ اور ایسی طبعیت کے لوگ نہ صرف اپنے لئے جینے کا مکمل حق چاہتے ہیں بلکہ وہ دوسروں کو بھی وسعت النظری سے دیکھتے ہیں۔۔ مگر یہ بُت تب پاش پا ش ہوتا ہے جب معلوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگ اپنی آزادی کی خاطر جس منافقانہ سماج کے خلاف جنگ لڑتے رہتے ہیں،اصل میں وہ اسی کا حصہ بن چکے ہو تے ہیں اور ان کی ذات میں دوہرا اور دوغلا پن اس قدر پیدا ہو چکا ہوتا ہے کہ ان کی موجودگی معاشروں میں آزادی نہیں بلکہ گھٹن لاتی ہے۔
چھپن چھری میں احمد بشیر مزید لکھتے ہیں؛
 “اپنی ہم عمر عورتوں سے اسے نفرت ہے۔وہ ہر ایک کو چوٹ لگانے اور شکست دینے کی کوشش کرتی ہے۔وہ ان کے سامنے ان کے خاوندوں پر اچھل اچھل کر گرتی ہے جن کو اپنے خاوندوں پر ناز ہو ان کے سامنے خاص طور پر۔۔جب تک ان گھروں میں باقاعدہ فساد نہیں شروع ہو جاتا وہ وہاں جاتی رہتی ہے۔ “
احمد بشیر کہتے ہیں؛” اس نے خود سچ کا چہرہ کبھی نہیں دیکھا۔۔۔”احمد بشیر کے اس خاکے کی وجہ سے میاں بیوی کا جھگڑا ہو گیا اور احمد بشیر پریشان ہو گئے ۔” وہ مرد دوستوں کے زانو ؤں پر ہاتھ مار مار کر قہقہے لگاتی تھی اور اس پر یوسف کامران جلا کٹا رہتا تھا۔۔پھر بھی میرا خاکہ نزاع کی وجہ نہیں بننا چاہیے تھا۔میں ابھی خاکہ لکھ ہی رہا تھا کہ میرا ایک دوست اپنی بیگم کے ساتھ آگیا، پوچھنے پر بتایا کہ کشور ناہید پر خاکہ لکھ رہا ہوں۔۔
 بھابھی بولیں؛ کشور ناہید؟ اس پر لکھنے والی کون سی بات ہے؟ پھر آہستہ سے بولیں؛ حرامزادی، مشٹنڈی، منڈیاں دی کھیڈ “۔۔
اور میں سوچنے لگا واقعی کشور ناہید کے بارے میں لکھنے والی کون سی بات ہے؟۔۔۔ “
 احمد بشیر نے کشور کی ناراضگی کے بعد حیرت سے یہ بھی پو چھا ہوا ہے کہ جب کشور کو پتہ تھا کہ میں وضع داری سے نہیں لکھ سکتا تو اس نے مجھے خاکہ لکھنے کا کہا ہی کیوں۔۔ تو اس کا جواب میرے پاس ہے۔۔ یہ کام اللہ پاک نے آپ سے اس لئے کروایا کہ ہمیں ایسی جعلی ہیومن اور وومن رائٹس کا واویلا کر نے والی دانشور عورتوں کی اصلیت آ پ کے قلم سے ہی پتہ چل سکے۔
 احمد بشیر!اگر آپ چھپن چھری نہ لکھتے تو اس کے اندر چھپی چھری کا ہمیں کیسے پتہ چلتا،ہم تو بری عورت کی کتھا کی اس بہادر اور باغی عورت کو سیلوٹ مار مار کر اپنا ہاتھ ہی زخمی کرتے رہتے جو  اپنی آپ بیتی میں فرماتی ہیں؛
” کہ تقسیم ہندوستان کے وقت ہو نے والے جبر اور باپ کی جیل نے اسے آنے والے وقتوں کی جیلیں اور جبر سے شناسائی کروا دی تھی۔۔”
کشور ناہید،بنگال میں ہو نے والے بنگالی مرد و زن پر ہو نے والے پاک فوج کے ظلم پر احتجاج کی، مزاحمت کی علامت بن کر ابھرتی ہیں اور ہماری نسل اس بہادر عورت سے متاثر رہتی ہے،جس نے ضیائی مارشل لا کے دور میں مزاحمتی عالمی ادب کا ترجمہ کیا (کیونکہ تب دہشت کی اُس فضا میں اوریجنل لکھ نہیں سکتی تھیں )،جس خاتون نے ملک کی 87فی صد زمین پر صرف 13فی صد لوگوں کے قبضے کے خلاف آواز اٹھائی، جس نے” فئیر ویل ٹو یوٹرس” جیسی نظم لکھ کے سماج کی بوسیدہ روایتوں کو گرا دیا۔
سٹالن جیسے آمر کو للکارنے والی ادیبہ  اینا اخما تووا کو جب آپ اپنا آئیڈیل لکھتی ہیں تو ہم آپ کے قدر دان ہو جاتے تھے۔
 جب محترمہ نے لکھا؛” بچپن میں گھر والوں نے اور بڑے ہو کر سرکاروں نے ہمارے ہاتھ سے کتاب چھینی،چوراہوں میں کتابیں جلانے کے ورق تمہارا ہی ورثہ ہیں۔ کتابیں بین ہو نے کی تاریخ تمہارے اپنے زمانے کا حصہ ہے۔فتوؤں کی تاریخ تلاش کر نے کی ضرورت ہی نہیں۔ قدم قدم مسلمان ملک ایسی سنگ باری کی  زد میں ہیں۔ “
دوسروں کے فتوؤں پر تنقید کر نے والے بوڑھے ہو کر خود بھی وہی کام کر نے لگیں تو اس سے سستی موت ہی ہوسکتی ہے۔جو ہماری تہذیب کی ہمارے معاشرے کی ہو چکی ہے۔
احمد بشیر لکھتے ہیں؛ “جنسیات کے بعد اس کا دوسرا من پسند موضوع حقوق انسانی بالخصوص حقوق نسواں ہے۔ “کتنا غلط خیال تھا آپ کا۔۔ نسواں سے مراد صرف ان کی ذاتی اَنا ہو تی ہے۔۔
 اور  ملاحظہ فرمائیے خود بھی ضیائی مارشل کے بارے میں کہتی ہیں؛1979 سے 1993 تک شوہروں نے بیویوں کو زنا کے جرم میں جیل بھجوا دیا کہ وہ سکون سے دوسری شادی کر سکیں، بھائیوں نے بہنوں پر زنا کا الزام لگایا اور ان کا حق ِ وراثت ہڑپ کر لینے میں مردانگی محسوس کی، بیٹیوں کو باپوں نے زنا کا مجرم گردانا کہ وہ اپنی مر ضی کی شادی نہ کر سکیں۔ اور باپ وہ زر فروخت حاصل کر سکیں جس کے عوض ان کی زندگی میں آسودگی آسکے۔
عورتوں کے حقوق پر اتنا کچھ لکھنے والی! آج  عمر کے اس حصے میں جب خدا کے حضور پیش ہو نے کا وقت بھی جلد ہی ہوا جاتا ہے آپ فسطائیت اور ملائیت کے بدترین دور میں عورتوں پر ہو نے والے ظلم و ستم پر خاموش ہیں تو جان لیجیئے آ پ کے پرانے الفاظ سب ٹکا ٹوکری ہو ثابت ہو ئے۔
آپ کو یاد کرا دوں محترمہ! جب آپ ستمبر 1971میں سرکاری طور پر بنگال کے دورے پر گئی تھیں۔۔تو آپ نے لکھا تھا؛
“بوڑھی گنگا کے کنارے کیمپ بھرا تھا۔عورتیں ہی عورتیں۔ کیا میں انہیں عورتیں کہوں؟ مشکل سے تیرہ سے پندرہ سال کی پتلی پتلی لڑکیاں جن کی ابھی چھاتیاں بھی سانس نہیں لینے پائی تھیں مگر ان کے پیٹ چھٹے یا ساتویں مہینے کی گواہی دے رہے تھے۔ ان کے گھر والے کہاں تھے۔ وہ تو رات کے اندھیرے میں سازشی اور غدار کہہ کر مار دئیے گئے تھے۔ ان کی نسلیں خراب کر نے کے لئے ان کے ساتھ حرام کاری کی گئی تھی۔ وہ بے امان، بے جگہ بوڑھی گنگا کی گود میں سوکھے ہونٹ اور سوکھی آنکھیں لئے سرنگوں بیٹھی تھیں۔۔۔اقبال ہال کو خالی کرانے کے نام پر سارے لڑکوں کو مار دیا گیا تھا۔
مجھے میرے دوستوں نے میرے پاگل پن کی حرکتیں اور روتا پیٹتا دیکھ کر فوراً  جہاز میں سوار کرا دیا۔ میری رپورٹ پر دفتری سطح پر بہت سر زنش ہو ئی۔ مجھے اور ان سارے دوستوں کو جنہوں نے بنگالیوں کے حق میں بات کی غدار اور غیر محب وطن کہا گیا۔ میں تو کچھ بھی نہیں بول سکی کہ جس دن، دن دیہاڑے اعلان ہوا، اس دن شام پانچ بجے کی خبروں میں صرف اتنا کہا گیا “دونوں طرف کی فوجوں نے باہمی رضا مندی کے بعد ہتھیار ڈال دئیے ہیں۔ “ہمنوا دوستوں کو پُرسا دینے اور مل کر بین ڈالنے کو گھر سے نکلے تو سامنے کا منظر دیکھ کر میری ناقابل برداشت چیخ نکل گئی۔۔لوگ ہنس رہے تھے، لاپرواہ تھے، آئس کریم کھا رہے تھے۔۔اور اس کے بعد چھ ماہ تک میری آواز بند رہی تھی۔ڈاکٹر اس کا سبب نہیں سمجھ سکے تھے۔ “
میڈم آپ زندہ ہیں اور اس دور میں موجود ہیں جب ایک دفعہ پھر سے وہی فوج ہے، وہی مظالم ہیں، وہی غدار کی تکرار ہے،وہی عورتوں کی عزتوں کو پامال کیا جارہا ہے۔۔ وہی جوان لڑکوں کو مارا جا رہا ہے، آپ نے اس سارے ستم کے بعد کیا سیکھا؟ کیا آپ نے مزاحمت نہ کر نے پر مفاہمت کر لی ہے؟ یا آپ کی منافقانہ سوچ نے آپ کے معیارات مستقل طور پر دوہرے کر دئیے ہیں؟۔۔یا آپ کی آواز پھر سے چھ مہینوں کے لئے بند ہو گئی ہے؟  ورنہ کیا آپ کو نظر نہیں آرہا کہ عمران خان کی سپورٹر اور ووٹر خواتین کو پُر امن احتجاجی جلسوں سے کتنی بے غیرتی اور بے شرمی سے اٹھایاجا رہا ہے اور جب وہ کہتی ہیں کہ ہمیں ہاتھ نہ لگاؤ، ہم خود پولیس وین میں بیٹھ جائیں گی۔۔تو پولیس انہیں کہتی ہے اتنی شریف ہو تی تو گھر سے باہر نکلتی؟۔۔ میں حیران ہو ں آپ کا اور آپ جیسی بہت سی آزادی کے نام پر کھلا ڈلا لکھنے والی، کھلی ڈلی زندگی جینے والیاں کیسے خاموش ہیں؟ کیا عمران خان کی چاہنے والی خواتین، نسوانیت کے دائرے سے خارج ہو جاتی ہیں۔۔کیا آج نظام کی تبدیلی کے خواب دیکھنے والے، اپنے حق کے لئے آواز بلند کر نے والے لڑکے، انسان نہیں ہیں؟  آپ کے معاشرے کی اور آج کے دور کی فسطائیت اور ملائیت تو یہی کہہ رہی ہے۔ آپ اس پر آواز کیوں نہیں اٹھاتی ہیں؟۔
پھر آتے ہیں بری عورت کی کتھا کی طرف۔۔۔۔۔
” ایک دن میں جب،ڈھاکہ لبریشن میوزیم جہاں بنگالیوں کی پاکستانی فوج کے خلاف جد و جہد کی تصویری، صحافتی اور تحریری مسوادات محفوظ ہیں، وہاں  جانے لگی تو پاکستانی سفارت خانے کے عملے نے کہا وہاں  نہ جاؤ تکلیف ہو گی میں نے دل میں کہا “خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد۔۔”یہ سمجھنے کے لئے قتل گاہ جانا تو ضروری ہے۔۔”
کیا آپ سمجھتی ہیں کہ اس وقت کے خون کے دھبے نہیں دھلے تو کیا آج بہایا جانے والا خون دھل جائے گا؟ ان کو دھونے کے لئے آپ جیسے دانشور کتنے سال بعد ماتم کی صفیں بچھائیں گے اور سینہ کوبی کر کر کے آنے والی نسلوں کی آنکھوں میں دھول جھونکیں گے۔ وہی جبر کی کہانیاں اور مظلوموں کی سسکیوں اور آہوں کی دہائی دیں گے؟ اور آپ کا ادب مزاحمتی ادب کہلائے گا اور آپ مزاحمت کی علامت بن کر ابھریں گے؟۔۔
آپ لکھتی ہیں،جس طرح میرے باپ کو تحریک پاکستان میں شامل ہو نے کے جرم میں اٹھایا گیاتھا،بالکل اسی طرح 1970میں ان کے شوہر اور باپ کو اٹھایا گیا تھا۔ دو بھری گاڑیاں آئیں اور صبح چار بجے انہیں بٹھا کر لے گئیں۔ ایف آئی آر میں لکھا تھا ملزم نے کہا ہے;
” فوجی گدھے ہو تے ہیں، یہ ملک چلانا کیا جانیں۔” اس مقدمے میں یو سف کو ایک سال کی سزا ہو ئی (یہ سزا کس طرح ختم کرائی گئی اور پھر اس کا بھگتان مجھے کیسے اٹھانا پڑا۔۔)پھر اگلے سالوں میں میرے اوپر سی آئی ڈی لگی رہی مجھ جیسی نہتی عورت مارشل لا پہ غصہ اتارنے کو بس نظمیں ہی تو کہہ رہی تھی۔۔ہمارے سامنے ہر عمل جو ناروا تھا اور ہر ظلم جو ممکن تھا عذاب ِ بے اماں کی طرح مسلط تھا۔۔۔”
جس عورت نے اتنا جبر سہا ہو، اور فسطائیت کو اندر تک محسوس کیا ہو، وہ آج مظلوم کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھا رہی،اگر وہ آج خوفزدہ ہے تو خاموش ہو جائے مگر خواب دیکھنے والوں کی آنکھوں سے خواب تو نہ نوچیں۔۔ عمران خان جو مزاحمت کی علامت بن کر ڈٹا ہوا ہے اس کو توڑنے کے لئے اس پر ہر قسم کا گندہ الزام تو نہ لگائیں۔۔ مگر احمد بشیر پہلے ہی بتا گئے ہیں؛
 “وہ ان مردوں کو جن سے اس کی کوئی دنیاوی غر ض وابستہ نہ ہو تو وہ خوب ذلیل کر تی ہے اور خوشی سے پھولے نہیں سماتی۔۔”
آپ ظلم کے خلاف لکھتے ہو ئے فرماتی ہیں؛” بوسنیا میں لوگ اپنا ہی بول و براز کھانے پر مجبور ہو گئے۔ ان کے سامنے عورتوں کے ساتھ زیادتی کی گئی، صومالیہ اور گھانا میں قحط زدہ لوگ اونٹوں کی کھال کھانے پر مجبور ہو گئے، کشمیر میں سارے گھر خالی ہو گئے،صرف عورتیں اور بچے ہیں مگر بین نہیں کرتے ہیں۔ فلسطین اور کشمیر کی عورتیں جو نکاح کے وقت ہاں نہیں کہتی تھیں، بندوقیں تھامے ہیں۔ اپنے بچوں کو خود کفن پو ش کرتی ہیں۔ میری آنکھیں دھندلانے لگتی ہیں، امن، آشتی،سکون، ملکی سلامتی، کس داموں ملتی ہے۔بڑے ملکوں کے ترازوں میں ہم بے قیمت ٹھہرے۔ سرمایہ داری نظام کے قحبہ خانے آجکل تو انسانی آزادی کی جنگ لڑنے کا نام لے کر حملہ آوار ہو تے ہیں۔”
میڈم! آ پ کو دنیا میں ہو نے والا ہر جبر نظر آتا تھا، آزادی رائے اور صحافت سب کا پتہ تھا اور پھر اچانک 2022میں آپ کی یاداشت چلی گئی، آپ کی نبض تیز ہو گئی اور آپ حالت قومہ میں چلی گئیں کبھی نہ باہر نکلنے کے لئے یا اس وقت تک اسی حالت میں رہیں گی  جب تک آپ کے نفع کا وقت نہیں آجاتا، جب مزاحمتی الفاظ لکھنے کی قیمت عمران خان پر لکھے جانے والے مذمتی الفاظ سے زیادہ نہیں طے ہو جاتی؟
احمد بشیر لکھتے ہیں؛
“میں نے کشور ناہید کی توہین نہیں کی تھی اس پر کوئی الزام نہیں لگایا تھا۔ جیسی شوخ و شنگ وہ تھی ویسی ہی میں نے پیش کی۔۔۔وہ برداشت نہیں کر سکتی کوئی محفل اس پر ملامت کئے بغیر اٹھ جائے وہ مشاہیر کو برا کہتی ہے، بڑوں کے سوانگ بھرتی ہے، چھوٹوں کو چمکار چمکار کر گستاخی  پر ابھارتی ہے۔۔اس کے اندر کا صحرا گالیوں کی بڑی سے بڑی طغیانی سے بھی سراب نہیں ہو سکتا بلکہ اور پھیلتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کی روح پھیلتی ہے اور طاقت پکڑتی ہے اور اس کی پیاس اور بڑھ جاتی ہے۔ “
میرا خیال ہے یہی بات ہو گی ورنہ اس عمر کی دانشورہ کو، جس نے اپنی زندگی میں آزادی کے حق میں اور حبس کے خلاف لکھا ہو، جس نے خود یہ سب سہا ہو وہ  اس کڑے وقت میں جب ایک طرف سارا گلا سڑا نظام متحد ہو کر کھڑا ہے اور ودسری طرف عمرا ن خان مزاحمت کی چٹان بنا کھڑا ہے، اس آزمائش اور سخت دور میں وہ کپتان  کے بارے یہ لکھے کہ؛
 “مراد سعید عمران خان کی شامیں رنگین کرتا ہے” تو سوائے گالیاں کھانے کی   اس خواہش کے جس کا ذکر احمد بشیر نے کیا ہے اور کیا سبب ہو سکتا ہے؟۔
کیا ان جعلی آزادی صحافت و سیاست دانشوروں کی گالیاں کھانے کی پیاس اتنی زیادہ ہے کہ یہ اپنے الفاظ تک بیچ کر کھا جائیں؟ اور بغیر کسی ثبوت کے کسی پر بھی کوئی بھی بہتان لگا دیں؟
حالانکہ آپ کی ساری ادبی زندگی کی کُل کمائی ہی یہی ہے کہ آپ عورت کی مظلومیت اور انسان کے پسنے کے رونے روتے روتے یہاں تک پہنچی ہیں۔۔۔ کتنی جھوٹی سیڑھی پکڑ کر آپ لوگ چھت تک پہنچی ہیں۔۔ آپ کا نام آپ کا مقام صرف ایک جعل سازی کا نتیجہ ہے۔ تُف ہے ایسے دوغلے معیارات پر۔۔ اور دوغلی شخصیات پر جنہوں نے ہمارا نظام کھوکھلا اور اخلاقیات تباہ کر کے رکھ دی ہے۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply