• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ” لا ہور” صوبہ پنجاب کی ترقی میں رکاوٹ اور مستقبل کا ناقابل رہائش شہر۔۔ راؤ عتیق الرحمن

” لا ہور” صوبہ پنجاب کی ترقی میں رکاوٹ اور مستقبل کا ناقابل رہائش شہر۔۔ راؤ عتیق الرحمن

لاہور شہر ہندو روایات اور مفروضوں پر مبنی تقریباً 2500 سال پرانا شہر ہے اس شہر کانام رام چندر جی کے بیٹے” لو ” کے نام پر لو پور تھا جو کہ وقت کے ساتھ لاہور میں تبدیل ہو گیا ۔ چینی اور مصری سیاحوں نے 1800 سال قبل لاہور کا ذکر اپنے سفر ناموں میں کیا ۔ تاہم لاہور کا نام اسلامی تاریخ میں 976 عیسوی میں سبکتگین اور محمود غزنوی کے دور حکومت میں آ یا ۔ محمود غزنوی کے گورنر ایاز نے قلعہ تعمیر کروایا پھر حضرت علی ہجویری (المعروف داتا گنج بخش) لاہور تشریف لائے اور انکی تعلیمات سے متاثر ہو کر کثیر تعداد میں لوگوں نے اسلام قبول کیا ۔ اکبراعظم نے 14 سال تک لاہور کو دارالحکومت بنایااور شاہی قلعے کی جدید تعمیر اور توسیع کی جہا نگیر بادشاہ کے دور میں بھی لاہور نے بے حد ترقی کی ۔راجہ رنجیت سنگھ نے 1799 میں لاہور کو دوام بخشا ۔ برٹش راج میں لاہور سرمائی  دارلحکومت بنا ۔ پاکستان بننے کے بعد پنجاب کا دارالحکومت قرار پایا ۔ دریائے راوی کے کنارے آ باد لاہور جغرافیائی اور موسمی لحاظ سے بے حد مناسب جگہ پر واقع ہے یہ شہر باغوں پر مشتمل 12 دروازوں کا شہر (Walled City) کہلاتا تھا قیام پاکستان سے قبل لاہور کی تجارت اور سیاست پر ہندوؤں کا غلبہ تھا جبکہ لاہور کی جدید تعمیر سر گنگا رام کی مرحون منت ہے جنھوں نے لاہورکے جدید خدوخال سنوارے ۔ 1947 قیام پاکستان سے لیکر 1990 تک لاہور ایک کلاسیکل اور رومانوی شہر تھا پرانے لاہور کی سماجی زندگی اور رو مانوی روایات کی جھلک اے حمید اور مستنصر حسین تارڑ کی لاہور شہر سے متعلق تحریروں میں ملتی ہے ۔ مزاحیہ لحاظ سے لاہور کی حالت کا اگر آ ج بھی موازنہ کرنا ہے تو ” پطرس بخاری” کا مضمون ” لاہور کا جغرافیہ” پڑھیں۔۔ لاہورجسے تمام شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے پردیسیوں نے اپنا شہر بنایا اور نام کمایا تاہم وقت بدلا اور لاہور کے رنگ ڈھنگ بھی تبدیل ہوتے چلے گئے ۔۔ لاہور کی آ بادی اسوقت تقریباً ایک کروڑ پچیس لاکھ بتائی جاتی ہے تاہم یہ اعدادوشمار ہیں آ بادی کہیں زیادہ ہے ۔ اس وقت لاہور ایک کروڑ بارہ ہزار سکوائیر فٹ تک پھیل چکا ہے جبکہ مزید توسیع جاری ہے لاہور کے پڑوسی اضلاع قصور ، اوکاڑہ۔ شیخوپورہ اور گجرانوالہ جس شہر کی جانب بھی چلیں لاہور ساتھ چلتا ہے۔ 1990 کی دہائی کے آ غاز سے لاہور میں پنجاب کے دیگر شہر وں بالخصوص پسماندہ شہر وں سے نسبتاً خوشحال لوگوں اور کیا ایماندار اور کیا کرپٹ تاجروں اور ملازموں نے جدید رہائش اختیار کرنے کے لئے جبکہ غریب طبقے کے مزدور پیشہ لوگوں نے روزگار کی تلاش کے لئے لاہور کا رخ کیا یوں لاہور میں جدید ھاوسنگ کا لو نیوں کا کثیر تعدادمیں وجود عمل میں آ نا شروع ہوالاہور میں رہائش اختیار کرنے کی ایک دوڑ جاری ہے کچھ جزوقتی ہے جیسے تعلیم حاصل کرنا ، علاج کروانا ، مزدوری کرنا وغیرہ یہ عارضی اقامت ہیں لیکن لاہور پر دباؤ موجود رہتا ہے ۔ پھر اب جو طلبہ جدید تعلیم حاصل کر رہے ہیں انکی ملازمت کے مواقع لاہور کے علاؤہ پنجاب کے دیگر شہروں میں بہت کم ہیں کیونکہ پنجاب کے دیگر شہروں میں پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر میں ایسےنمایاں ادارے نہیں  ہیں جہاں انہیں ملازمت کا حصول ممکن ہو۔لہذا تعلیم کے بعد ملازمت ملنے پر لاہور میں مستقل قیام پذیر ہو جاتے ہیں ۔۔ اب وہ لوگ ہیں  جو لاہور میں رہنے کو اپنی ضرورت اور ترجیح قرار دیتے ہیں ان لوگوں کا کوئی  شمار نہیں یہ کثیر تعداد میں لاہور منتقل ہو رہے ہیں ان میں عام سوکھے لوگوں سے لیکر زمیندار ، کاروباری طبقہ ، ڈاکٹرز،انجینئرز، پروفیسرز اور سرکاری آ فیسرز کی کثیر تعداد ہے جو کہ لاہور مسلسل آ باد ہو رہے ہیں اور خاص کر ایم این ایز ،ایم پی ایز یعنی عوامی نمائندے ،بیوروکریٹ ، صحافی اورسرمایہ دار لوگ اپنی موج مستیوں کےلئے ایکڑوں زمین پر مشتمل فارم ہاؤسز تعمیر کرتے چلے جا رہے ہیں۔ غرض تمام شعبہ زندگی کے لوگ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں لاہور منتقل ہورہے ہیں ۔ کسی بھی شہر میں رہائش اختیار کرنا لوگوں کا بنیادی حق ہے اور جب سے دنیا وجود میں آ ئی  ہے لوگ ہجرت کر کے دوسرے شہروں میں اور دیگر ملکوں میں آ باد ہوتے چلے آ رہے ہیں ۔لیکن یہاں  زیر بحث لاہور شہر ہے جو کثرت آ بادی کی وجہ سے ہر قسم کی ٹاؤن پلاننگ سے باہر ہو گیا ہے ۔ مستقبل قریب میں کوئی  بندوبست نہ کیا گیا تو اس شہر کے مسائل پر قابو پانا ممکن نہ ہو گا ۔ کیونکہ دنیا بھر میں کسی بھی شہر میں رہائشی سکیم کی ٹاؤن پلاننگ کر کے یہ تعین کیا جاتا ہے یہاں کتنی  آبادی کو سہولیات فراہم کی جارہی ہیں اگر تعداد کا تعین کر کے 5 لاکھ لوگوں کو سہولت دی جائے تو 5 لاکھ افراد ہی اندراج کروا کر رہائش ا ختیار کریں گے مقرر کردہ تعداد سے زیادہ نہیں رہ سکتے، یوں با آ سانی سہولیات دستیاب رہتی ہیں ۔ جبکہ پاکستان کے کسی بھی شہر بالخصوص لاہور میں کبھی پانی کا نہ ہونا ، گیس کا نہ ہونا، بجلی کا نہ ہونا ، تکنیکی خامیوں کے علاوہ کثرت آ بادی کا نتیجہ ہے ۔ جبکہ ٹو ٹی پھوٹی سڑکیں ,گند کچرا ، سیوریج صحت اور ٹریفک جام جیسے مسائل علیحدہ ہیں ۔ ۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی کے ذہین قابل افراد جو کہ پنجاب کے مختلف شہروں سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے  دیکھا کہ وہ اپنے شہروں میں ناموری نہیں پا سکتے تو انہوں نے لاہور کا رخ اختیار کیا ،یوں ناموری کے علاوہ انکے مالی معاملات بھی بہتر ہو گئے ۔

صوبہ پنجاب کے دیگر شہروں میں آ باد قابل افراد کو لاہور بسنے کی تر غیب / ترقی اور مالی فوائد کے باعث پنجاب کے دیگرشہروں کا ترقی، تعلیمی، کھیلوں اور ( Brain Drange) کے لحاظ سے لاہور استحصال کا باعث بن رہا ہے ۔ جبکہ دوسری طرف لاہور پنجاب کا دارالحکومت ہونے کے علاوہ حکومتی، سیاسی، ثقافتی، سماجی ،صنعتی، تعلیمی ، طبی ، عدالتی، ہوٹلنگ، ٹریولنگ ، تفریحی مقامات، اور زندگی کے تمام شعبہ ہائے کا مرکز ہے ۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے صوبہ پنجاب اور پاکستان کے حکمرانوں کاتعلق لاہور شہر سے ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ وسائل کا استعمال لاہور پر کیا گیا،اس طرح پنجاب میں ترقی کا ارتکاز لاہور پر آ کر رک جاتا ہے اور یوں حکمرانوں کے ساتھ فنا نسرز کو بھی مالی لحاظ سے فوائد حاصل ہوئے اور پھر لاہور پہلے سے ہی دیگر شہروں سےترقی یافتہ تھا ۔ لاہور اس وقت خواجہ میر درد کے شعر سے معذرت کے ساتھ کہ” لاہور کہ  اک شہر ہے عالم میں انتخاب ” کی مانند ہے مزید یہ کہ” لہور لہور ہے ” ” جہنے لہور نہیں ویکھیا او جمیا نہیں” جیسے محاوروں سے مالامال ہے جوکسی بھی دوسرے شہر کے باسیوں کو لاہور دیکھنے اور رہنے کی پُرکشش تر غیب دیتے ہیں ۔ پاکستان کا کوئی  بھی شہر ہو، اسکی ترقی میں پاکستان کی بہتری ہے لیکن کیا کسی ایک شہر میں ٹاؤن پلاننگ کو نظر انداز کرتے ہوئے تمام ادارے قائم کرنا ضروری ہیں آ پ آج کے لاہور کو دیکھیں اور گزشتہ چالیس پچاس سال قبل کے لاہور کو دیکھیں تو آ ج آ پکو لاہور سے وحشت ہو گی ۔ کوئی  عام فنکشن کے انعقاد سے شروع ہوں اور کرکٹ میچ تک آ جائیں ،شہر لاہور کی نصف ٹریفک جام ہو گی ۔ صوبہ پنجاب کی بیوروکریسی صوبہ بھر کے کسی بھی نوعیت کے پروگرام تعلیمی،تربیتی، سپورٹس، کلچرل وغیرہ کا انعقاد کرتی ہے تو پنجاب کے مختلف شہروں سے آنے والے شرکاء کو سہولیات مہیا کرتی ہے لیکن عملی طور پر دیکھنے میں آ تا ہےکہ شرکاء رُل جاتے ہیں بہت پریشان کُن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پھر کھیلوں کے مقابلے ہوں ملازمین کے تربیتی پروگرام ہوں اور دیگر کسی بھی نوعیت کی سرکاری غیر سرکاری تقریبات ہوں پنجاب کے دیگر اضلاع کی نسبت لاہور سے تعلق یا تعنیات آفیسرز ، کھلاڑیوں اور لوگوں کو ترجیح دی جاتی ہے ۔۔کیا لازمی ہے کہ چونکہ لاہور ایک بڑا شہر ہے لہذا تمام جدید سہولیات یہیں میسر ہوں ،پنجاب کے دیگر بڑے شہروں کو لاہور جیسی تو درکنار عام سہولیات سے بھی محروم رکھا جائے اور جب کسی ٹاؤن کی سہولیات ایک لاکھ افراد کی آبادی کے لئے ہوں جبکہ دو لاکھ افرادکی آبادی استفادہ کرے تو کیسے ممکن ہے کہ مینج ہو جائے ۔اب موجودہ دور حکومت میں ایک نیا منصوبہ راوی ریور پراجیکٹ کے نام سے شروع کیا جارہا ہے ۔ پاکستان میں کیسے ہی منصوبے بنا لیں یہاں نا اہلیت اور کرپشن کی وجہ سے ناکام ہو جاتے ہیں جبکہ اسی پاکستان کے پانچ سالہ منصوبوں کو لیکر جنوبی کوریا اور ملائیشیا جیسے ملک ترقی کر جاتے ہیں ۔ اب مستقبل میں یہ پراجیکٹ کیا گل کھلاتا ہے ؟ دُعا تو یہ ہے  کہ لاہور والوں کے  لیے آ سا نیاں ہوں اور شہری معاملات بہتر ہوں۔ ارباب اختیار بھلے سے کتنی ہی پلاننگ کر لیں اور کس قدر وسائل جھونک دیں مگر کسی بھی شہر میں مختلف وجوہات کی بناء پر کثیر آ بادی کا ارتکاز تمام پلا ننگ کو فیل کرنے کےلئے کافی ہے ۔ کیا کمیونٹی پولیسنگ ، نکاسی آب، فراہمی آ ب، اور دیگر کوئی  بھی سہولت جو لاہور کے لئے لازمی ہو کسی بھی پارٹی یا موجودہ دور کے دو نمبر شیر شاہ سوریوں کے بس میں ہو گی ۔ اگر ارباب  اختیار لاہور کی پائیدار ترقی ، خوشحالی اور سکون چا ہتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ پنجاب کے دیگر ڈویژنل ہیڈکوارٹرز پر جدید سہولیات مہیا کریں اور مستقبل میں لاہور کے پڑوسی اور دور دراز کے ڈویژنل ، ضلعی  اور تحصیل ہیڈ کواٹرز پر جدید ادارے تعمیر کریں تاکہ جہاں پسماندہ شہروں میں ترقی ہو وہاں لاہور پر پڑنے والے بوجھ کو کم کیا جاسکے۔ ورنہ علاج، تعلیم ، روزگار اور دیگر فیلڈ میں آنے والا ہجوم لاہور کو کھا جائے گا ۔ کیا وجہ ہے کہ پنجاب کے کسی بھی شہر کے سرکاری ہسپتال میں مریض علاج کے لئے جاتا ہے تو اسے ایمرجنسی فراہم کر کے لاہور ریفر کر دیا جاتا ہے کھانسی بخار کے علاج سے شروع ہو کر کینسر کے علاج تک لاہور کے علاؤہ کوئی  آ پشن نہیں اس وقت آپ پنجاب کے دوسرے شہروں سے لاہور آنیوالی بسوں اور سوار افراد کی تعداد گنیں تو آ پ کی عقل جواب دے جائے ۔ نجی ٹرانسپورٹ اس کے علاوہ ہے ۔ ملتان روڈ ، قصور روڈ ، جی ٹی روڈ یا موٹر وے کے انٹر چینج جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو باقاعدہ گھنٹوں جام رہتے ہیں جبکہ باقی دنوں میں بھی بعض اوقات جام ہو جاتے ہیں بدھ کو ملتان روڈ پر بائی  پاس کے قریب لگنے والی مویشی منڈی کی وجہ سے ٹھوکرتک چند کلومیٹرکا فاصلہ گھنٹوں میں طے ہوتا ہے وہ بھی موٹر وے پولیس کی مدد سے ۔ ماحول میں اس قدر آ لود گی شامل ہو چکی ہے لاہور کی روڈز پر بند ے کا سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے اور ان روڈز پر چلنا پڑے تو کچھ دیر بعد منہ کو سفید روما ل سے صاف کریں تو کاربن کی تہہ چہرے سے رومال پر دیکھ سکتے ہیں۔ کسی ایک شہر پر اس قدر دباؤ ڈال کر ارباب اختیار اس شہر کو کب تک ہینڈل کر سکیں گے ۔ بھلے سے آ پ جتنی سروسز نئی  بنا لیں یا انکا معیار بہتر کر لیں ۔جتنے وسائل جھونک دیں تھک جائیں گے وسائل مک جائیں گے لیکن مسائل پر قابو نہ پایا جاسکے گا لہذا لاہور کی ضلعی حدود/ ریونیو اسٹیٹ بمطابق محکمہ مال لاہور کو Close) City) قرار دیکر مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے لاہور میں آ بادی کا تعین، زمین کی خرید وفروخت، بلڈنگز/ پلازوں کی تعمیر اور کوئی  بھی ایسی سرگرمی جس سے لاہور پر مزید بوجھ میں اضافہ ہو ایمر جنسی پالیسی نافذ کر کے جدید ٹاؤن پلاننگ کی جائے ۔اس ضمن میں نیویارک اور دلی کی شہری منصوبہ بندی سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کسی بھی شہر کو بڑا بنانے کی بجائے نئے شہر کو بسانے کو ترجیح دیتے ہیں یوں بڑے شہر پر دباؤ بھی گھٹ جاتا ہے جبکہ ترقی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ دنیا کے تمام مذاہب اور قابل ترین حکمرانوں کے دور میں پرانے اور بڑے شہروں کے علاؤہ نئے شہر بسائے گئے برصغیر پاک وہند میں سینکڑوں نئے شہر بسے اسلام کی تعلیمات میں ٹاؤن پلاننگ بارے ہے اچھے طریقے سے کہا گیا جسکا مفہوم کچھ یوں ہے کہ” جب کوئی  شہر گنجان آباد بن جائے تو آ بادی کو ایک خاص سطح پر روک کر (یعنی دستیاب سہولیات کے مطابق) اس شہر سے مناسب فاصلے پر نیا شہر بسایا جائے”۔۔صوبہ پنجاب 9 ڈویژنز ،36 اضلاع اور تقریباً 130 تحصیلوں جبکہ 12 کروڑ سے زائد آبادی پر مشتمل صوبہ ہے ۔ اب تو یہ بھی نہیں معلوم کہ” لاہور پنجاب میں واقع ہے یا پنجاب لاہور میں” ۔ جبکہ دنیا میں درجنوں ممالک کی آبادی اس صوبے سے کم ہے ۔ صوبہ پنجاب کی بیوروکریسی بھلے سے کتنی ہی ایماندار ، محنتی اور Energetic ہو لیکن وہ پنجاب کے مسائلِ کو بروقت اور توجہ سے حل نہیں کر سکتی کیونکہ پنجاب حکومت کا سیکرٹری لیول کا آ فیسر ایک دن ، مہینے یا سال بھر میں 12 کروڑ آ بادی پر مشتمل صوبے کے اپنے شعبے کے کسقدر معاملات لاہور میں بیٹھ کر حل کر سکتا ہے جبکہ وہ پنجاب کے علاقوں کےمقامی معاملات سے آ گاہی تو درکنار شاید واقف بھی نہ ہو۔ ۔۔جبکہ دیگر پیچیدگیاں تعطیلات ، تبادلے ، جلسے جلوس، بھی لاہور میں کثرت سے جاری رہتے ہیں کسانوں سے لیکر کلرکوں تک یعنی زندگی کے تمام شعبہ جات کی تنظمیوں کے پوسٹرز اور سیٹکرز پر ایک ہی نعرہ تحریر ہوتا ہے” چلو چلو لاہور چلو ” اور ہوں چند سو افراد لاہور کی سماجی زندگی اور سرکاری اداروں کو یر غمال بنا لیتے ہیں ۔ “تبلیغی جماعت “کا اجتماع ہو یا “اولیائے کرام” کےعرس ہوں یا سیاسی جماعتوں کے جلسے ہوں یا “ایپکا “کے جلوس ہوں” عورت مارچ “یا “فیض امن میلہ” ہو لاہور جام اور لوگ خوار ہو جاتے ہیں
جبکہ اختیارت کے ارتکاز کا یہ عالم ہے کہ پنجاب کے اضلاع کے مختلف محکموں کے نائب قاصد اور ڈرائیور تک کے تبادلے لاہور سے ہوتے ہیں یہی نہیں پنجاب میں دیہا توں کی سولنگ ہو یا کسی قصبے کی سٹریٹ لائٹ ہو یا کسی شہر کی گلی میں سیوریج لائین کے مین ہولز پر گٹرکے ڈھکن رکھنے ہوں تو منظوری لاہور سے ملتی ہے ۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہےکہ لاہور سے اختیارات اور مالی منظوریاں ڈویژنل ہیڈ کواٹر کو منتقل کی جائیں تاکہ لاہور پر کام کا دباؤ کم ہو اس صورت میں رش سے نجات ممکن ہو سکتی ہے ۔۔ اگر ہم ہندوستان کی سیاسی قیادت کی بالغ نظری کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہو گا کہ انہوں نے ایسے معاملات 1947 سے نبٹا نے شروع کر دئیے اور ہماری نسبت بہتر اور جلد حل کئے مثلاً  انڈین پنجاب کو دیکھیں ایک کے تین صوبے بنادیئے اور سکھ آ بادی کی اکثریت بھی اقلیت میں تبدیل کر دی جبکہ انتظامی لحاظ سے بھی بہتری کر لی ۔اس کے برعکس پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کانام گزشتہ حکومت میں تبدیل ہوا اور قبائلی علاقے کو موجودہ حکومت میں صوبے میں شامل کیا گیا
ضرورت تو اس بات کی ہے کہ پاکستان میں نئے صوبے بنائیں جائیں تاہم ہماری سیاسی اور انتظامی قیادت میں اہلیت کا فقدان ہے لہذا کیوں نہ ڈویثرن کو اس قدر مالی اور انتظامی اختیارات دے دئیے جائیں کہ نہ صرف لاہور بلکہ دیگر صوبوں کے دارالحکومت کراچی،کوئٹہ اور پشاور سے کام اور رش کا دباؤ کم کر کے ان شہروں کو مستقبل میں رہنے کے قابل رکھا جاسکے ورنہ دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں لاہور پہلی تین پوزیشز پر مستقل براجمان ہے کہیں ایسا نہ ہو تینوں پوزیشنز پاکستان کے باقی صوبائی  دارالحکومت آ پس میں بانٹ لیں۔ لاہور کا اہم مسئلہ دریائے راوی ہے جو کہ اس وقت گندے نالے میں تبدیل ہو چکا ہے لاہور کے مشرقی بارڈر سے ہندوستان راوی میں اپنا گند , کچرا اور کیمیائی پانی ڈالتا ہے جسکا حکومت پاکستان کے پاس کوئی  مؤثر حل نہیں  ہے جبکہ یہی کام ہم لاہور میں دریائے راوی کے ساتھ کر رہے ہیں بڑے بڑے پھنے خان وزیر اعلیٰ، میئر، چیئرمن لاہور کا گندہ پانی گندے نالوں کے زریعے راوی میں ڈال کر لاہور پر احسان نہیں ظلم کر رہے   ہیں ۔ہونا تو  یہ چاہیے تھا کہ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کے ذریعے صاف پانی شہر میں واپس سپلائی کیا جاتا اور کچرے کو استعمال کیا جاتا ۔ لیکن گندے نالوں کے مہلک اثرات لاہور کے زیر زمین اور بیماریوں کی صورت میں ظاہر ہو رہے  ہیں ۔ لاہور جیسے تاریخی شہر کو مستقبل میں محفوظ اسی صورت میں رکھنا ممکن ہے جب اس شہر پر آ بادی کا دباؤ کم کیا جائے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ معاشی اور سرکاری سر گرمیاں لاہور کے علاؤہ دیگر مقامات پر منتقل کی جائیں کاش ارباب اختیار حل نکال لیں ورنہ بحیثیت مجموعی ہماری نالائقیوں کی سزا ہماری مستقبل  کی نسل بھگتے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

مضمون نگار راؤ عتیق الرحمن “تاریخ بہاولنگر” کے مصنف ہیں-

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply