• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • بچے ہمارے ساتھ جھوٹ کیوں بولتے ہیں۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

بچے ہمارے ساتھ جھوٹ کیوں بولتے ہیں۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

ہمارا لاسٹ مین ٗ عبداللہ کہ آج کل میڈیکل کالج کے تیسرے سال کا طالب علم ہے ، جن دنوں پنجاب اسکول میں پڑھتا تھا ٗ غالباً نہم یا دہم میں ٗ ایک دن کہنے لگا ٗ بابا ! آپ نے مجھے کم نمبر آنے پر کبھی ڈانٹا نہیں، میرے دوستوں کے بابا تو اُن پر بہت بہت ناراض ہوتے ہیں، میرے فلاں دوست کے بابا اُسے کہہ رہے تھے کہ اگر نوّے فیصد سے کم نمبر لے کر آئے تو گھر میں نہیں گھسنے دوں گا۔ پھر اُس بیچارے نے ٹھوکر سٹاپ سے تین سو روپے دے کر اپنی رپورٹ ٹھیک کروائی اور گھر میں دکھائی۔ میں نے حیرت سے پوچھا ، یہ تین سو روپے دے کر رپورٹ ٹھیک کروائی؟ اس کا کیا مطلب بھلا؟ کہنے لگا ٗ بابا ! دراصل وہاں ایک کمپیوٹر کی دوکان ہے ، وہ لوگ کلاس رپورٹ اسکین کر کے نمبر بڑھا کر پرنٹ کر دیتے ہیں۔ میں نے کہا ٗ اب تم سمجھ گئے ہو گے کہ میں تمہیں کیوں نہیں ڈانٹتا، تمہیں بھی کہیں مجھے دکھانے کے لیے تین سو روپے دے کر اپنی رپورٹ ٹھیک نہ کروانی پڑے۔ کہنے لگا ٗ میں جب اپنے دوستوں کو بتاتا ہوں کہ میرے بابا میری خراب رپورٹ دیکھ کر مجھے کبھی نہیں ڈانٹتے ٗتو وہ کہتے ہیں ٗ یار! تمہارے بابا ایک رائٹر ٹائپ آدمی ہیں ناں، اس لیے تمہیں کچھ نہیں کہتے۔ اب رائٹر اگر ٹائپ رائٹر نہ ہو تو وہ صرف اپنے بچوں کا باپ نہیں ہوتا ٗ وہ دنیا بھر کے بچوں کا باپ ہوتا ہے۔ اُس کے قاری اُس کے شاگرد ہوتے ہیں ،اور شاگرد بچوں سے بڑھ کر عزیز ہوتے ہیں۔

اگر ہمارے بچے ہم سے جھوٹ بولتے ہیں‘ تو اِس کا ذمہ دار ہمارے سوا کوئی اور نہیں۔ جھوٹ۔۔ خوف اور دہشت کے سائے میں جنم لیتا ہے۔ ہم نے اپنے بچوں سے دوستی نہیں کی ، اُن سے محبت نہیں کی۔ ہم نے انہیں صرف اپنا اثاثہ سمجھا ،اور اپنے دیگر اثاثوں میں اضافہ کرنے کے لیے انہیں استعمال کرنے کی تدبیر میں مصروف رہے۔ ہم نے اپنے منصوبے اُن کے ذریعے مکمل کرنے کی کوشش کی۔ اگر ہم ڈاکٹر نہیں بن سکے‘ تو انہیں زبردستی ڈاکٹر بنایا، اگر ہم باہر کے کسی ملک کا پاسپورٹ حاصل نہیں کر سکے‘ تو اُن کو بدیسی پاسپورٹ دِلوانے کی کوشش کرتے رہے، اگر ہم سیٹھ نہیں بن سکے‘ تو اپنے بچوں کو ایک کامیاب سیٹھ یا بزنس مین بنانے کی بھرپور خواہش کی۔ ہمارے بچے ہماری خواہشات کی بھینٹ چڑھتے رہے اور ہمیں خوش کرنے کے چکر میں گردشِ ایام کی چکی میں پس کر رہ گئے۔ ہم یہ بھول گئے کہ یہ پھول سے بچے ہمارے پاس قدرت کا عطیہ ہیں، یہ ہمارے پاس فطرت کی امانت ہیں، یہ انمول موتی ہیں، ہم نے انہیں مٹی میں رول دیا۔ مادّہ پرستانہ ترقی جتنے بھی زینے چڑھ لے‘ انجام ِ کار مٹی میں مل کر رہتی ہے۔

ہم نے اپنے بچوں کے ساتھ کبھی دوستی کا رشتہ استوار نہیں کیا، بلکہ اُن کے ساتھ حاکم اور محکوم اور ایک افسر اور ماتحت جیسے تعلق کی تکرار میں رہے۔ ہم نے انہیں اپنے نقشِ قدم پرچلانے کی کوشش کی، حالانکہ ہمارے نقوشِ قدم اس قدر مثالی نہ تھے۔ ہم خود کسی کے نقوشِ قدم کو بوسہ نہ دے سکے لیکن اپنی اولاد کو اپنی قدم بوسی کا حکم دیتے رہے۔ ہم ساری عمر اَنا اور غرور کے گھوڑے پر سوار رہے— یہ ایک کاٹھ کا گھوڑا تھا ٗ جو آگے پیچھے ہلتا رہا اور اپنے سوار کوکہیں لے کر روانہ نہیں ہوا—- لیکن اس کے سوار کو شہسوار ہونے کا زعم تھا۔ اگر روحانی بلندی نصیب نہ ہو‘ تو مادّی بلندی کی تقلید گمراہی کے سوا کچھ نہیں۔ اخلاقی طاقت موجود نہ ہو‘ تو انسان اپنے بچوں کو مادّی طاقت کے بل بوتے پر اپنی تقلید کی دعوت دیتا ہے۔

ایک چرواہا بکری کے بچے کو اپنی محبت کی رسی سے باندھ لیتا ہے لیکن ہم اپنے بچوں کو اپنی شفقت کے چھپر کھٹ میں نہیں باندھ سکے، بلکہ ہم انہیں جکڑباندھ کرنے کے لیے طرح طرح کی زنجیریں لاتے رہے، کبھی مارپیٹ ، کبھی ڈانٹ ڈپٹ، کبھی اپنے قوم قبیلے اور روایات کی دھونس  اور کبھی روٹھ جانے کی دھمکی، اگر بچہ دینی رجحان کا حامل ہے‘ تو دین برباد ہو جانے کی وعید سے زیادہ کارگر ہوتی ہے۔ ہم نے اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کے ساتھ اپنے بچوں پر اپنی بھی اطاعت فرض کر ڈالی، حالانکہ قرآن میں صرف اللہ اور رسولؐ کی اطاعت فرض ہے اور پھر اُولی الامر کی اطاعت کا حکم ہے،والدین کی اطاعت کا حکم نہیں، والدین کے ساتھ احسان کرنے کا حکم ہے۔ اُولی الامر، اَمر والا ہوتا ہے۔۔ اور اَمر والا ٗ روح کے روزن سے بات کرتا ہے۔

اِس دھونس اور ماردھاڑ کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے بچوں میں سے کچھ گستاخ ہو گئے اور جو گستاخ نہ ہوئے وہ جھوٹ بولنے پر مجبور ہو گئے۔ اوّل اوّل بچے ہمارے غصے اور ڈانٹ ڈپٹ کے ڈر سے جھوٹ بولنے لگے۔ ہمارے اندر اتنا ظرف نہیں تھا کہ بچوں کی غلطیاں اُن کے منہ سے سنتے اور انہیں فراخدلی سے معاف کرتے، اِس لیے ہمارے بچوں نے اِسی میں عافیت سمجھی کہ وہ جھوٹ بول کر’’سرخ رو‘‘ ہو جائیں ،بصورت ِ دیگر سچ بولنے کی پاداش میں ہم اُن کے رُو‘ سرخ کر دیتے۔

ہمیں آزاد فضا کبھی راس نہ آئی ، ہم اپنے مزاج کے بندی خانے کے اَسیر رہے۔ایک قیدی دوسروں کو بھی قید میں دیکھنا چاہتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ہم اپنے نظریات اور عقائد کا بھاری بھر کم بوجھ بھی اِن ننھی جانوں پر ڈالتے رہے۔ وگرنہ ہر پیدا ہونے والے بچے کا یہ فطری حق تھا کہ وہ اپنی پسند کا نظریہ اپنے لیے انتخاب کرتا اور پوری ذمہ داری سے شعور کے سفر کی کسی منزل کا راہ نوردِ شوق ہوتا۔

ہمارا دین ‘دین ِ فطرت ہے، یہ سچے اللہ کا سچا دین ہے۔ سچ کو آنچ نہیں ۔ کوئی فکری موشگافی اِسے سبوتاژ نہیں کر سکتی، کوئی عقل اسے عاجز نہیں کر سکتی ۔ کوئی سوال اِسے لاجواب نہیں کر سکتا۔ ہم اپنے بچوں کے سوالوں سے گھبراتے کیوں ہیں؟ دراصل یہاں بھی ہم قصوروار ہیں، ہمارا دین کے ساتھ تمسک شعوری نہیں ٗ بلکہ رسمی اور روائتی ہے۔ ہم اپنی مقامی رسوم و روایات کی نگہداری کو دین سمجھ بیٹھے ہیں، ہم نے اپنے تعصب کا نام محبت رکھ لیا ہے، ہم نے اپنے موقف سے اختلاف کرنے کو گمراہی تصور کر لیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ سچ وہاں بولا جاتا ہے جہاں سچ کو برداشت کیا جا سکے۔ سچ ایسے خاندانوں اور معاشروں میں پنپتا ہے جہاں آزادی اظہار کا چلن ہو، وگرنہ گھٹن زدہ اور منافق معاشروں میں سچ بولنے کو بغاوت سے تعبیر کر لیا جاتا ہے۔

ہم یہ بھول گئے کہ بچہ ایک مکمل شخصیت ہوتا ہے، جس طرح ہماری ایک شخصیت ہے، مزاج ہے ، پسند اور ناپسند ہے، عزتِ نفس ہے‘ اس طرح بچہ بھی ایک الگ شخصیت ہے ، ہمارا بچہ بھی ایک الگ مزاج رکھتا ہے ، بچہ بھی ایک عزتِ نفس رکھتا ہے۔ ہم اپنے بچے کی عزتِ نفس مجروح کرنے کو اپنا خاندانی حق سمجھ لیتے ہیں۔ دین نے ’’وبالوالدین احسانا‘‘ کی صورت میں ہمیں اُن پر عمر بھر کی برتری کا ایک لائسنس دیا ہے لیکن ہم اِس کا ناروا استعمال کرتے رہے۔ ہمارے بچے اگر ہمارے منہ پر ترکی بہ ترکی جواب نہیں دیتے تو یہ اُن کا احسان ہے، ہم نے اُن کے احسان کو اپنا حق سمجھ لیا۔ بچے کامیاب ہو گئے اور ہم فیل ہو گئے۔ اگر ایک جوان بچہ سگریٹ نوشی کرتا ہے اور اپنے والدین کے سامنے کہہ دیتا ہے کہ اُس نے سگریٹ نہیں پی ‘ تو یہ اُس نوجوان کا اَدب ہے‘ جھوٹ نہیں۔ بہت سے معاشرتی اَدب درحقیقت جھوٹ ہی ہوتے ہیں۔ اسی طرح ایک نوجوان اگر سینما تھیٹر دیکھ کر رات گئے گھر آتا ہے اور کہہ دیتا ہے کہ وہ اپنے دوست کے ہاں سے آیا ہے، تو ہمیں جاننا چاہیے کہ وہ ہمارا احترام کر رہا ہے۔ اسے جھوٹا قرار دینے سے پہلے ہمیں اس کے احترام کی قدر کرنی چاہیے۔

جاننا چاہیے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ سلیم فطرت پیدا ہوتا ہے، اُسے بگاڑنے میں معاشرہ   اور معاشرے سے پہلے گھر والوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ ایک معصوم صفت بچہ سچ بولنے میں آسانی محسوس کرتا ہے، وہ اپنا سچ اپنے ساتھ لے کر آتا ہے۔ جھوٹ‘ وہ معاشرے سے سیکھتا ہے۔ اُس کا معاشرہ ہم ہیں۔ بچے کا پہلا معاشرہ اُس کا گھر ہوتا ہے۔ وہ شعور کی آنکھ کھولتا ہے تو دیکھتا ہے اور تجربے سے سیکھتا ہے کہ سچ بولنے میں وہ مشکل میں پڑ جاتا ہے، جھوٹ بول کر وہ ہر مسئلے سے آسانی سے نکل جاتا ہے، رفتہ رفتہ اُس میں جھوٹ کی عادت پختہ ہو جاتی ہے۔ اپنے بچوں کو جھوٹ کی علت سے دُور کرنے کے لیے لازم ہے کہ ہم خود پر ضبط کا پہرہ رکھیں، ہم اپنے بچوں کو یہ اعتماد دیں کہ اُن کی ہر غلطی قابلِ معافی ہے۔ معاف کرنا اور معاف کرتے رہنا۔ بس یہ گُر ہے ٗجو فاصلے ختم کرتا ہے۔ فاصلے ختم ہونے سے خوف ختم ہوتا ہے  اور خوف ختم ہو جائے تو کسی کو جھوٹ بولنے کی چنداں ضرورت نہیں رہتی۔ لازم ہے کہ ہم اپنے بچوں پر اعتماد کریں تاکہ وہ ہم پر اعتماد کر سکیں ۔

تجسس انسان کے اندر ایک فطری جذبہ ہے، یہ جذبہ انسان کو نت نئے تجربے کرنے پر اُکساتا ہے۔ بعض اوقات بچہ ایک تجربے کے طور پر بھی جھوٹ بولتا ہے۔ تجربہ غلط ہو تو بھی اُس کا نتیجہ درست سبق دے کر جاتا ہے۔ ایسے موقع پر بچوں کے ساتھ پہلے سے بھی زیادہ اعتماد کا رشتہ بڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں ہماری قربتِ مزید اسے ایسے مزید تجربے کرنے سے مانع ہو گی۔

انسانی بچے کی پرورش ‘دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ صرف روٹی ، کپڑا اور چھت ، فاسٹ فوڈ ، برانڈڈ لائف اسٹائل اور برانڈڈ اسکولوں کی فیسیں بھرتے رہنا کافی نہیں ۔ بچوں پر پیسہ خرچ کرنا بچوں پر کچھ احسان نہیں ۔ پیسہ جیب میں ہو لیکن اولاد پر خرچ نہ ہو ٗ تو ہم بخیل شمار کیے جائیں گے۔ پرورش ، وقت ، توجہ اور محبت کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ آج ہم اپنے بچوں کو وقت نہیں دیتے تو کل کلاں اُن کے پاس بھی ہمارے لیے کوئی وقت نہ ہوگا۔ بچے ،فطرت کے بچے ہوتے ہیں۔ فطرت نے انہیں اِس دنیا میں بھیجنے کے لیے ہمیں ایک وسیلہ بنایا ہے۔ وسیلہ ہونا اور وسیلہ بننا ایک روحانی فریضہ ہے، صرف وسائل خرچ کرنے سے ہم وسیلہ بننے کے اس مقدس فریضے سے عہدہ برا نہیں ہو سکتے۔

ہم اپنے بچوں کو لفظوں سے تعلیم دیتے رہے ، اور اُ ن کے سامنے عمل کا ماڈل پیش کرنا بھول گئے۔ ہم یہ بھول گئے کہ بچے ہمارا کردار دیکھتے ہیںٗ گفتار نہیں، بلکہ گفتار اور صرف گفتار ، نصیحت اور صرف نصیحت بسا اوقات بچے کے اندر ایک بیزاری اور بغاوت پیدا کر دیتے ہیں۔ کردار ہی کردار سازی کرتا ہے۔ کردار ہی معلم ہوتا ہے۔ ہم کہ ٹھہرے گفتار کے غازی، کردار کے میدان میں دادِ شجاعت نہ دے سکے۔ شہید ہونے کے لیے کردار کا میدان ہوتا ہے۔ گفتار۔۔ وکیلوں اور خطیبوں کا شعبہ ہے۔

مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ اپنی کتاب “کرن کرن سورج” میں رقم طراز ہیں “ہم اپنی اولاد کو بہت کچھ سمجھانا چاہتے ہیں لیکن وہ سمجھتی نہیں، ہماری اولاد بھی ہمیں بہت کچھ سمجھانا چاہتی ہے‘ لیکن ہم نہیں سمجھتے۔”

باب العلم ؑصاحب ِ نہج البلاغہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم بچوں کی تربیت کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ اپنے بچے کو اُس کی زندگی کے پہلے سات سال کے لیے بادشاہ بنا دو، اُس کے ناز نعم برداشت کرو، پھر اگلے سات برس تک ٗ یعنی سات سے چودہ برس تک ٗ اُس پر کڑے نگہبان بن جاؤ، اُسے شیر کی آنکھ سے دیکھو ، اُسے کڑی تربیت سے گزارو، چودہ برس کے بعد اُس کے دوست بن جاؤ اور اُسے اپنا مشیر بنا لو۔ سبحان اللہ ! تربیت کے یہ سنہری اصول اپنا لیے جائیں ٗ تو ہمارے بچے ہمارے دوست اور مشیر بھی بن جائیں، اور تربیت کی کٹھالی سے گزر کر کندن بھی!!

Advertisements
julia rana solicitors london

مدینۃالعلم ؐ اُمّی لقبٗ صاحبِ لولاکؐ ، سرکارِ دوعالم ﷺ کا فرمانِ عالی شان ہے کہ باپ اپنے بچوں کو جو بہترین تحفہ دیتا ہے ٗ وہ ایک اچھی تعلیم و تربیت ہے” یہ بھی فرمایا گیا کہ ایک نیک ولد اپنے والد کے حق میں صدقہ جاریہ ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply