روبینہ فیصل سے ایک ملاقات۔۔ڈاکٹر ساجد بٹ

روبینہ سے میرا تعارف اس کی تحریر کے توسط سے ہوا تھا،اخبار میں اس کا کالم چھپتا ہے،اس کی تحریر میں کچھ ایسا تھاکہ جس نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کروانی ہی ہوتی تھی،کالموں کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے،جو روزمرہ کے واقعات سے منسلک ہوتا ہے،اس لیے اچھے اچھوں کے پچھلے ماہ تو کیاپچھلے ہفتے کا ہی کالم دیکھ لیں،آپ کو باسی نظر آئے گا۔آج کی خبر کے مقابلے میں بےربط اور پھسپھسا۔۔۔روبینہ کے کالم میں ایسی بات بہر حال نہیں۔روزمرہ کے چھوٹے سے واقعے کو اس انداز سے بیان کرتی ہیں، کہ زمانوں کی سچائی واضح ہوجاتی ہے۔عام سے قصے کے اندر سے آفاقی سچائی نکالنے کے اسی ہنر نے اس امر پر مجبور کیا کہ ا س لڑکی کو مزید پڑھنا چاہیے۔
بس اسی تحریک سے “خواب میں لپٹی کہانیاں “سے واسطہ پڑا۔اور پھر میں نے اپنے آپ کو اور روبینہ کو خوب خوب کوسا۔ آپ تمام دن کی تھکان کے بعد،گھر واپس آرہے ہیں،ٹرین میں تھکے ماندے بیٹھے ہیں تو اس کتاب کو نکالتے ہیں،جسے اس گھڑی کو گزارنے کے لیے صبح سے بستے میں اٹھائے اٹھائے پھر رہے تھے۔دل تو چاہتا تھا کہ کچھ دلچسپ،نرم گرم سا پڑھنے کو ہو،کچھ مسکراہٹ ہونٹوں پر آئے۔کچھ یادوں کا سہارا ملے، کچھ من کا بوجھ ہلکا ہو،لیکن یہاں تونظر آتی ہیں کمسن بچیاں جو رشتے داروں اور دکان داروں کی درندگی کا شکار ہوجائیں گی،یہاں ملیں گے وہ بے چار ے جو معاشرے کی انتہا پسندی کا شکار ہوجائیں گے،یا پھر وہ بیچاری اکیلی رہنے والی مشرقی عورتیں جو طرح طرح کے ستم اٹھاتی،مغرب میں تن تنہا طوفانِ بدتمیزی برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ غریب الوطنی کا بار بھی اٹھائے کھڑی ہیں۔غرض اپنی تکلیفیں تو آپ کیا ہی بھولتے،اور بھی زمانے بھر کے دکھ اپنی جھولی میں ڈال کر گھر پہنچیں گے۔
لیکن اندازِ بیاں ایسا کہ ایک کہانی شروع کریں تو ختم کیے بغیرچین نہ آئے،جب اس کے قلم کی یہ کاٹ دیکھی تو سوچا کہ جو لکھتی ایسی بے باکی سے ہے،تو وہ خود کتنی بہادررہی ہوگی؟۔۔۔۔
اسی سوچ سے یہ منصوبہ بندی کی کہ اس سے ملناچاہیے،اب آپ سوچیں گے یہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ کینیڈا میں رہنے والی خاتون سے ایک لندن میں رہنے والا شخص مل لے۔جب کہ نہ تو ان کا لندن آنے کا کوئی واسطہ ہو،نہ ہی کینیڈا جانے کی کوئی سبیل۔۔تو جناب جواب اس کا یہی ہے کہ سچی اور پاکیزہ سوچ ہوتو اللہ تعالیٰ خود ہی رستے نکال دیتا ہے۔
تو جناب اسی سچے جذبے کیساتھ اور دل میں طرح طرح کے سوال لیے،میری ملاقات اس عجیب لڑکی سے آخر کار ہوگئی۔۔۔
شہر تھا دبئی،جو صحرا میں پاکستانی،بھارتی،بنگلادیشی اور عرب لوگوں کی ملاقات کا سب سے اچھا پریکٹیکل حل ہے۔کہ یہاں آنا جانا بہت آسان ہے۔کیونکہ ایمیریٹس ائیر لائن آپ کو کہیں سے بھی اُٹھا کر اپنی مصنوعی دنیا میں لے آتی ہے۔یہ شہر تارکینِ وطن و روزگار بھی دیتا ہے،اور پناہ بھی۔۔اس کی سڑکوں پر دوڑتی بھاگتی گاڑیوں میں بیٹھے اکثر میں سوچا کرتا تھا کہ اگر کبھی ہم من حیث القوم اپنا راستہ نہ کھوبیٹھتے توشاید آج لاہور،کراچی اور راولپنڈی بھی اسی نوع کے شہر وں میں شمار ہوتے۔
روبینہ اسی شہر میں اپنی نئی کتاب ‘گمشدہ سائے” کی رونمائی کے لیے آئی تھیں۔اور حسنِ اتفاق سے میں بھی پیشہ ورانہ امور کے سلسلے میں یہیں تھا۔دوچار ای میل کے بعد ملاقات طے ہوئی،اور ایک ہوٹل کی کافی شاپ میں میں بالمشافہ ان کے سامنے بیٹھا تھا۔
روبینہ سے ملاقات کا پہلا تاثر ان کی آنکھوں نے چھوڑا،بڑی بڑی ذہین آنکھیں،جن میں جھانکو تو یہی پیغام ملتا ہے کہ میری کم عمری پر مت جانا،میں بہت کچھ دیکھ چکی ہوں۔روبینہ کی شخصیت میں ان کی تحریر میں پائی جانے والی سنجیدگی ہے تو سہی،لیکن بہت اندر دبی پڑی ہے۔بولتی،مسکراتی آنکھیں،روشن پیشانی،بات بے بات مسکراتے ہونٹ،شرارت سے بھرپور ہنسی،
یا میرے مولا!یہ وہی لڑکی ہے،جس نے سنجیدہ،دل دہلا دینے والی کہانیاں لکھی ہیں۔؟
فیصل آباد میں پیدا ہونے والی،اور لاہور میں پلنے بڑھنے والی یہ لڑکی تو جگت بھی لگاتی ہے۔اور لطیفہ سناتے وقت پنچ لائن پر ہاتھ پر ہاتھ بھی مارتی ہے۔باتیں کرتے سمے اپنے دائیں ہاتھ سے پیشانی سے بال ہٹانے کا انداز اس کا خاص انداز ہے،لیکن اس بے تکلفانہ انداز میں مجھے اس کی شخصیت کی بردباری اور وحانی پاکیزگی کا احساس ہمیشہ رہا۔
وہ خالص لاہوری انداز میں بھی گپیں لگاتے ہوئے کبھی یہ خیال نہیں آنے دیتی کہ وہ اس وقت ایک سچے پروفیشنل کی طرح،اپنے ایک قاری کو انٹرویو دے رہی ہے۔
مجھے اس طرح کی بے تکلفی کے باوجود،ذاتی اخلاص اور پاکیزگی کا احساس پہلے پہل انگریز عورتوں سے بات چیت کے دوران ہوا تھا،پاکستان میں رہتے ہوئے ہمارا خیال تھا کہ انگریز عورتیں اخلاقی طور پر خاصی ریلیکس ہوتی ہیں،یہاں آکر احساس ہوا کہ یہ میمیں ریلیکس تو ہیں لیکن ذاتی متانت و اخلاق کے جو معیار اہلِ مشرق کے ہیں،ویسے ہی کچھ اہل مغرب کے بھی ہیں۔
اچھا تو پھر بتائیے،آپ ہیں تو ڈاکٹر،یہ اردو ادب سے لگاؤ کیسے ہوگیا؟
ارے روبینہ جی،انٹرویو تو میں لے رہا ہوں آپ کا۔۔۔آپ کو سوال پوچھنے کی اجازت نہیں۔۔میں نے ہنستے ہوئے انہیں ٹوکا۔
تین بڑی بہنوں کے بعد پیدا ہونے والی لڑکی کو چھوٹے بھائیوں کے ساتھ گلیوں میں کھیلتی کودتی جوان ہوئی،اس میں ذاتی ہچکچاہٹ بالکل نہیں تھی۔چھوٹی عمر سے ہی والدہ کے سکول کے امور میں ان کا ہاتھ بٹانا ہو۔یا پھر اپنے کیرئیر کے سلسلے میں مشکل اور غیر روائتی فیصلے کرنا،روبینہ نے ہمیشہ وہی کیا،جس کو کرنے کے لیے ان کے دل نے گواہی دی۔ہیلے کالج میں کامرس پڑھنے کے بعدایف سی کالج میں دلدار پرویز بھٹی مرحوم سے انگریزی ادب اور زندگی گزارنے کے آداب،دونوں ہی سیکھے۔۔لڑکوں کی بدتمیزیوں کے ترکی بہ ترکی جواب دینے ہوں یا کلاس میں غیر مقبول ٹیچرز پر آوازے کسنے،روبینہ کبھی پیچھے نہ ہٹی۔۔
میں نے نوکری بھی کی تو اپنی مرضی سے،چھوڑی بھی اپنی مرضی سے،کینیڈا آنے کا فیصلہ بھی خود کیا،اور یہاں آکر صحافت،لکھنے لکھانے اور ٹی وی پر آنے کے مراحل بھی اپنے زورِ بازو پر ہی سَر کیے۔
مجھے جس چیز نے متاثر کیا،وہ اس کا پاکستان کے بارے میں حد سے زیادہ جذباتی رویہ تھا۔اس لڑکی نے تن تنہاجس بے جگری سے پاکستان کا کیس لڑا ہے،وہ قابلِ تحسین ہے۔اس کام میں اسے بے شمار دفعہ سیاسی طور پر غلط فیصلے بھی کرنے پڑے،اور پاکستان مخالف قوتوں کی گالم گلوچ بھی سننی پڑی۔۔لیکن نہ تو اس کا جوش سرد پڑااور نہ ہی اس نے اپناوطیرہ بدلا،
مجھے تو ایک موقعے پریقین سا ہوچلا تھا،کہ ہونہ ہو،یہ ضرور آئی ایس پی آر کے پے رول پر ہوگی۔۔۔۔
میری اس بات پر اس کا مخصوص انداز میں قہقہہ بلند ہوا،اور بولی”چھڈو بٹ صاحب،کیتی ناں فیر بٹاں آلی گل”۔۔
سچ جانیے!اس پاگل لڑکی کے خلوص پر شک کرنے پر مجھے اپنے بٹ ہونے پر خاصی شرم آئی۔
روبینہ کی زندگی کی داستان سنتے سنتے۔۔اس کیساتھ فیصل آباد،لاہور،ہیلی کالج،ایف سی کالج،پنجاب بینک،اور پھر ٹورنٹو کی سیر کرتے کرتے پتہ ہی نہ چلا کہ چار گھنٹے بیت گئے۔۔باہر پھیلی دھوپ،کب کی غائب ہوچکی تھی۔۔دبئی میں شام انگڑائی لے کر جوان ہوگئی تھی اور یہی وقت روبینہ کے اپنی کتاب کی تقریب میں جانے کا تھا۔
میں نے گاڑی تک رخصت کیا،جاتی گاڑی کی سرخ بتیاں دیکھتے ہوئے میں نے سوچا کہ اس لڑکی کی دنیا سے کیا ڈیمانڈ ہے۔۔۔۔
میرے ذہن میں یہی جواب آیا کہ،کچھ بھی نہیں،یہ دنیا میں صرف ادب تخلیق کرنے آئی ہے،اور جب تک یہ زندہ رہے گی،یہی کرتی رہے گی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”روبینہ فیصل سے ایک ملاقات۔۔ڈاکٹر ساجد بٹ

  1. بہترین ۔۔ جو روبینہ فیصل سے واقف نہیں انہیں پڑھ کر ضرور اچھا لگا ہوگا مگر جو انھیں جانتے ہیں تحریر کے پر مزاح جملوں سے بے حد محظوظ ہوں گے ۔۔ مزہ پڑھ کر

Leave a Reply