جب اگست 2017ءمیں افراد شماری جسے پتہ نہیں کیوں مردم شماری لکھا جاتا ہے کے نتائج اخبار میں آنا شروع ہوئے تو میرے ایک دو دوستوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور گلہ کیا کہ دیکھو اس دفعہ پھر کہیں پاکستان میں مسیحیوں کے بارے میں اعداد و شمار نہیں چھپ رہے ہیں میں ان دنوں اپنی کتاب ”شان ِسبزو سفید “اور ”دھرتی جائے کیوں پرائے “کے ترجمے میں مصروف تھا اس لئے میں نے اس طرف توجہ نہیں دی اور پھر ایک دن ایک مسیحی مسلم لیگی بلکہ نون لیگی کا فون آیا کہ دیکھا ہمارے اعداد شمار نہیں دیئے تو اسے میں نے کہا یار اگر میں نے غلطی سے اس موضوع پر کچھ لکھ دیا ہے تو یہ میری ذمہ داری تو نہیں بن گیا کہ اب وفاقی حکومت کی جگہ بھی میں ہی جواب دوں پھر میں نے اسے کہا کچھ شرم کرو کچھ حیا کرو آج شماریات کا وفاقی وزیر بھی تمہارا ہے یعنی مسیحی سینٹر ہے میں نے اسے مزید کہا اگر وفاقی وزیر برائے شماریات مسیحی ہوں پھر بھی مسیحیوں کو اپنے آبادی کے اعداد وشمار پر شک بھی ہو اور گلہ بھی ہو تو اس کا تو کوئی علاج نہیں اس کا جواب جو اس مسیحی نون لیگی نے دیا وہ حیران کن اور خوفناک تھا کہنے لگا ہم نے وفاقی وزیر صاحب سے پوچھا ہے لیکن وہ کہتے ہیں ہم پر دباؤ ہے کہ مسیحیوں کی تعداد نہیں بتانی۔
موصوف کا یہ انکشاف میرے لئے حیران کن تھا کہ آخر کیا ایسی وجہ ہے؟ کہ وفاقی وزیر بھی مجبور ہے پھر اس نون لیگی نے یہ بھی انکشاف کیا کہ سینٹر صاحب ذاتی محفلوں میں کہتے ہیں منسٹر تو میں ہوں لیکن ہماری آبادی جو کہ بہت زیادہ ہے لیکن کم بتانے پر اور اب نا بتانے پر ہم مجبور ہیں مجھے لگا یہ موصوف غلط بیانی کر رہے ہیں بے چارہ وزیر ایسی بات اپنی ہی حکومت کے خلاف کیوں کرے گا کیونکہ افراد شماری تو ان کی حکومت ہی کر رہی ہے۔ اسی طرح ایک مسیحی نوجوان جو سوشل میڈیا پر بڑا ایکٹیو تحصیل سطح کا کوئی صحافی اور ایک نون لیگی ایم این اے کے ساتھ اکثر تصویریں بھی لگاتا ہے میرے کسی آٹھویں، نویں کزن کا بیٹا ہونے کے ناطے میں میرا بھتیجا لگتا ہے ایک دن حال ہی میں ،میں اس سے پوچھ بیٹھا بیٹا آپ بتاؤ آپ تو صحافی سیاسی ورکر اور پتہ نہیں کیا کیا ہو مسیحیوں کی آبادی کتنی ہو گی اس نے مجھے بتایا کہ پانچ کروڑ تو ہو گی یہ سنتے ہی میرا بلڈ پریشر شوٹ کیا اور میں نے اسے کہا بیٹااگر میں آپ کے نزدیک ہوں تو آپ کے ساتھ وہ کروں جو عموماً پنجاب کے دیہی علاقوں کے چاچے اپنے بھتیجوں کے ساتھ کرتے ہیں یعنی پہلے پیار بھری گالی گلوچ اور پھر تپھا ترول( دھول دھپا)کہنے لگا کیوں سر کیا ہوا؟ میں نے کہا بیٹا یہ تم نے 3303615 تینتیس لاکھ تین ہزار چھ سو پندرہ کو پانچ کروڑ کیسے بنایا؟ تمہاری حکومت کے اعداد و شمار تو یہ ہیں تمہیں کس نے بتایا پانچ کروڑ ہیں وہ کہنے لگاکیا یہ اعداد و شمار غلط ہیں؟ میں نے کہا تم تو نون لیگی بھی ہو اور صحافی بھی اور ہاں پھر سب سے بڑھ کر شماریات کا وزیر بھی دوران افراد شماری اور اس کے بعد تمہارا نون لیگی مسیحی تھا نیشنل اسمبلی کے اسٹیڈنگ کمیٹی برائے شماریات کا چیئرمین بھی تمہارا بلکہ ہندو رکن قومی اسمبلی پھر تمہارے ساتھ اتنا ظلم کیسے ہو گیا؟ یا پھر تم بہت بڑھا چڑھا کریہ بات کر رہے ہو میں نے کہا مانا کہ تم نون لیگی ہو اگر معاملہ پیسے کا ہو تو چلو پھر تو ٹھیک ہے تمہارے توبہت چھوٹے بھی لاکھوں سے کھربوں بنا لیتے ہیں لیکن تم نے جیتے جاگتے انسانوں کو کیسے لاکھوں سے کروڑوں میں پہنچا دیا وہ کہنے لگا سر ہمارے منسٹر صاحب ہی کہتے ہیں کہ ہماری تعداد ہے زیادہ لیکن ہم پر پہلے یہ تعداد صحیح نہ بتانے پر دباؤتھا اور اب بالکل نہ بتانے پر دباؤہے۔ میں نے زور دے کر پوچھا تم نے یہ بات وزیر کے منہ سے سنی ہے وہ فوراً مکر گیا کہنے لگا نہیں میں نے اس سے نہیں سنا ہے بلکہ جس کے سامنے وزیر نے کہا تھا میں نے اس سے سنا ہے۔
پھر اسی طرح کے گلے اور کئی جگہوں سے بھی آئے مثلاً 2018ءکے الیکشن کے بعد جب این اے53 کی سیٹ عمران خان صاحب نے خالی کی تو ایک دن اسلام آباد کے ایک نوجوان مسیحی کا فون آیا جس نے بتایا کہ محمود شام صاحب نے آپ کا نمبر دیا تھا پھر اس نے اپنا تعارف کروانا شروع کیا وہ کوئی چار پانچ تنظیموں کے چیئرمین اور کئی کاروبار کے مالک تھے( جس کے بعد میں نے تحریکِ شناخت کے رضا کاروں سے چیک کیا تو اتنا بڑا کوئی کاروباری اور سماجی رہنما وہاں ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے) پہلے تو میں ان کے تعارف اور محمود شام صاحب کے حوالے سے گھبرا گیا پھر میں نے گھبراتے ہوئے پوچھا حکم کریں میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں انہوں نے کہا سر ابھی عمران خان صاحب جوسیٹ خالی کر رہے ہیں اس پر پی ٹی آئی کسی مسیحی کو ٹکٹ کیوں نہیں دیتی میں نرمی سے کہا مجھے کوئی اعتراض نہیں دیتی ہے تو دے اس سے میرا کوئی تعلق بھی نہیں ہے۔ اس نے کہا بس سر محمود شام صاحب نے کہا تھا آپ سے ضرور بات کروں میں نے کہا ویسے آپ کے خیال میں جو پی ٹی آئی کے این 53 سے ضمنی انتخاب کے امیدوار ہیں ان میں سے ایک دو مسیحی ایسے ہیں جو آج کے ماحول کے مطابق سیاسی امیدوار والی خوبیوں پر سب سے اوپر ہوں۔ مثلاً پیسہ بے تحاشا اڑا سکتے ہوں حلقے میں برادری اور پارٹی کے ووٹ بینک کو متحرک کر سکتے ہوں پارٹی پالیسی کا دفاع دل کی گہرائیوں سے سردھڑ کی بازی لگا کر کر سکتے ہوں اور ان خوبیوں میں باقی تمام امیدواروں سے آگے بھی ہوں وہ کہنے لگا نہیں سر ایسا تو نہیں لیکن این اے53 میں مسیحیوں کے ووٹ بڑے ہیں میں نے پوچھا تقریباً کتنے ہوں گے وہ کہنے لگا کچھ نہیں لاکھ تو ہوں گے میں نے کہا کوئی ثبوت اس نے کہا ثبوت تو نہیں میں نے کہا جاؤ الیکشن کمیشن سے ڈیٹا لو پھر جا کر لابنگ کرو اس کے بعد وہ آج تک کوئی ثبوت لے کر نہیں آیا جبکہ 2017ءکی افرادشماری کے مطابق اسلام آباد میں مسیحیوں کی کل آبادی81667اکیاسی ہزارچھ سو ستاسٹھ ہے یعنی اگر ملک بھر میں مجموعی آبادی کا ووٹوں کی شرح نسبت تناسب 48/52کا ہے تو اسلام آباد کے دونوں حلقوں میں مسیحیوں کے ووٹ زیادہ سے زیادہ40ہزار ہوں گے اس سارے شوق سیاست اور مزید بھلائی میں چھپے جذبہ خود نمائی کا سب سے بُرا پہلو یہ ہے کہ نہ تو یہ لوگ کسی پارٹی سے ٹکٹ حاصل کر پاتے ہیں اور پھر صرف مسیحیوں کے ووٹوں پر یہ ٹھرک پورا کرنے نکل پڑتے ہیں جب کہ الیکشن صوبائی یا قومی لڑنا ہوتا ہے لیکن جو چند سو ووٹ انہیں ملتے ہیں اس میں ایک بھی ووٹ کسی مسلمان کا نہیں ہوتا۔ ہاں البتہ اس حلقے سے کئی مسیحیوں نے اس غلط فہمی میں الیکشن لڑا اور آزاد امیدوار کی حیثیت سے لڑا اور بالترتیب160،123اور1349ووٹ حاصل کئے ۔ ایک صاحب نے تو باہر سے ان خاک نشینوں کی سماجی بہبود کے نام پرپیسے منگوا کر بقول اس کے اپنے ایک کروڑ خرچ کر دیئے اور یقیناً اگر اس کا کوئی کاروبار نہیں تو ان مسکینوں کے نام پر ہی بطور بھیک جسے نرم زبان میں چندہ کہا جاتا ہے منگوا کر خرچ کئے ہوں گے اور یقیناً ان خاک نشینوں کی بھلائی کے لئے ہی اپنا چسکا خود نمائی پورا کیا ہو گا۔ اچھا پھر اس مہم جوئی کے لئے جو نکلتے ہیں ان کی سب سے بڑی دلیل یہ ہوتی ہے کہ اس حلقے کے سارے مسیحی ووٹرز اگر مجھے ووٹ دے دیں تو میں اسمبلی پہنچ کر بہت بڑا پریشر گروپ بن جاؤں گا جبکہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک بھر میں کوئی ایسا صوبائی یا قومی حلقہ نہیں جہاں اتنے ووٹ ہوں جو کسی مسیحی امیدوار کو کاسٹ ہو جائیں تو وہ جیت سکتا ہے اور اگر ایسا ہو بھی جائے تو اندازہ کریں وہ ایم پی اے یا ایم این اے اس حلقے میں کیسی نفرتیں بوئے گا تو یہ پھل کاٹے گا اور پھر ایسے حلقے میں غیر مسیحیوں کا رویہ مسیحی ووٹروں سے کیسا ہو گا۔
اپنے شوق پرپیسے خرچ کرنا ہر کسی کا حق ہے لیکن مسیحیوں کے کیس میں الیکشن میں عموماً جو پیسے خرچ ہوتے ہیں وہ کسی نہ کسی طرح چندے کے نام پر آتے ہیں وہ چاہے این جی او کے ذریعے آئے یا کسی ان رجسٹرڈ چرچ کے پلیٹ فارم سے آئیں اس طرح میری آبادی بارے غلط فہمیوں پر مبنی بیانے پر ریسرچ شائع ہونے کے بعد میں ایک دن بشپ ہاؤس کراچی کسی کام سے گیا۔ جاتے ہوئے تو میں نے خیال نہیں کیا لیکن باہر نکلتے ہوئے میری چرچ کے مین گیٹ پر لٹکے دو بڑے بڑے بینروں پر نظر پڑی جس پر ایک دو سیاسی لوگوں کی تصویریں اور بہت سارے فادر صاحبان اور بشپ حضرات کی تصاویر تھیں اور اوپر لکھے ہوئے مطالبوں میں سب سے نمایاں یہ تھا کہ ہم اپنی تین کروڑ آبادی کو منوائیں گے ہمیں 30لاکھ کیوں بتایا جاتا ہے میں نے اپنے بھائی سردار امجد معراج کو کہا گاڑی واپس اندر لے چلو بشپ صاحب نہیں تھے میں نے وہاں موجود سینئر ترین فادر سے کہا باہر یہ پوسٹر لگے ہیں جب کہ ہماری کاتھولک ڈائریکٹری بتاتی ہے کہ ہم 2010 کے اعداد و شمار کے مطابق1151319 گیارہ لاکھ اکیاون ہزار تین سو انیس ہے اب اتنے ہو گئے ہوں گے اس طرح دوسرے مسالک والے اتنے ہوں گے تقریبا اً تنے ہی بنتے ہیں جتنے حکومت بتاتی ہے پھر میں نے کہا مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن باہر جو پڑھے لکھے مسلمان ا پنے بچے سینٹ جوزف اور سینٹ پیٹرک گرلز اسکول میں چھوڑنے آتے ہیں وہ کیا تاثر لیں گے کیوں آج ٹیکنالوجی کی دوڑ میں ایک منٹ میں پتہ چل جاتا ہے پھر یہ ڈائریکٹری بھی کچھ اور بتا رہی ہے فادر نے فوراً وہ پوسٹر وہاں سے اتروائے بعد میں میں نے بشپ صاحب سے بات کی تو پتہ چلا انہوں نے باقی ماندہ پوسٹر بینر جلوا دیئے تھے لیکن سیاسی لوگوں نے یہ پوسٹر کراچی بھر میں آویزاں کر دیئے تھے اب کراچی بھر کی مسیحی بستیوں میں پھیلا یہ غلط الاعام کا یہ تاثر نوجوانوں کو ذہنی مفلوج کرتا رہے گا کہ ہماری حکومت، ریاست و معاشرہ ہمارے خلاف ہے اور خاص کر اس بات کا گلہ کہ ہندوؤں کو ہم سے زیادہ کیوںبتایا جاتا ہے جب ہم ہر جگہ نظر آتے ہیں اور ان سے کہیں زیادہ میں ان لوگوں کے مجھ سے یہ گلہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ میں نے 2014ءمیں اس موضوع پر خاصی مغز ماری کرکے ایک ریسرچ کی تھی جس کو میں نے اپنا گریبان چاک کے نام سے اس کتاب میں بھی شامل کیا ہے اس سے پہلے میری بیٹی مشعل معراج نے اس کا ترجمہ اسٹیسٹکل متھ آف کرسچن پاپولیشن ان پاکستان کے نام سے کیا جسے دی نیشن اخبار نے اپنے6نومبر 2015ءکے اخبار میں اسٹیسٹکل متھ کے نام سے چھاپا اور پھر رانا آصف نے اس مضمون کو اردو اخبار دنیا نیوز کے میگزین میں ”مردم شماری اور پاکستان میں مسیحی آبادی“ کے نام سے26فروری 2017ءکو بطور فیچر چھاپا پھر2018ءکو یہ مضمون اسٹیسٹکل متھ ہی کے نام سے میری اس کتاب یعنی دھرتی جائے کیوں پرائے کے انگریزی ترجمے نیگلیکٹڈ کرسچئن آف انڈس میں بھی چھپا لہٰذا یہ وجہ بنی لوگوں کی مجھ سے گلہ کرنے کی کیونکہ میں نے اپنے تئیں ایک بڑی غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن شک کی ناگن ایسی ہوتی ہے جس جگہ یہ ایک دفعہ انڈے دے دے اور پھر ان سے بچے بھی نکل آئیں تو پھر اگر وہ سارے سنپولیے مارنے کی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوتی اور ہمارے جیسے بے انصافی پر مبنی معاشروں میں تو کبھی بھی نہیں ہوتی۔اوراگر بڑی کوشش کی بھی جائے تب بھی ان میں سے کچھ نہ کچھ ضرور محرومیوں کی جھاڑ جھٹکار میں چھپ کر ناگ بن جاتے ہیں اور پھر چاہے جتنی مرضی صفائی کر لیں ایسے معاشرے زہر آلودہ ہی رہتے ہیں جہاں لوگ شفافیت سے خوف زدہ ہوں اور ایسے میں محرومیاں بیچنے والوں کی چاندی ہو جاتی ہے اور جہاں معاشرتی ناانصافی و ناہمواری بے تحاشا ہو اور وہاں مسائل کے حل بھی طویل المیعاد بنیادوں کے طورپر نہ سوچے جائیں تو ایسے معاشرے تو شک اور بدگمانیوں کے لئے نرسری ثابت ہوتے ہیں۔اسی دوران لاہور کے ایک سکہ بند این جی او والے سے بھی بات ہوئی۔ وہ میری لمبی چوڑی تقریر سننے کے بعد بڑی معصومیت سے کہنے لگا بھائی جان چلو دو تین کروڑ نا سہی لیکن ہم کروڑ ڈیڑھ تو ضرور ہیں۔ پشاور میں ایک دو سنجیدہ پڑھے لکھے سماجی کارکنوں سے بات ہوئی لیکن وہ ہی شک یہ ہمیں جان بوجھ کر کم بتاتے ہیں اور اب کے تو بتایا ہی نہیں۔
قارئین یہ عمومی تاثر ہے جومسیحیوں میں پایہ جاتا ہے اور ظاہر ہے یہ تاثر بنانے والوں نے بڑی محنت سے بنایا ہے یقینا اس میں حکومت بھی ذمہ دار ہے جو اس طرح کے ابہام کو دور ہی نہیں کرتی پھر یہ موقع پرست اور بد نیتوں کو موقع مل جاتا ہے وہ غلط الاعام پھیلائیں اور ٹکے کما ئیں جن کے لئے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
کبھی بیعت فروخت کر دی فصلیں فروخت کر دیں
میرے وکیلوں نے میرے ہونے کی سب دلیلیں فروخت کردی
وہ اپنے سورج تو کیا جلاتے میرے چراغوں کو بیچ ڈالا
فرات اپنے بچا کے رکھے میری سبلیں فروخت کردی
میرے لئے دکھ کی بات یہ تھی کہ میں نے اپنے تئیں اس پر بڑی محنت کرکے یہ تاثر دور کرنے کی کوشش کی تھی کیونکہ مجھے اس میں سب سے خوفناک بات یہ لگتی ہے کہ اس تاثر کو عام کرکے ہم اپنے نوجوان کو یہ سبق دے کر گھر سے نکالتے ہیں کہ تمہاری ریاست تمہارے خلاف ہے جو تمہاری تعداد کو ہی کم بتاتی ہے لہٰذا اس ذہنی کیفیت والا نوجوان اس معاشرے میں خاک ترقی کرے گا جس معاشرے میں اس کا مذہبی ، سیاسی اور سماجی کارکن بتا رہا ہے کہ تمہاری ریاست تمہارے وجود سے ہی انکاری ہے پھر بری بات یہ ہے کہ ہم اس موقع پر کوئی دلیل بھی نہیں دیتے۔
اسی دوران دورِ حاضر کے مقبول خاکہ نگار افسانہ نگار عرفان جاوید جوکئی کتابوں کے مصنف جن میں سرخاب اور دروزے قابلِ تحسین ہیں میں ہمیشہ انہیں کہتا ہوں عرفان بھائی آپ کا یہ کام برصغیر کے اردو پڑھنے والوں کے لئے ایسا اثاثہ ہے جو کئی نسلوں کے کام آئے گا۔
وہ میرے کام کو سراہتے ہیں اور پچھلے دنوں انہوں نے نیگلیکٹڈ کرسچن چلڈرن آف انڈس اور شانِ سبزوسفید پڑھنے کے بعد فون کیا اور کہنے لگے اعظم بھائی میں آپ پر کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔ اس لئے آپ کا انٹرویو کرنا ہے آئیں کھانا کھاتے ہیں کچھ باتیں ہوں گی کھانے کے دوران بات چیت ہوتی رہی آخر میں انہوں نے مجھے ایک پرچہ تھما دیا جس پر یہ سوال تحریر تھے؟
1….پاکستان میں کتنے مسیحی ہیں، صوبہ وار ؟(2017ءCensusکے مطابق)
2….Gaan مسیحی مختلف یا علیحدہ کیوں؟
3…. کیا حال میںConversionsہوئی ہیں؟
4…. نمایاں، ماضی کی فوجی، سول اور کاروباری شخصیات؟ کھلاڑی اداکار، ادیب
5…. حال ، نمایاں فوجی، سول اور کاروباری شخصیات؟
6…. وہ پاکستانی مسیحی جو بیرون ملک گئے اور نام کمایا؟
7…. دلچسپ واقعات، ماورائی، روحانی؟
8…. کیا آج مسیحی پادری اورNunsبننے میں دلچسپی رکھتے ہیں؟
9…. تحریکِ پاکستان میں مسیحیوں کا کردار؟
10…. اعلیٰ ملازمتوں میں کوٹہ؟
باقی سب سوالوں کے زیادہ تر جواب تو میری کتاب شناخت نامہ کچھ شانِ سبزو سفیداور دھرتی جائے کیوں پرائے میں موجود ہیں لیکن مسیحیوں کی پاکستان میں آبادی اور وہ بھی صوبہ واریہ سوال مجھے بہت مشکل لگا کیونکہ مجھے 2017ءاگست میں افراد شماری کا نتیجہ آنے کے بعد سے مسلسل یہ ہی بتایا جا رہا تھا کہ ہمارے اعدوشمار تو دستیاب ہی نہیں اور پھر میں اپنی مصروفیات سستی اور بے ہمتی کی بدولت کچھ تحقیق بھی نہیں کر سکا اور ظاہر ہے تحقیق جان جوکھوں کا کام ہے ایسے ہی کسی سیانے نے نہیں کہا مذہب آپ کو سکون اور طمانیت دیتا ہے اور تحقیق سچ دیتی ہے اور ظاہر ہے سچ جاننے کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے کبھی میرا دل کرتا میں عرفان جاوید سے کہہ دوں میرے 2013ءکے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق لکھے ہوئے مقالے سے ہی استفادہ کر لیں، لیکن پھر بھی اس میں صوبہ وار کہاں سے لاؤں؟ ۔پھر ایک دن ڈرتے ڈرتے میں نے گوگل کے جن سے رجوع کرنے کا سوچا ویسے مجھے میرے سیاسی، سماجی اور کسی حد تک مذہبی لوگوں نے پکا کیا ہوا تھا ہمارے اعداد و شمار دستیاب ہی نہیں اور پکائی میں وفاقی وزیر برائے شماریات کے نام کا بھی تڑکا لگایا ہوا تھا۔ لہٰذا مجھے مسیحیوں کی پاکستان میں آبادی پر تو اپنے اعدادوشمار کے بارے میں لکھے ہوئے اپنے مقالے پر بہت یقین ہے اور مجھے آج تک ایسی کوئی دلیل اور ثبوت بھی نہیں ملا کہ حکومت ہماری تعداد غلط بتاتی ہے۔
لیکن مجھے اس بات پر میرے سیاسی اور سماجی راہنماؤں نے یقین دلادیاہے کہ اس بارکی افراد شماری میں ہمارے اعداد و شمار دستیاب ہی نہیں لہٰذا میں نے کوشش ہی نہیں کی پھر ایک دن میں نے جھجکتے ہوئے گوگل کے جن کو کہا پاکستان میں 2017ءکی افراد شماری کے مطابق آبادی بتاؤ، اس نے کھٹ سے جواب دیا۔پاکستان کی آبادی صوبہ وار بتا دی پاکستان207774520 بیس کروڑ ستتر لاکھ چوہترہزار پانچ سو بیس، صوبہ پنجاب 110012442 گیارہ کروڑ بارہ ہزار چار سو بیالیس، صوبہ سندھ 47886051 چار کروڑ اٹھتر لاکھ چھیاسی ہزار اکیاون،صوبہ خیبر پختونخوا 30523371 تین کروڑ باون ہزار تین سو اکہتر، بلوچستان12344408 ایک کروڑتئیس لاکھ چوالیس ہزار چار سو آٹھ، وفاقی دارالحکومت2006572 بیس لاکھ چھ ہزار پانچ سو بہتر فاٹا 5001676پچاس لاکھ ایک ہزار چھ سو چھیتر۔
جب میں نے یہ اتنی تفصیل سے دیکھا تو میں نے آگے بڑھ کر گوگل کے جن کو کہا پاکستان میں 2017ءکی افراد شماری کے مطابق مسیحیوں کی آبادی بتاؤ، تو اس نے فوراً ایک ایک چاٹ پاپولیشن بائے ریلیجین دیکھائیں۔ یعنی مذہب کے اعتبار سے آبادی کا چارٹ سامنے رکھ دیا جس میں پاکستان میں مسلمانوں مسیحیوں، ہندوؤں، احمدیوں کے شیڈول کاسٹ ودیگر کے کالم بھی بنے ہوئے تھے بس اس میں مسیحیوں کے کالم میں پاکستان بھر میں مسیحیوں کی آبادی پاکستان کی آبادی کا1.59 فیصد اور پھر مزید اس آبادی کی تفصیل یوں تھی۔ وفاقی دارالحکومت کی کل آبادی کا4.07 فیصدصوبہ پنجاب کی آبادی کا2.31 فیصد، سندھ کی آبادی کا0.97 فیصد، بلوچستان کی آبادی کا0.40 فیصد ،خیبر پختونخواہ کی آبادی کا 0.21فیصد ، فاٹا کی آبادی کا 0.7فیصدہے۔
اب مجھے سمجھ آئی کہ کیوں میرے سیاسی و سماجی مچھندروں نے یہ غلط الاعام پھیلایا ہوا تھا۔ ایک تو یہ کہ کبھی کسی نے کوشش ہی نہیں کی اور اگر کسی کو توفیق ہوئی بھی تو وہ ان فیصد کے بکھیڑوں سے ڈر گیا اور رہی بات مسیحی شماریات کے وزیر کی تو اسے اپنے روحانی ساتھیوں کے ساتھ مل کر روحانی ساتھیوں اور سیاسی آقاؤں کے روحانی معجزوں کی کرامات سے ہوتے مالیاتی معجزوں کے نتیجے میں جمع ہونے والے بہت سارے کروڑوں کی تعداد میں حاصل ہونے والے تیس تیس سکوں کی پوٹلیوں کے اعداد و شمار جمع کرنے سے ہی فرصت نہیں ہو گی تو وہ کیوں ان خاک نشینوں کے اعداد و شمار جمع کرتا پھرے جن کی شناخت کو بیچنے کے عوض اسے کروڑوں کی تعداد میں تیس سکوں والی پوٹلیاں دستیاب ہوتی ہیں ۔جو پھر کھربوں کا نہیں بھی تو اربوںکا روپ دھارتی ہیں۔یقیناً ان کا اگر اس غلط العام کو پھیلانے میں ہاتھ نہیں بھی ہو گا تو وہ بحیثیت وزیر شماریات اس کو میڈیا پر کھل کر بیان تو کرتا۔۔۔
قارئین اندازہ کریں ہم پاکستانی مسیحی کتنے بدقسمت ہیں ہمارے مذہبی سیاسی و سماجی راہنما اور کسی حد تک لائی لگ ٹائپ کی مذہبی راہنما بھی جو ان کے غلط العام کو پھیلانے کے لئے مذہبی پلیٹ فارم ان کو مہیا کرتے ہیں یقین جانیے یہ مذہبی سیاسی و سماجی راہنما مسیحیوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہیں۔ اگر دیئے ہوئے چھ اعداد کا فیصد نکالنے کا و قت ہمارے لئے نہیں نکال سکتے تو یہ ہماری سماجی بھلائی میں گھلی جاتی این جی اوز ہمارے مسائل کوایکسپلائٹ کرتے گلی گلی کے سیاسی رہنما اور ہماری روحانی غذا کے لئے اپنے گوداموں میں غلوں کے انبار لگاتے مذہب کے بیوپاری ہمارے لئے کیا کریں گے۔ اندازہ کریں یہ کسی سطح کے بدنیت لاعلم اور بے ہمت ہیں جو ہمارا تجزیہ طکمخ نہیں کرسکتے وہ ہمیں درپیش خطرات دستیاب موقعوں اور ہماری طاقتوں اور کمزوریوں کا تخمینہ خاک لگائیں گے ،جنہیں ہماری تعداد کا ہی صحیح پتہ نہیں۔
اب آتے ہیں،2017ءکی افراد شماری کے مطابق اگر اس فیصد کو لفظوں اور گنتی میں بیان کریں تو پاکستان میں مسیحی 3303615، جن میں سے صوبہ پنجاب میں 2541287 صوبہ سندھ میں464494 صوبہ سرحد میں 64099 بلوچستان میں 49379 اور وفاقی دارالحکومت 81667 ہے فاٹا میں35012 انہی اعداد وشمار سے مجھے پتہ چلا کہ ہمارے پاکستانی ہندو بھائی ہم سے صرف اعشاریہ ایک فیصد زیادہ ہیں یعنی وہ پاکستان کی مجموعی آبادی کا1.60فیصد ایک عشاریہ ساٹھ فیصد ہیں اور ہم پاکستان کی آبادی1.59 لیکن پاکستان میں مسیحیت کے بانیوں اور اس خطے کے مسیحیوں کے محسنوں کی بدولت ہر چھوٹے بڑے شہر میں موجودگی ہے جس کی بدولت ہم ہر جگہ نظر آتے ہیں اور ہندوؤں کی بڑی اکثریت صرف اندرون سندھ اور وہاں بھی تھر کے علاقے میں زیادہ ہے ہندو جاتی کے لوگ سندھ کی آبادی کا6.51فیصد اور اگر شیڈول کاسٹ ہو سندھ کی مکمل آبادی کا0.99فیصدلگا لیں تو یہ سندھ کی مکمل آبادی کا7.50 ہیں ہماری آبادی جو زیادہ تر پنجاب میں اور باقی ساری پورے پاکستان میں پھیلی ہوئی ہے اور یہ ہندوؤں کے علاقوں سے زیادہ واقفیت بھی نہیں رکھتی۔ لہٰذا عام مسیحی یہ تاثرلئے بیٹھا ہے کہ ہندوؤں کو جان بوجھ کر زیادہ دکھایا جاتا ہے، یعنی ریاست پاکستان مسیحیوں کے مقابلے میں ہندوؤں کو زیادہ دکھاتی ہے۔۔ اس سے بڑا لطیفہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا ہے کہ پاکستانی ریاست اور معاشرہ مسیحیوں کے مقابلے میں ہندوؤں کا زیادہ مددگار ہے اور ان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں باقی مجھے یہ معاملہ صرف لاعلمی کا لگتا ہے جسے لاعلموں نے میرے جیسے بے ہمتوں پر تھوپا ہے اور پھر بدنیت اس بیانیے کو دوسری محرومیوں کی چھابڑی میں رکھ کر بیچ ڈالتے ہیں ۔
پچھلے دنوں ایک بچی جسے میں خاصی پڑھی لکھی سمجھتا تھا نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ہندوؤں کو اس لئے زیادہ دکھایاجاتا ہے کہ وہ اپنے حقوق کی بات نہیں کر سکتے ۔اس بیچاری کو یہ پتہ ہی نہیں کہ ہندو سندھ کی قومی اور صوبائی سیاست میں کتنا اثرو رسوخ رکھتے ہیں کیونکہ پاکستانی سیاست میں اس وقت سب سے زیادہ اثر انداز ہونے کا فیکٹر (عنصر) پیسہ ہے اورپیسہ ان کے پاس بڑا ہے پھر دوسرا فیکٹر ووٹ بینک ۔۔وہ چاہے آبادی میں ہم سے عشاریہ ایک فیصد ہی زیادہ ہے لیکن ان کا ووٹ بینک ایک صوبے کی مجموعی آبادی کا ساڑھے سات فیصد اور وہ ساڑھے سات فیصد بھی دیہی سندھ کے مخصوص علاقوں میں ہے ۔اس طرح وہ اپنے پیسے کے بل بوتے پر سیاست میں سرمایہ کاری کرتے ہیں اور نفع کماتے ہیں اور اکثر ووٹ بینک اور پیسے کے زور پرڈائریکٹ الیکشن بھی جیت لیتے ہیں جب کہ ہمارے مورکھ یہاں بھی چالاکیوں سے کماتے ہیں مثلاً کبھی کوئی شفائیہ دعائیہ اجتماع دکھا کر اپنے آقاؤں کو رام کیا، کبھی کسی این جی او کی سفارش پر سیٹ گھسیٹ لی اور اگر یہ دونوں پلیٹ فارم بھی کسی کو دستیاب نہ ہوں تو پارٹی کے نظرئیے کو سمجھے بغیر خوشامد کے زور پر ہی کام چلا لیا کیونکہ خوشامد ایسا ہتھیار ہے جس کا وار کبھی خالی نہیں جاتا اور یہ کام آ ہی جاتا ہے ایک اور دلیل جو ہمارے سیانے دیتے ہیں کہ ہماری آبادی کم اس لئے بتائی جاتی ہے کہ ہمیں سیٹیں زیادہ نہ دینی پڑیں، لیکن اعداد و شمار بڑے دلچسپ ہیں مثلاً بلوچستان کی مسیحی آبادی2017ءکی افراد شماری کے مطابق49377 اس کا مطلب کہ ووٹ زیادہ سے زیادہ چوبیس پچیس ہزار ہوں گے اس تعداد پر بھی دو ایم پی ہیں اور پچھلے دور میں دو ایم این اے بھی وہاں سے تھے، جب کہ کوئٹہ کے عموماً صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں کئی سیٹوں پر تقریباً پچھتر ہزار ووٹوں پر ایک سیٹ ہے لیکن مسیحی زیادہ سے زیادہ ساڑھے بارہ ہزار پر ایک ایم پی اے اسمبلی میں ہے اسی طرح خیرپختونخوا میں 2017 کے اعداد و شمار کے مطابق مسیحیوں کی64099 اور فاٹا میں35012 ہے اور اس طرح سے سرحد میں ووٹ32ہزار ہوں گے اور فاٹا میں17000 کے قریب ہوں گے اور اس تعداد پر بھی دو ایم این اے ایک سینیٹر ہے لہٰذا اگر ریاست واقعی اس خوف سے آبادی زیادہ نہیں دکھاتی کہ سیٹیں نہ دینی پڑیں تو پھر کم تعداد پر زیادہ سیٹیں کیوں دیتی ہے۔
قارئین یقین مانیے مجھے ان فیصدوں کو گنتی اور لفظوں کا روپ دینے میں تیس منٹ سے زیادہ نہیں لگے ۔اس مشقت سے میں اس بات کا بھی قائل ہو گیا ہوں کہ نا صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے میرے جیسے لوگ بھلائی کے کاموں میں مصروف ہیں ،میری کمزوریوں محرومیوں پسماندگیوں کو بیچتے ہوئے بیوپاری اور ان کے تنخواہ دار حواری، ان اعداد و شمار کے لئے تیس منٹ بھی نہیں نکال سکتے توان کی باقی ساری اہلیتیں اور نیتیں مشکوک ہو جاتی ہیں اور بے تحاشا دل سے آہ نکلتی ہے یا خدا مجھے میرے نادان محسنوں سے بچا اور اگر ان میں سے جونیک نیتی سے میرے لئے کچھ کرنے میں کوشاں ہیں انہیں فہمِ و فراست عطا کر۔میں سمجھتا تھا، پاکستان کے ہندوؤں کے سیاسی رہنما، معاشی ، تہذیبی اور علمی طور پر ہم مسیحیوں کے سیاسی راہنماؤں سے بہتر ہیں لیکن جنوری 2019ءمیں پاکستان ہندو کونسل کے ایم این اے رمیش کمار سہیل وڑائچ صاحب کے پروگرم ایک دن جیو کے ساتھ میں یہ بتاتے پائے گئے کہ ہندو پاکستان میں 80 لاکھ ہیں جبکہ محکمہ شماریات جسکی قومی اسمبلی کی کمیٹی کے یہ چیئرمین نواز شریف کو چھوڑنے تک رہے ہیں ،کہتا ہے، پاکستان کے ہندو جاتی عقیدے سے وابستہ لوگوں کی تعداد3324392تینتس لاکھ چوبیس ہزار تین سو بانوے اور اگر اس میں شیڈ و ل کاسٹ کوبھی شامل کر لیا جائے جو کہ وہ کرتے ہیں تو اس تعداد میں 519436پانچ لاکھ انیس ہزار چار سوچھتیس اس طرح ٹوٹل یہ 3843828اڑتیس لاکھ تنتالیس ہزار آٹھ سو اٹھائیس بنتی ہے۔
پتہ نہیں یہ رمیش کی لاعلمی ہے یا بد نیتی ؟ اس طرح کی لاعلمی ، بدنیتی یا بے ہمتی یا کسی بھی وجہ سے پھیلا دی گئی غلط فہمی ہندو نوجوانوں پر برے اثرات مرتب کرتی ہے رمیش کے کیس میں لاعلمی توہو نہیں سکتی کیونکہ موصوف اتنے ذہین ہیں 2002ءکے الیکشن میں آزاد حیثیت میں جس جرنل الیکشن میں 34 ووٹ لے کر دس امیدواروں میں سے ساتویں نمبر پر آئے تھے اسی اسمبلی میں قاف لیگ کی قیادت کو صحرائی گیدڑ سنگھی سونگھا کر مخصوص سیٹ پر ایم پی اے بن کر 32424 ووٹ لینے والے رجیور سنگھ سوڈھا کے ساتھ جا بیٹھے تھے لہٰذایہ 3843828 اڑتیس لاکھ تنتالیس ہزار آٹھ سو اٹھائیس بتانے میں ضرور کوئی حکمت رہی ہوگی ورنہ اتنا ذہین بندہ جو اپنی برداری میں چونتیس ووٹ رکھتا ہو وہ پانچ سال نواز شریف کے ساتھ اور پھر اچانک عمران کی مخصوص سیٹوں کی ترجیح میں پہلے نمبر پرآجائے۔ یقیناً اس میں پیسہ فیکٹر اور سیلف فنانس اسکیم کا عمل دخل بھی رہا ہو گا۔ رمیش یا رمیش جیسے جو مرضی کریں ،جیسے مرضی ایم این اے ، ایم پی اے یا سینیٹر بنیں۔ آبادی چاہے لاکھوں کی جگہ بغیر ثبوت کے کروڑوں میں بتائیں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن جو مجھے بغیر ثبوت کے ان دعوؤں کا خطرناک پہلو نظر آتا ہے۔ وہ یہ ہے مثلاً اگر2017ءدو ہزار سترہ کے افراد شماری کے نتائج اگر کوئی ہندو پاکستانی نوجوان دیکھے اور پھر وہ رمیش کا یہ انکشاف سنے تو اس سے وہ یہ پیغام لے گا کہ میری ریاست میرے خلاف ہے جو میری تعداد کو اتنا کم دکھا رہی ہے اس سوچ کے ساتھ وہ دس طرح کی ترقی کے راستے اپنے لیے خودہی بند کر لیتا ہے لہٰذا بغیر ثبوت کے اس طرح کی غلط فہمی پھیلانا اپنی اس برادری جو ووٹ توآپ کو چونتیس دیتی ہے لیکن انکی شناخت کی بدولت آپ کبھی مشرف کبھی نواز شریف اور کبھی عمران کے پہلو میں بیٹھتے ہیں ان میں اس طرح کا غلط العام کو بغیر کسی ثبوت کے پھیلانا بہت بڑا ظلم ہے اور یہ ہی غلطی اکثر پاکستانی مسیحیوں کے سماجی مذہبی اور سیاسی راہنما بھی کرتے ہیں۔ جس کے بہت دور رس منفی اثرات نوجوانوں پر پڑتے ہیں۔
قارئین اندازہ کریں اس میں کوئی شک نہیں پاکستان میں غیر مسلمانوں کے ساتھ امتیازی رویے امتیازی قوانین و دیگر معاملات ہیں ،لیکن ایک سابقہ ایم پی اے، ایم این اے وزیر پورٹ اینڈ شپنگ و شماریات کا وزیر مسیحیوں کی طرف سے اور ایک ہندو کونسل کا چیئرمین سابقہ ایم پی اے چاہے اس کی اپنی کمیونٹی اسے چونتیس ووٹ ہی ڈالتی ہو سابق و حالیہ ایم این اے نیشنل اسمبلی اسٹیڈنگ کمیٹی برائے شماریات کا چیئرمین یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کی مسیحی یا ہندو مذہبی شناخت کی بدولت اپنے اپنے ہم عقیدہ کے لوگوں کوپاکستان کے ہر سطح کے ایوانوں میں اپنی برادری کا نمائندگی کا موقع ملا لیکن وہ اپنی کسی لاعلمی، نااہلی،بے ہمتی یا بدنیتی کی بنا پر ملک قوم اور اپنے لوگوں کو کس طرح گمراہ کر رہے ہیں اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں پھر ان کے نیچے والے کیا کر رہے ہوں گے۔
ان غلط العام کے جہاں اور بہت سارے نقصانات ہیں وہاں مسیحیوں کو ہر الیکشن میں ایک بڑا نقصان اور ہوتا ہے کہ وہ اس دفعہ بھی ہوا ہے کہ وہ اپنی افرادی قوت کا اندازہ لگائے بغیر الیکشن میں کودتے ہیں اور مجموعی طور پر معاشی طور پر نہایت کمزور کمیونٹی کے لاکھوں کروڑوں روپے برباد کرکے بیٹھ جاتے ہیں جب کہ ان وسائل کو سیاسی سطح پر نمایاں ہونے اور اپنے آپ کو منوانے کے اور راستے اور طریقے بھی اختیار کئے جا سکتے ہیں۔ رہنماؤں کے ان رویوں کی بدولت ہی شائد پاکستان کے مسیحیوں اور ہندوؤں کا یہ حال ہے۔
اور مجھے تو یہ اعداد و شمار اس وقت تک صحیح ہی لگتے ہیں اور لگتے رہیں گے جب تک کوئی منطق اور حقائق و شواہد پر مبنی دلیلیں نہیں دی جاتی ورنہ پھر حکومتی اعداد و شمار کو میری ان دلیلوں کی روشنی میں جو میں نے اسی کتاب کے ایک باب اپناگریبان چاک میں دی ہیں کو مان کر تعداد سے زیادہ اپنے لوگوں کی حالات اور معیار زندگی کو بہتر بنانے پر زور دینا چاہیے۔
اگر اس کے جواب میں کوئی بیانیہ کسی کے پاس ہے تو ضرور پیش کرے ،ورنہ انہیں اعداد و شمار پر گزارا کرے۔ ہاں بہت آسان طریقہ جس سے ان اعداد شمار کے خلاف بیانیہ ثابت کیا جا سکتا ہے جس سیاسی راہنما کو اس پر اعتراض ہے وہ اپنے حلقے کے پانچ ہزار شہری جن کو نادرا نے و وٹنگ لسٹ میں قومی شناختی کارڈ ہونے کے باوجود ڈالا اکھٹے کریں اور اس شہر کے پریس کلب میں بیٹھ جائیں اسی طرح مذہبی رہنما کاتھولک اور چرچ آف پاکستان و دیگر مسالک اپنے اعداد و شمار لے کر شماریات کے دفتر پہنچ جائیں کہ ہمیں کم کیوں بتایا جا رہا ہے؟ یہ ہیں شناختی کارڈ اور دیگر ثبوت اسی طرح سماجی اداروں اور این جی اوز والے تو اپنے آقاؤں کی مدد سے بغیر شناختی کارڈ والے شہریوں کو پیش کریں گے یہ ہیںوہ مسیحی شہری جن کو مسیحی ہونے کی وجہ سے شناختی کارڈ نہیں مل پا رہے اسی طرح یہ گنتی سے باہر رہ گئے ہیں ورنہ پھر بات تو بڑی عام سی ہے۔ ” ہمت ہے تو پاس کر ورنہ برداشت کر“ لیکن ہے بڑے پتے کی ۔ کہ اگر آپ کے پاس ثبوت ہیں تو پھر پیش کریں ورنہ صرف خواہشوں پر مقصد نہیں ملتے مقصدوں کے حصول کے لئے فہم و فراصت اور صبر سے کوشش کرنی پڑتی ہے اور اس طرح کے معاملات کو تو حقائق اور شواہد سے ہی ثابت کیا جا سکتا ہے اور اگر ثابت نہیں کر سکتے تو پھر جو تعداد پاکستانی مسیحیوں کی حکومت بتاتی ہے ان کے لئے ہی کچھ کر لو یا پھرتین،چار کروڑ ہوں گے تو ان کے لئے کچھ کرو گے۔
تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک تحریک شناخت کے بانی رضا کار اور 18کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں