دین،سیاست اور ملائیت (قسط6)۔۔۔عنایت اللہ کامران

گزشتہ سے پیوستہ:

قارئین کرام!یہاں تک تو یہ بات یقیناً  آپ کے سامنے واضح ہوگئی ہوگی کہ دین اور سیاست الگ الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ دین کا دوسرا نام ہی سیاست ہے یعنی ریاستی و حکومتی معاملات کا انتظام اللہ اور رسولؐ کی تعلیمات کی روشنی میں چلانا ہے۔یہاں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے اور یہ سوال ایسا ہے کہ صرف اسلام مخالف طبقہ ہی اس سوال کو اٹھا کر اچھے بھلے دین دار افراد کو گمراہ نہیں کرتا بلکہ اکثر اسلام پسند بلکہ مذہب پر انتہائی سختی سے عمل کرنے والے لوگ بھی اس غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں اور وہ سوال ہے موجودہ دور اور حالات میں اسلامی نظام،نظام مصطفیﷺ،حکومت الٰہیہ یا اقامت دین کا فریضہ کس طرح سرانجام دیا جائے؟یہ منزل کیسے حاصل ہوگی؟ذیل کی سطور میں ہم اس پر روشنی ڈالیں گے۔۔۔اب آگے پڑھیے۔۔

یہ بھی پڑھیے:دین،سیاست اور ملائیت (قسط5)۔۔۔عنایت اللہ کامران

قسط نمبر6:

اسلامی نظام حکومت کا قیام ہر مسلمان کا فرض:
اس امت کو یہ اللہ تعالیٰ نے یہ فضیلت بخشی ہے کہ اسے انبیاؑ والا کام سونپ دیا ہے،چونکہ حضرت محمد رسول اللہﷺ خاتم النبین ہیں،آپ کے بعد اب کسی مزید رسول یانبی نے نہیں آنا اس لئے اللہ تعالی نے اپنے پیارے حبیبؐ کی طرح اس کی امت کو بھی امتوں کی سردار امت بنادیا ہے اور اس کے ذمہ یہ فرض عائد کردیا ہے کہ یہ اللہ کے دین کو قائم کرے۔
اس موضوع پر بحث کرنے سے پہلے قرآن و حدیث کے احکامات ملاحظہ فرمائیے:

”ھُوَالَّذِی اَرسَلَ رَسُولہٗ بِالھُدَی وَدِینِ الحَقِّ لِیُظھِرَہٗ علیٰ الدِّین کُلِّہٖ“۔(الصف)
ترجمہ:وہ پاک ذات جس نے بھیجا اپنے رسولؐ کوہدایت اور دین حق دے کر تا کہ غالب کردے (اللہ کے دین کو)دیگر تمام ادیان پر۔

مذکورہ آیت مبارکہ میں واضح انداز میں رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا مقصد بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی پاک اور بابرکت ذات نے اپنے حبیبﷺ کو ہدایت اور ایک نظام زندگی دے کر بھیجا ہے تاکہ اس نظام زندگی کو دیگر تمام نظام ہائے زندگی پر غالب کردے۔

قرآ ن پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
کُنتُمْ خَیْْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہِ وَلَوْ آمَنَ أَہْلُ الْکِتَابِ لَکَانَ خَیْْراً لَّہُم مِّنْہُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَکْثَرُہُمُ الْفَاسِقُون(آل عمران110)
ترجمہ: (مومنو!) جتنی امتیں (یعنی قومیں) لوگوں میں پیدا ہوئیں تم اُن سب سے بہتر ہو کہ نیک کام کرنے کو کہتے ہو اور بُرے کاموں سے منع کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آتے تو اُن کیلئے بہت اچھا ہوتا۔ اُن میں ایمان لانے والے بھی ہیں (لیکن تھوڑے) اور اکثر نافرمان ہیں۔

شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا َّالَّذِیْٓ اَوْحَیْْنَآ اِلَیْْکَ وَمَا وَصَّیْْنَا ‚ِہٖٓ اِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُواالدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ.(۴۲: ۱۳)
ترجمہ:”اس نے تمھارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کی ہدایت اس نے نوح کو فرمائی اور جس کی وحی ہم نے تمھاری طرف کی اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا، اس تاکید کے ساتھ کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ پیدا کرنا۔“

وَلْتَکُن مِّنکُمْ أُمَّۃٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَأُوْلَ ءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ(آل عمران104)
ترجمہ: ”تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہئیں جولوگوں کونیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور بْرائیوں سے روکتے رہیں، جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے لیکن تم اْن لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایت پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے،جنھوں نے یہ روش اختیار کی وہ اس روز سخت سزا پائیں گے۔“

اقامتِ دین کی اصطلاح:
اقامت یا إقامہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ،کسی چیز کو کھڑا کرنا، درست کرنا۔
اقامت کا لفظ جب کسی ٹھوس چیز کے لیے استعمال کیا جائے تو سیدھا اور درست کرنے کے معنی مراد ہوتے ہیں۔ اور جب کسی ٹھوس چیز کی بجائے معنوی اشیاء کے لیے استعمال کیا جائے تو اس کے معنی پورا پورا حق ادا کر دینے کے ہوتے ہیں۔ یعنی متعلقہ کام پوری توجہ اور کامل اہتمام سے انجام دیا جائے۔
شریعت میں اقامت کے لفظ سے دو مفہوم مراد ہوتے ہیں:
حالت حضر، قیام کرنا۔
اقامت نماز، نماز کے لیے تیار افراد کو مخصوص الفاظ و انداز میں نماز کی طرف بلانا۔
دور جدید میں اسلامی تحریکات نے اقامت دین کی اصطلاح استعمال کی ہے جو فی الواقع قرآن کریم کی آیت اور حدیث شریف سے ہی ماخوذ ہے۔
برائے حوالہ:
https://ur.wikipedia.org/wiki/اقامت
فقہاے اسلام نے سورۃ شوریٰ کی آیت اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ سے اخذ کرتے ہوئے اقامت دین کا اصطلاح کے طور پر استعمال شروع کیا ہے۔ جب توریت نازل ہوئی تھی تو توریت کی اقامت کا نام اقامت دین تھا، اور جب انجیل نازل ہوئی تو اُس کی اقامت بھی اقامتِ دین تھا، اور اب قیامت تک قرآن کی اقامت کا نام بھی اقامتِ دین ہے۔ خود قرآن نے اہلِ کتاب کے بارے میں کہا ہے:
وَ لَوْ اَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِھِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِمْ ط (المائدہ ۵:۶۶)
”اور اگر وہ توریت اور انجیل اور جو کچھ اُن پر اُن کے رب کے طرف سے نازل ہوااُسے قائم رکھتے تو رزق اُن کے اُوپر سے برستا اور نیچے سے اُبلتا“۔

پھر اسی سورہ میں آگے آیت ۶۸ میں اہلِ کتاب کو مخاطب کرکے جو بات کہی گئی ہے اس پر غور کیجیے کہ یہ خطاب اُنھی کے لیے نہیں بلکہ ہمارے لیے بھی کتنا اہم ہے:
قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْءٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ ط (المائدہ ۵:۶۸)
”کہہ دو کہ اے اہلِ کتاب تم ہرگز کسی اصل پر نہیں ہو جب تک کہ توریت اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم نہ کرو، تمھاری طرف جو تمھارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہیں“۔

مفسرین نے لکھا ہے: وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ سے مراد قرآن شریف ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب تک تم توریت انجیل اور قرآن کی اقامت نہ کرو گے اُس وقت تک تم دینی و مذہبی لحاظ سے کچھ نہیں ہو۔ اس طرح یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جو شخص بھی اللہ کی کتاب پر ایمان کا مدعی ہے اس پر اس کتاب کی اقامت فرض ہے، اور اب قیامت تک اقامتِ قرآنہی کا نام ’اقامتِ دین‘ ہے۔
فریضہ اقامت دین کی بحث میں ہمیں سب سے زیادہ رہنمائی سورۃ شوریٰ میں ملتی ہے:

شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلاَ تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِط(الشوریٰ ۴۲:۱۳) ”اس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کودیا تھا اور جسے اے محمدؐ اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم ؑ اور موسٰی ؑ اور عیسٰی ؑ کو دے چکے ہیں اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہوجاؤ“۔ اس آیت کریمہ سے فریضہ اقامت دین کا قرآنی حکم عبارۃ النص (آیت کا مقصود) سے براہِ راست ثابت ہے، یعنی یہ آیت اسی مقصد کے بیان کے لیے نازل ہوئی ہے۔ قرآن کی یہ آیات مکی دور میں نازل ہوئی تھیں۔

معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تشریح اس طرح فرماتے ہیں کہ”اقامت دین فرض ہے اور اس میں تفریق حرام ہے“۔ پھر لکھتے ہیں کہ: ”اس آیت میں دو حکم مذکور ہیں۔ ایک، اقامت دین۔ دوسرے، اس کا منفی پہلو، یعنی اس میں تفرق کی ممانعت، جب کہ جمہور مفسرین کے نزدیک اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ میں حرف اَنْ تفسیر کے لیے ہے تو دین کے معنی متعین ہوگئے کہ مراد وہی دین ہے جوسب انبیا ؑ میں مشترک چلا آرہا ہے۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ دین مشترک بین الانبیا اصول عقائد، یعنی توحید، رسالت، آخرت پر ایمان، اور عبادات، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کی پابندی ہے، نیز چوری، ڈاکا، زنا، جھوٹ، فریب، دوسروں کو بلاوجہ شرعی ایذا دینے وغیرہ اور عہدشکنی کی حرمت ہے جو سب ادیانِ سماویہ میں مشترک اور متفق علیہ چلے آئے ہیں“۔ (معارف القرآن، ج ۷، ص ۶۷۸)

مولانا شبیر احمد عثمانی اپنی تفسیر عثمانی میں تحریر فرماتے ہیں کہ اس جگہ حق تعالیٰ نے صاف طور پر بتلا دیا کہ اصل دین ہمیشہ سے ایک ہی رہا ہے۔ عقائد اور اصول دین میں تمام متفق رہے ہیں۔ سب انبیا اور ان کی اُمتوں کو حکم ہوا ہے کہ دین الٰہی کواپنے قول و فعل سے قائم رکھیں اور اصل دین میں کسی طرح تفریق یا اختلاف کو روا نہ رکھیں۔

مولانا مودودی نے سورۃ شوریٰ کی اس آیت کی تفہیم انتہائی بلیغ اور مدلل انداز میں پیش کی ہے اور دیگر حوالے بھی دیے ہیں۔ انھوں نے آیت کے پہلے لفظ شَرَعَ لَکُمْ سے اصطلاحی طور پر ضابطہ اور قاعدہ مقرر کرنا بتایا۔ شرع اور شریعت سے قانون اور شارع کو واضعِ قانون کے ہم معنی قرار دیا۔ پھر اپنے اس اہم ترین استدلال کی طرف متوجہ فرماتے ہیں کہ تشریع خداوندی فطری اور منطقی نتیجہ ہے اس بڑی حقیقت کا کہ اللہ ہی کائنات کی ہر چیز کا مالک ہے اور وہی انسان کا حقیقی ولی ہے۔ اس طرح وہی اس کا حق رکھتا ہے کہ انسان کے لیے قانون اور ضابطے وضع کرے (تفہیم القرآن، ج۴، ص ۴۸۷)۔

اس آسان استدلال سے مغرب کے تمام باطل اور مادی فلسفوں کی خوب صورت طریقے سے تردید ہوجاتی ہے۔ مغرب کا کلمہ لاالٰہ الا انسان ہے، جب کہ اسلام کا کلمہ لاالٰہ الا اللہ ہے۔ مغرب کے مطابق قانون سازی کا اختیار انسان اور جمہور کو ہے، جب کہ قرآن کے مطابق یہ حق صرف اور صرف اللہ کو حاصل ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

عنایت اللہ کامران
صحافی، کالم نگار، تجزیہ نگار، سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ سیاسی و سماجی کارکن. مختلف اخبارات میں لکھتے رہے ہیں. گذشتہ 28 سال سے شعبہ صحافت سے منسلک، کئی تجزیے درست ثابت ہوچکے ہیں. حالات حاضرہ باالخصوص عالم اسلام ان کا خاص موضوع ہے. اس موضوع پر بہت کچھ لکھ چکے ہیں. طنزیہ و فکاہیہ انداز میں بھی لکھتے ہیں. انتہائی سادہ انداز میں ان کی لکھی گئی تحریر دل میں اترجاتی ہے.آپ ان کی دیگر تحریریں بھی مکالمہ پر ملاحظہ کرسکتے ہیں. گوگل پر "عنایت اللہ کامران" لکھ کربھی آپ ان کی متفرق تحریریں پڑھ سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply