دین،سیاست اور ملائیت (قسط5)۔۔۔عنایت اللہ کامران

گزشتہ سے پیوستہ:

انہوں نے بادشاہوں اور حکومتوں کو اپنے دام میں بری طرح پھنسا لیا تھا،یہی نہیں اخلاقی طور پر پستیوں کی جس اتھاہ گہرائیوں اور دلدل میں یہ دھنسے ہوئے تھے وہ ناقابل بیان ہے،یہی وجہ ہے کہ تنگ آکر انکے خلاف تحریک شروع ہوئی جو بالآخر فرانس کے بادشاہ فلپس چہارم کے دور میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی،جیکس ڈی مولائے جو اس گروہ کے آخری گرینڈ ماسٹر تھے کو ہلکی آنچ پر جلاکر کباب بنادیا گیا،اور پھر کلیسا کو اقتدار سے بے دخل کردیا گیا،کلیسا کی اقتدار سے بے دخلی محض اس گروہ کی استحصالی پالیسیوں کی وجہ سے ہوئی۔ہمارے دیسی لبرلز اور سیکولرز جو اچھل اچھل کر اور گلے پھاڑ پھاڑ کر اسلام بیزاری کا اظہار کررہے ہوتے ہیں اور دین و سیاست الگ الگ چیزیں ہیں جیسے رٹے رٹائے جملے بول رہے ہوتے ہیں تو حقیقتاً انہیں نہ تو ان ٹمپلرز(موجودہ فری میسنز)کی تاریخ کا کچھ علم ہوتا ہے اور نہ ہی اکے اصل مقاصد کا کچھ پتا ہوتا۔۔

نئی قسط:

دین(الدّین):

”الدّین“ عربی زبان کا لفظ ہے اس کے کئی معنی بنتے ہیں مثلاً ’غلبہ،استیلا،اطاعت،جزا،بدلہ،طریقہ،مسلک،طریق زندگی(The way of life)،طرزِ فکرو عمل“۔سطورِ بالا میں لفظ”سیاست“عربی زبان اور لفظ Politics انگلش زبان کے جو اردو معانی بیان کئے گئے ہیں عربی زبان کا یہ لفظ”الدّین“ان تمام مطالب کو پورا کرتا ہے یعنی ان کے ہم معنی ہے۔جس طرح ہر زبان میں بعض اوقات ایک چیز کے کئی نام ہوتے ہیں اسی طرح لفظ”سیاست“اور لفظ ”الدّین“ ایک ہی مقصد کے لئے استعمال کئے گئے ہیں۔ہمارے لبرل و سیکولر حضرات اپنی تسلی کے لئے مزید ڈکشنریز اور عربی و اردو کی لغات کی چھان بین کرلیں انشا اللہ نتائج اسی طرح ملیں گے۔اب ان تینوں الفاظ کے مطالب پر غور کریں تو ساری بات سامنے آجاتی ہے اور ان حضرات کا سارا فلسفہ جسے خاکسار نے ”لغو،جھوٹا اور بے بنیاد“ قرار دیا تھا سر کے بل دھڑام سے زمیں بوس ہوتا نظر آتاہے اور ان حضرات کی آنکھوں میں تارے ناچتے ہوئے نظر آنے لگتے ہیں۔یعنی اللہ تعالی جس نے اپنے پیغمبر حضرت محمدﷺ کو دین اسلام دے کر بھیجا قرآن مجید میں مخاطب کرکے فرمایا ہے”اِنَّ الدِّینَ عِندَ اللّہِ الاِسلَامُ“.(آلِ عمران:19)ترجمہ:”بے شک دین تو اللہ کے نزدیک(پسندیدہ) اسلام ہی ہے“۔اس آیت کی تشریح اگر کی جائے تو وہ کچھ یوں ہوگی کہ ”اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے اس دنیا میں اگر کوئی طریقِ زندگی(The way of life)،کوئی نظام زندگی پسند کیا ہے تو وہ صرف اور صرف اسلام ہی ہے اسلام کے علاوہ کوئی ازم،کوئی نظام،کوئی طریقِ زندگی اللہ کو ہر گز قبول نہیں ہے۔لفظ ”الدّین“کا ایک مطلب ”غلبہ“ بیان کیا گیا،اسی طرح سیاست کا ایک مطلب بھی غلبہ بنتا اور لفظPolitics کا بھی ایک مطلب ”غلبہ“بنتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے”ھُوَالَّذِی اَرسَلَ رَسُولہٗ بِالھُدَی وَدِینِ الحَقِّ لِیُظھِرَہٗ علیٰ الدِّین کُلِّہٖ“۔(الصف)

ترجمہ:وہ پاک ذات جس نے اپنے رسول کو دین حق (نظام زندگی،طریق زندگی، The way of life) دے کر بھیجا تا کہ اسے دیگر تمام ادیان (نظام ہائے زندگی،طریق ہائے زندگی، way of life)پر غالب کردے۔

دنیا میں کوئی دین(تہذیب/نظام) ایسا نہیں ہے جو اقتدار نہ چاہتا ہو،غلبہ نہ چاہتا ہو،دین نام ہی غلبے کا ہے،اسلام کو جب ہم مکمل ضابطہ حیات (Complete Code of Life) کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اس دین کو ہماری زندگی کے ہرشعبہ میں فوقیت،برتری اور غلبہ حاصل ہوگا۔اسلام محض نماز،روزہ،زکوۃ،حج کا صدقہ و خیرات کا نام نہیں ہے نہ ہی یہ چند مذہبی رسومات کا نام ہے بلکہ حقیقتاً یہ ہماری زندگی کے ہر شعبہ میں ہماری نہ صرف رہنمائی کرتا ہے بلکہ ہم سے یہ بھی مطالبہ کرتا ہے کہ اسے زندگی کے ہر شعبہ میں غالب کیا جائے۔

ہمارے لبرل،سیکولر اور روشن خیال حضرات جب ”دین کو سیاست سے الگ“کرنے کا واویلا مچاتے ہیں تو ہنسی اس بات پر بھی آتی ہے کہ جہاں سے یہ جھوٹا،لغو اور بے بنیاد فلسفہ انہوں نے مستعار لیا ہے ان لوگوں نے کلیسا کو بالکل ہی سیاست سے جدا نہیں کیا ہے بلکہ اس کو اتنی فوقیت دی ہے کہ انگلینڈ کی ملکہ برطانیہ تمام کلیساؤں کی سرپرست ہیں۔اور وہ بھی اپنے مذہب کے حوالے سے اتنی ہی بنیاد پرست ہیں جتنا کہ یہ لبرل ہم مسلمانوں کو اسلام کے حوالے سے سمجھتے ہیں،ٹمپلرز کی جو کہانی پہلے بیان کی جاچکی ہے،اس پر ذرا غور کیا جائے تو اصل بات سامنے آجاتی ہے کہ اہلِ مغرب نے اپنے مذہب کو بالکل ہی الگ،دور نہیں پھینک دیا بلکہ ماضی بعید میں ایک مخصوص گروہ جس نے مذہب کے نام پر بادشاہوں،ریاستوں اور عوام کا استحصال کرنا شروع کردیا اور انتہائی مذموم مقاصد کے حامل تھے اس گروہ کا خاتمہ کیا گیا اسے ہی کا لعدم قرار دیا گیا۔دوسرے الفاظ میں یہ ایک سازشی گروہ تھا جس کا خاتمہ کیا گیا اور ان پر پابندی لگائی گئی بالکل اسی طرح جس آج اقوام متحدہ کسی تنظیم کو دہشت گرد قرار دے کر اس پر پابندی عائد کردیتی اور کالعدم قرار دے دیتی ہے، مغرب میں مذہب کا عمل دخل آج بھی اتنا ہی ہے جتنا پہلے تھا اگر ایسا نہ ہوتا تو افغانستان پر حملے کے وقت امریکی صدر ”صلیبی جنگ“ کے الفاظ استعمال نہ کرتا۔

اسلام ایک غالب دین:

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے،نبی مہربان ﷺ پر جب پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ کو نبوت کی بشارت دی گئی تو اس کے محض تیرہ سال بعد اسلام اقتدار میں آگیا جب نبی کریمﷺ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی اور وہاں کے قبائل کے ساتھ ”میثاقِ مدینہ“ کے نام سے معاہدہ کیا،اس معاہدے کی رو سے رسول کریم ﷺ کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی اور یوں مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست کی بنیاد پڑگئی۔اگرچہ اس وقت کفار میں جس میں یہودی بھی شامل تھے نے اس نوخیز ریاست اسلامیہ کو منہدم کرنے اور دنیا کے نقشہ سے مٹانے کی بھرپور کوشش کی لیکن ان کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں،اس دن سے لیکر تاحال اسلام پھلتا پھولتا رہا،گو جس نہج پر ابتداً اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی اس میں تین دہائیوں بعد تبدیلی آگئی،رسالت کے بعد خلافت اور پھر ملوکیت اور بادشاہت میں تبدیل ہوگئی لیکن اس کے باوجود اسلام اس سلطنت کا بنیادی دستور رہا،قضا،معیشت،معاشرت،ثقافت غرض زندگی کے ہرشعبہ میں اسلامی قوانین ہی کو فوقیت حاصل رہی،بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ ”مولوی“ اگر اس ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اگر نظام مصطفی ﷺ کے نفاذ کے لئے پرامن اور جمہوری جدوجہد کرتے ہیں تو کوئی انہونی بات نہیں کررہے ہیں بلکہ اپنی عظمت رفتہ کو واپس لانے کے لئے کوشاں ہیں۔اپنے اس دعوے کی یہ ایک باقاعدہ تاریخی اور شرعی بنیاد رکھتے ہیں آج کا مغرب سے متاثر اور اس کا آلہ کار لبرل اپنے نظریات کی کیا بنیاد رکھتا ہے،بغیر بنیاد اور کسی تاریخی تسلسل کے نظریات کبھی حقیقت کا روپ نہیں دھارتے،ہاں اگر کبھی کہیں کوئی کامیابی جزوی طور پر مل بھی جاتی ہے تو یہ عارضی ہوتی ہے۔اس لئے ان لبرل حضرات کے مفروضوں کی بھی وہی حیثیت اور درجہ ہے جو ڈارون کے ”نظریہ ارتقا“ کا ہے،خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں،ڈارون نے بھی خواب میں دیکھا کہ وہ بندر کی اولاد ہے،ایسے مضحکہ خیز نظریات کے حامل لوگوں کو ہمارے معاشرے میں ”کھسکا“ہوا کہا اور سمجھتا جاتا ہے۔

اگرچہ اس موضوع پر مزید بھی بہت کچھ لکھا اور کہا جاسکتا ہے لیکن صفحات کی کمی آڑے آتی ہے۔لہذٰا اس تھوڑے لکھے کو کافی سمجھا جائے،عقلمند کے لئے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے،میری لبرل،سیکولر اور نام نہاد روشن خیال حضرات سے دست بستہ گزارش ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کا مکمل مطالعہ کریں،اسلامی تاریخ اور مغربی(یورپین) تاریخ کا بھی مطالعہ فرمائیں اور پورے حقائق سے واقفیت کے بعد ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ ان کا یہ فلسفہ کس حد تک سچا ہے،اگر آپ دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ ایک خدا کو ماننے والے ہیں،نبی مہربان حضرت محمدﷺ پر ایمان رکھتے ہیں اور قرآن مجید مجیدکو اللہ کی آخری کتاب ہدایت تسلیم کرتے ہیں تو پھر کیا چیز مانع ہے آپ کو قرآن کی سچی اور ابدی و لافانی تعلیمات کو جاننے اور سمجھنے میں۔جس طرح سورج کی روشنی کو دن میں ہرگز جھٹلایا نہیں جاسکتا اسی طرح اسلام ”الدین“کو بھی یوں آسانی سے ہرگز جھٹلایا نہیں جاسکتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قارئین کرام!یہاں تک تو یہ بات یقیناً  آپ کے سامنے واضح ہوگئی ہوگی کہ دین اور سیاست الگ الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ دین کا دوسرا نام ہی سیاست ہے یعنی ریاستی و حکومتی معاملات کا انتظام اللہ اور رسولؐ کی تعلیمات کی روشنی میں چلانا ہے۔یہاں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے اور یہ سوال ایسا ہے کہ صرف اسلام مخالف طبقہ ہی اس سوال کو اٹھا کر اچھے بھلے دین دار افراد کو گمراہ نہیں کرتا بلکہ اکثر اسلام پسند بلکہ مذہب پر انتہائی سختی سے عمل کرنے والے لوگ بھی اس غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں اور وہ سوال ہے موجودہ دور اور حالات میں اسلامی نظام،نظام مصطفیﷺ،حکومت الٰہیہ یا اقامت دین کا فریضہ کس طرح سرانجام دیا جائے؟یہ منزل کیسے حاصل ہوگی؟ذیل کی سطور میں ہم اس پر روشنی ڈالیں گے(جاری ہے)۔

Facebook Comments

عنایت اللہ کامران
صحافی، کالم نگار، تجزیہ نگار، سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ سیاسی و سماجی کارکن. مختلف اخبارات میں لکھتے رہے ہیں. گذشتہ 28 سال سے شعبہ صحافت سے منسلک، کئی تجزیے درست ثابت ہوچکے ہیں. حالات حاضرہ باالخصوص عالم اسلام ان کا خاص موضوع ہے. اس موضوع پر بہت کچھ لکھ چکے ہیں. طنزیہ و فکاہیہ انداز میں بھی لکھتے ہیں. انتہائی سادہ انداز میں ان کی لکھی گئی تحریر دل میں اترجاتی ہے.آپ ان کی دیگر تحریریں بھی مکالمہ پر ملاحظہ کرسکتے ہیں. گوگل پر "عنایت اللہ کامران" لکھ کربھی آپ ان کی متفرق تحریریں پڑھ سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply