جنگ ٹل چکی ہے،لیکن۔۔۔شاداب مرتضیٰ

امریکہ،ایران جنگ کا خطرہ فی الحال ٹل چکا ہے جو دنیا اور خصوصا ًمشرق ِ وسطی کے امن کے لیے اچھی بات ہے۔ لیکن دلچسپ بات ہے کہ مارکسزم سے قوم پرستی کی “غیر مشروط” حمایت برآمد کرنے والے بعض “کمیونسٹ” امریکہ-ایران تنازعے پر یہ بھول گئے ہیں کہ امریکہ ایک سامراجی ملک ہے اور اس کے مقابلے میں ایران ایک کمزور اور مظلوم ملک ہے۔ اس سیدھے سادے فرق کو بھلا کر وہ امریکی سامراج کی جارحیت اور ایران کی جوابی کارروائی میں کوئی بھی فرق کرنے سے قاصر ہیں۔ جس طرح قومی سوال پر یہ احباب قوم پرستی، قومی حقوق اور مظلوم قوم کی حمایت یا مخالفت کے معاملے کو گڈ مڈ کرتے ہیں اور قومی سوال پر مارکسزم-لینن ازم کے اصول اور حکمت عملی کو فراموش کر دیتے ہیں اسی طرح امریکہ-ایران تنازعے میں یہ سامراج مخالف جدوجہد کے مارکسی-لیننی اصول اور حکمت عملی کو مسخ کر رہے ہیں۔ اسی قسم کی مجہول سوچ رکھنے والے لوگ فیمنزم کی مخالفت کرنے کو عورت کی آزادی کی مخالفت کرنا سمجھتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ فیمنزم کی مخالفت کرنے کا مطلب کمیونسٹوں کے نزدیک مزدور عورتوں کی آزادی کی جدوجہد کی مخالفت کرنا نہیں بلکہ اسے سرمایہ دارانہ رجحانات سے بچانا ہے۔

امریکہ-ایران تنازعے کا تعلق تضاد کی اس قسم سے ہے جسے بین الاسرمایہ دار تضاد کہا جاتا ہے۔ اس تضاد کے نکتہ نظر سے جب ہم امریکہ-ایران تنازعے کو دیکھتے ہیں تو ہم امریکی سامراج کی مخالفت کرتے ہیں اور ایران کی حمایت کرتے ہیں۔ سامراج کے خلاف کمزور ملکوں کی حمایت سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت کرنے والے ہر شخص کا فرض ہے۔ لیکن اس حمایت کو اس مخصوص تضاد کے دائرہ کار سے باہر نکال کر اسے ایک ملک میں سرمایہ دار اور مزدور طبقے کے درمیان موجود طبقاتی تضاد تک پھیلا دینا درست نہیں۔

امریکہ-ایران تنازعے میں امریکی سامراج کی مخالفت کرنے اور اس کے مقابلے میں ایک کمزور ملک کی حیثیت سے ایران کی حمایت کرنے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ہم ایران کی سرمایہ دارانہ ملائیت اور ایران کے مزدور طبقے کے درمیان موجود طبقاتی تضاد اور جدوجہد میں بھی ایران کی سرمایہ دارانہ ملائیت کے طرف دار ہیں۔ اس کے برعکس، اس تضاد کے حوالے سے ایرانی سرمایہ دارانہ ملائیت کی مخالفت اور ایران کے مزدور طبقے اور محنت کش عوام کی حمایت ایک کمیونسٹ کی حیثیت سے ہم پر لازم ہے۔ سرمایہ دارانہ ملکوں کے درمیان تضاد، سامراجی سرمایہ دار ملکوں کا کمزور، غیر سامراجی، سرمایہ دار ملکوں سے تضاد اور ہر سامراجی یا سرمایہ دار ملک کے اندر اس کے حکمران سرمایہ دار طبقے کا اپنے ملک کے مزدور طبقے سے طبقاتی تضاد، یہ دو مختلف قسم کے، خارجی اور داخلی، تضادات ہیں جنہیں ایک دوسرے سے گڈ مڈ نہیں کرنا چاہیے۔ جہاں تک امریکی سامراج اور اس کے مقابلے میں کمزور ایران کے تضاد کا سوال ہے تو ہم امریکی سامراج کے مقابلے میں کمزور ایران کے طرف دار ہیں۔ اور جہاں تک ایرانی سرمایہ دار اور ایرانی مزدور کے تضاد کا سوال ہے تو اس میں ہم بلا شک و شبہ ایرانی سرمایہ دار کے خلاف ایرانی مزدور طبقے کے ساتھ ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر ایران کا سرمایہ دار طبقہ امریکی سامراج کی جارحیت کے خلاف کھڑا ہوتا ہے تو کیا ایرانی مزدور طبقے کو سامراج مخالف جدوجہد میں اس کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے؟ کیوں نہیں۔ ضرور کھڑا ہونا چاہیے۔ کیا سامراج مخالف جدوجہد میں مزدور طبقے کو ملکی سرمایہ دار طبقے کے ساتھ متحدہ محاذ بنانا چاہیے؟ کیوں نہیں۔ ضرور بنانا چاہیے۔ کیا مارکسزم-لینن ازم سامراج کے خلاف ملکی سرمایہ دار طبقے کے ساتھ اس قسم کے سمجھوتوں کی اجازت دیتا ہے؟ کیوں نہیں۔ ضرور دیتا ہے۔ کیا اس قسم کے وقتی سمجھوتوں کا مطلب یہ ہے کہ مزدور طبقہ اپنی طبقاتی جدوجہد کو فراموش کر دے؟ ہر گز نہیں۔ یہ غلط تاثر تو ٹراٹسکی ازم کا خاصہ ہے۔ اس قسم کے سامراج مخالف اتحاد کا مطلب یہ نہیں کہ ایران کا مزدور طبقہ ایرانی سرمایہ داروں کا سیاسی دم چھلہ بن جائے اور ان کے ساتھ اپنے طبقاتی تضاد کو فراموش کردے۔ اس کے برعکس، ایران کے مزدور طبقے کو اس اتحاد سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے، اس کے  ذریعے اپنے لیے زیادہ سے زیادہ سیاسی آزادیاں حاصل کرتے ہوئے، ایک خودمختار سیاسی قوت کے طور پر اس طرح جدوجہد کرنا چاہیے اور سیاسی غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے جس میں سامراج مخالف جدوجہد کے ساتھ ایران کی سرمایہ دارانہ ملائیت کی فطرت بھی ایران کے محنت کش عوام پر واضح ہو۔ یہی پرولتاریہ سیاست کی مارکسی-لیننی حکمت عملی کا وہ اصول ہے جسے مارکس، اینگلز، لینن اور  سٹالن نے سامراج مخالف جدوجہد اور قومی سوال پر نہایت وضاحت کے ساتھ اپنی تحریروں اور سیاسی عمل میں پیش کیا ہے۔

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply