سکاٹ لینڈ کی ڈائری:بریگزٹ !اب کیا ہوگا ؟۔۔۔طاہر انعام شیخ

بالآخر برطانیہ کی حالیہ تاریخ کا وہ بحران ختم ہوا جس نے ملک کو تین سال سے اپنی گرفت میں لے رکھا تھا، اگرچہ اب بھی صورتحال کوئی بہت واضح نہیں لیکن بہرحال ایک ایسی پارٹی کو پارلیمنٹ میں واضح اکثریت حاصل ہوگئی ہے جو بریگزٹ پر ایک واضح موقف رکھتی تھی اورا ب وہ اپنی عددی تعداد کے بل بوتے پر کسی دوسری پارٹی کے تعاون کے بغیر عملی جامہ پہنا سکے گی۔ بریگزٹ نے برطانوی معاشرے کو تقسیم کردیا تھا، دونوں طرف بے پناہ دلائل تھے اور دونوں ہی محب وطن تھے، ایک کے نزدیک موجودہ دنیا کے سب سے بڑے تجارتی بلاک یورپین یونین کے ساتھ بدستور رہنا ہی برطانیہ کے بہترین مفاد میں تھا جن کے ساتھ برطانیہ کی تقریباً آدھی یعنی ایک اعشاریہ تین ٹریلین کی تجارت ہے جو کل ٹریڈ کا49 فیصد ہے۔ بریگزٹ پر برطانیہ میں پہلا ریفرنڈم کرانے والے کنزرویٹو وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون بھی یورپی یونین میں رہنے کے حق میں تھے۔ اس گروپ کا خیال تھا کہ برطانیہ اب وہ نو آبادیاتی طاقت نہیں جس پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ اب ہمیں نئے حقائق کے مطابق چلنا ہوگا لیکن بریگزٹ کے حامیوں کا کہنا تھا کہ یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرکے اور امریکہ وغیرہ کے ساتھ مزید بہتر تعلقات قائم کرکے ہم ملکی و عالمی سطح پر ایک بہتر کردار ادا کرسکتے

ہیں، ہم اب بھی دنیا کی پانچویں معیشت اور طاقت ہیں ،علاوہ ازیں یہ گروپ سمجھتا تھا کہ یورپی یونین مستقبل میں اپنا تجارتی اور مالی مرکز فرینکفرٹ یا ایمسٹرڈیم کو بناسکتی ہے جس سے نہ صرف لندن کی حیثیت بلکہ ہمارا پونڈ بھی متاثر ہوگا، بورس جانسن چونکہ بریگزٹ کے سب سے بڑے علمبردار تھے اور ان کو پارلیمنٹ میں 234کے مقابلے میں 368 نشستیں مل گئی ہیں لہٰذا اب بریگزٹ کے بارے میں تو کوئی شک باقی نہیں رہا اور 31جنوری 2020 کو برطانیہ یورپی یونین سے رسمی طور پر نکل آئے گا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پہلی فروری سے صورتحال بالکل بدل جائے گی، برطانیہ ایک ڈیل کے ساتھ نکلے گا اور اس میں گیارہ ماہ کا عبوری دور شامل ہوگا جو کہ 31دسمبر 2020 تک کا ہوگا۔ اس میں تفصیلی مذاکرات کے ذریعے طے کیا جائے گا کہ مستقبل میں یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان تعلقات کی کیا نوعیت ہوگی یہ مرحلہ بھی کوئی آسان نہیں، بلکہ نہایت اہمیت کا حامل ہوگا، برطانیہ اور یورپی یونین نے بنیادی اسکرپٹ تیار کر رکھا ہے، ان میں سرفہرست یورپی یونین کے ساتھ برطانیہ کی فری ٹریڈ ڈیل پر مذاکرات ہوں گے کہ کیا ان کے درمیان تجارتی اشیا پر کوئی ٹیکس لگایا جائے گا۔ یا موجودہ صورتحال کے مطابق بغیر ٹیکس کے درآمد برآمد ہوگی، نیز اشیا کی تجارت کا کوئی کوٹہ ہوگا یاکہ سامان کسی بھی مقدار میں منتقل ہوسکے گا لیکن فری ٹریڈ کا یہ مطلب نہیں کہ دونوں کے درمیان کوئی چیک نہیں ہوگا، ٹریڈ کے علاوہ دیگر مسائل مثلاً دہشت گردی سے نمٹنا امن و امان کے سلسلہ میں قوانین کا نفاذ، معلومات کا تبادلہ، ماہی گیری کے لئے سمندری حدود، گیس اور بجلی کی ترسیل، دوائیوں کی لائسننگ اور ٹریڈ وغیرہ شامل ہوں گے، ان کے علاوہ امیگریشن بھی ایک بڑا مسئلہ ہوگا ۔کنزرویٹو حکومت پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ وہ یورپ کے ساتھ آزادانہ افراد کی نقل و حرکت ختم کردے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ برطانیہ کو اپنی معاشی ترقی خصوصاً تعمیرات اور زراعت کے لئے افرادی قوت کی ضرورت ہے، علاوہ ازیں دیگر ہنر مند افراد مثلاً ڈاکٹر ، انجینئر وغیرہ بھی چاہئے لیکن اس کے لئے وہ لوگوں کو ان کی اہلیت اور اپنی ضرورت کے مطابق ویزے دیں گے اور اس کے لئے یورپی یونین کے علاوہ باقی دنیا سے بھی افراد آسکیں گے، اس صورت میں پاکستانی اور ایشین افراد کو بھی خاصا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ وہ اس طرح کی پالیسیاں چاہتے ہیں کہ کم ہنر مند افراد کو صرف ایک سال تک کا ویزادیا جائے تاکہ وہ مستقل سکونت حاصل نہ کرسکیں اور نہ ہی ان کو پبلک فنڈز تک رسائی حاصل ہو۔ البتہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے لئے صورتحال مختلف ہوگی۔ برطانیہ یورپی یونین کے ساتھ ساتھ امریکہ اور آسٹریلیا کے ساتھ بھی اپنے تجارتی مذاکرات جاری رکھے گا۔ یورپی یونین کے ساتھ مذاکرات طویل بھی ہوسکتے ہیں لیکن بورس جانسن ان کو 31دسمبر 2020 تک مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس وقت تک ٹریڈ ڈیل مکمل ہو جائے تو اس پر فوری عمل شروع ہو جائے گا جب کہ بقایا مذاکرات بعد میں بھی چلتے رہیں گے اور یہ عرصہ 12سے 24مہینوں پر بھی محیط ہوسکتا ہے، آخری صورت یہ ہے کہ برطانیہ بغیر کسی ڈیل کے باہر آجائے اور پھر وہ براہ راست’’ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن‘‘ کے تحت آپس میں تجارت کریں اور اس کے مطابق اپنی اپنی مصنوعات پر ٹیکس ادا کریں۔ برطانیہ یورپی یونین سے نکل تو آئے گا لیکن اس کے فوائد و نقصانات کیا ہوں گے یہ حالات اور اس وقت اختیار کی جانے والی پالیسیوں پر منحصر ہوگا، موجودہ حکومت کو بریگزٹ پر فتح تو مل گئی ہے لیکن اس کے نتیجے میں اسکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ کے معاملات برطانیہ کی سالمیت کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں جنہوں نے بدستور یورپی یونین میں رہنے کے لئے ووٹ دیئے تھے، مستقبل میں حالات اس نہج پر جاسکتے ہیں کہ یہ علاقے برطانیہ سے ہی علیحدگی اختیار کرلیں، سکاٹ لینڈ میں اسکاٹش نیشنل پارٹی نے تو آزادی کے لئے ایک بہت زبردست مہم بھی چلا رکھی ہے، دوسرا مسئلہ آئر لینڈ کا ہے، شمالی آئر لینڈ اور ری پبلک آف آئر لینڈ کے درمیان آمد و رفت کی کوئی رکاوٹ نہیں تھی، اب ری پبلک آف آئرلینڈ تو یورپی یونین کا ممبر رہے گا، جب کہ شمالی آئرلینڈ نہیں، شمالی آئر لینڈ برطانیہ کی کسٹم حدود میں رہے گا، اب اگر برطانیہ کی مین لینڈ سے سامان بذریعہ شمالی آئر لینڈ ری پبلک آف آئر لینڈ یا یورپی یونین کو بھیجا جائے گا ۔اس پر ٹیکس وصول کیا جائے گا، یورپی یونین ماضی میں یہ یقین دہانی کراچکی ہے کہ وہ یہ سرحد کھلی رکھے گی۔ اس پر چیک کو آئرش بیک سٹاپ کا نام دیا گیا تھا لیکن برطانوی پارلیمنٹ نے اس کو ملک تقسیم کرنے والا اقدام قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply