شکر۔۔۔مختار پارس

حالات اچھے نہیں ہیں، اس پر شکر کرنے کی ضرورت ہے۔ شکر کرنے کی ریت ڈالیں گے تو حالات اچھے ہوں گے۔ ایسا نہیں ہے کہ انسان کی پانچوں گھی میں ہوں تو اس کا شکر ادا کرنا بنتا ہے۔شکر ہر حال میں راضی ہو جانے کو کہتے ہیں۔ جب حالات کی فکر نہیں رہتی تو  تکلیف بھی باقی نہیں رہتی۔ تکلیف تو کبھی بھی باقی نہیں رہتی،وہ باقی رہنے کےلیے آتی ہی نہیں۔ شکر زندگی کا وہ کٹھن موڑ ہوتا ہے جس کو عبور کرتے ہی راستہ صاف ہو جاتا ہے۔ اور لگتا ہے انسان ایک ایسی چوٹی پر پہنچ گیا ہے جہاں سے پستی میں پڑی ساری چیزیں بہت اچھی طرح نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں۔

شکر یہ نہیں کہ آتش شکم بجھ جائے  تو پیٹ پر ہاتھ مار کر آسمان کی طرف دیکھ کر الحمد پڑھ لیا جائے۔ کھانا کھا کر جو احساس طمانیت ملتا ہے، اسے خوشی تو کہا جا سکتا ہے، شکر نہیں۔ کھانا میسر ہونا “شکر”ہوتا تو جن کو من و سلویٰ میسر تھا، وہ معتبر ہو جاتے۔ شکر کا لمحہ کھانا کھانے سے پہلے آتا ہے۔ رزق پاس ہو تو اس بات کا دیکھ لینا مناسب ہے کہ کیا ارد گرد موجود کسی کو اسکی تم سے زیادہ ضرورت تو نہیں۔ اپنی روٹی میں سے آدھی کسی اور کو دے دینے کا نام شکر ہے۔ اپنی خوشی میں کسی کو شامل کرنے کا نام شکر ہے۔ اپنی زندگی سے کسی اور کو زندہ کرنے کا نام شکر ہے۔

پوجا پاٹ شکر نہیں ہے۔ شکر تو ایسا عمل ہے، جو خوش نصیبوں کو عطا ہوتا ہے۔ وہ موقع جو لوٹ کر نہیں آتا،وہ درد جس میں شفا ہے،وہ توکل جو بے نیاز کر دیتا ہے،وہ حصار جو آزاد کر دیتا ہے، وہ انکار جو اصرار کا محتاج نہیں رہتا، اس عمل سے ملتا ہے۔ اس کا ملنا بالکل بھی مشکل نہیں۔ مقام شکر تک پہنچنے کی استطاعت ہر شخص کی ذات میں موجود ہے۔ مالک نے تو انسان کو بنایا ہی شکر ادا کرنے کےلیے ہے۔ یہ تفریق اس کی تخلیق میں ہو نہیں سکتی کہ کوئی شکر ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہو اور کوئی اس ہنر سے محروم ہو۔ سب شکر ادا کر سکتے ہیں اگر وہ کرنا چاہیں تو۔ ہم میں سے ہر شخص کا شکر علیحدہ ہے۔ کسی کی دعا شکر ہے اور کسی کی رضا شکر ہے۔ خوش نصیب وہ ہے جو اس کو تلاش کر لیتا ہے۔

انسان کو یہ زعم بھی نہیں ہونا چاہیے کہ شکر ادا کرنا صرف اسے آتا ہے۔ اس کائنات کا ہر ذرہ حالت شکر میں ہے۔ ہر ذرہ حرکت میں ہے اور برکت بانٹ رہا ہے۔ مٹی خوشبو بانٹ رہی ہے اور سورج آگ بانٹ رہا ہے۔ چرند اور پرند اپنا آپ بانٹ رہے ہیں۔ شجر اشجار، ثمر اثمار اور سایہ، لگاتار بانٹ رہے ہیں۔ انسان کے سوا کسی تخلیق کو کوئی شبہ نہیں کہ وہ کیوں ہے اور کیوں دیتا ہی چلا جا رہا ہے۔ پانی پہاڑوں سے چلتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کسے ڈبونا ہے کسے سیراب کرنا ہے۔ نہیں معلوم تو اس کو جس کے مقدر میں ڈوب جانا لکھا ہوتا ہے اور جسے ذرخیز ہونا ہوتا ہے۔ ختم ہو جانے والےاگر خیال رکھنے والے ہوں تو وہ ختم نہیں ہوسکتے۔ جس کھیت سے دہقان کی بھوک نہ مٹ سکتی ہو، وہ ویران ہو جاتے ہیں۔

کیسی رمزحیات ہے کہ شکر ادا کرنے کےلیے  وسائل کا ہونا ضروری نہیں۔ کسی کے پاس کچھ نہیں ہے تو بھی بہت کچھ دے سکتا ہے۔ کچھ اور نہیں تو اچھی بات تو کر سکتا ہے،یہ بھی ایک ‘ شکر’ ہے۔ ایک بدکار کا شکر یہ ہے کہ وہ کچھ نہ کرنے کی کوشش کرے۔ کسی کی نیند شکر ہے، کسی کے خواب شکر ہیں۔ خواہشوں کا گلہ گھونٹنا تو شکر نہیں مگر خواہشوں سے دور ہونا شکر ضرور ہے۔ اپنے نفس کی قربانی دینے میں ایک خوشی ہے جو ایک ایسا دیوتا محسوس کر سکتا ہے جسے معلوم ہو کہ اس کو کیے جانے و الے سجدوں کا مطلب کیا ہے۔ جو خواہش طلب سے بےنیاز کر دے، وہ خدا کے قریب کر دیتی ہے۔ من و تُو کا فرق ہی نہ رہے تو کون جانے کہ کون دینے والا ہے اور کون لینے والا۔

دنیا میں زندگی بہت بکھر گئی ہے۔ اس کو سمیٹنا مشکل ہے۔ رنگ و بُو کے دیوان میں ریشم سے لکھے گئےشعر الجھ گئے  ہیں۔ زرد موسم میں ساری آنکھیں، سارے ہاتھ، خشمگیں ہو کرلہراتے ہوئے  زمیں کو آتے ہیں۔ انسانوں کے تو صرف جسم رہ گئے  ہیں، ان کے اندر کا شکر طلاطم کی نذر ہو گیا۔ اس ابتلاء میں ہجوم رہ گیا اور ایک ہونے کی شناخت دم توڑ گئی۔ ہر شخص کسی گروہ کا حصہ ہے اور اب اسی طرح سوچتا ہے۔ اکیلا ہوتا تو ‘اس ایک’ کی طرح سوچتا۔ شکر ادا کرنے والا اسی لیے جہاں بھی ہو، تنہا نظر آتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کوئی سمجھے یا نہ سمجھے، سارا کھیل ہی محبت کا ہے۔ جس نے جس سے محبت کی، اس نے سب کچھ اس کو دے دیا۔ جہاں گرد کو سفر کی خاک میں محبت ملی تو اس نے پہاڑ کی چوٹیوں کو سر کر کے شکر ادا کیا۔ سوچنے والوں کو عذابوں سے عقیدت ہو گئی تو انہوں نے حقیقت کو سمجھ کر شکر ادا کیا۔ کسی نے کسی کو دیکھ کر شکر ادا کیا۔ جس کو خدا سے محبت ہو گئی، اس نے خود کو مٹا دیا۔ جس کو خلق خدا سے محبت ہو گئی، اس نے خدا کو پا لیا۔ درخت پر بیٹھی فاختہ کی ‘اللہ ھو’ شاکر و مشکور کی داستان مدحت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ پتہ نہیں اسے کس سے محبت ہے ۔

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply