• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • حضرت محمد ﷺ بطور ترقی پسند رہنما۔سیاسی اور سماجی اصلاحات/مکالمہ سیرت ایوارڈ۔۔۔راحیلہ کوثر

حضرت محمد ﷺ بطور ترقی پسند رہنما۔سیاسی اور سماجی اصلاحات/مکالمہ سیرت ایوارڈ۔۔۔راحیلہ کوثر

جب میں نے مکالمہ  پر  اس موضوع پر لکھنے سے متعلق پڑھاتو مجھے بے حد خوشی ہوئی ،یہ موضوع دورِحاضر کی اشد ضرورت ہے تاکہ باطل نظریات کی اصلاح کی جا سکے۔ 21 ویں صدی کے جن حالات میں،میں نے آنکھ کھولی وہ پچھلی صدی اور اس سے بھی قبل رونما ہونے والے واقعات کا انجام تھے۔دستیاب تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آج سے 14سو سال قبل کی دنیا میں یونانی فلسفہ اپنے کھوکھلے پن کا خود شکار ہوگیا،یورپ میں رومی حکومت قائم ہو چکی تھی، ایران میں مزوکیت کا دور تھا۔چین کی مصلح کنفیوشس سے حاصل کردہ عظمت زوال پذیر ہوچکی تھی اورہندوستان پر آریہ قابض تھے۔گوتم بدھ کی ترک دنیا کی تحریک برہمن سامراج کے سامنے دم توڑ رہی تھی، ذات پات اور اوہام پرستی عروج پر تھی اور یہی حالات ترکستان اور حبشہ کے تھے عرب کے حالات کی منظرکشی مسدس حالی میں کچھ یوں ہے:
چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ، فسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہ
نہ تھا کوئی قانون نہ تازیانہ ،ہر ایک لوٹ اور مار میں تھا یگانا

ایسا خطہ جہاں جنگل کا قانون ہو وہاں معاشرتی زندگی کی اصلاح کرنا اور لفظ سیاست کی درست تعریف کردار سے بیان کرنا ایک جہاد تھا، نبی ﷺنے نبوت سے قبل ہی عرب کی ہر معاشرتی برائی کے بر عکس خود کو اخلاق،کردار اور پاکیزگی کی اعلیٰ مثال بنایا اور صاق و امین کہلائے، حجرِ اسود کی تنصیب کا معاملہ پیش آیا تو دیانت وفراست سے ہزاروں جانیں بچا ئیں۔دور جہالت کے عرب عورت کے ہر رشتہ کو پامال کرتے، بیٹی کو زندہ دفن کرتے ،بیوہ سے شادی کو معیوب گردانتے ،پھر اسی معاشرے میں آپﷺ نے 25 سال کی عمر میں 40 سالہ بیوہ اور تاجر خاتون حضرت خدیجہ سے شادی کی، اپنی بیٹی  سے پیار اور شفقت کا رویہ رکھا ،ان کو رحمت قرار دیا، وراثت میں حق دیا، ازدواجی حقوق بھی متعین کروائے اور حصول علم کو مرد اور عورت دونوں کے لیے یکساں طور پر فرض قرار دے کر روشن خیالی کا درست نمونہ پیش کیا۔عرب مرد تو بچوں کو گود میں اٹھانے اور پیار کرنے کو بھی معیوب سمجھتے تھے مگر آپ نے اپنے نواسوں کو گود میں لے کر،انہیں  کاندھوں پر  اُٹھایا۔ جب اسلام کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا تو کفار نے آپ ﷺ کو دنیاوی دولت،اقتداراور عیش وعشرت کی پیش کش کے بدلے وحدانیت کی تبلیغ سے منع کرنے کی پیشکش کی جسے آپ نے ٹھکرا دیا۔آپﷺ کو جادوگر بولا  گیا،آپ پر کچرا پھینکا، طائف میں پتھر وں سے لہولہان کیا،مگر آپﷺ نے سب کو معاف فرما دیا۔ جب کفار نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا حتی کہ آپﷺ کے قتل کی سازش  تیار کی ،تو آپﷺ نے ہجرت کی پُر امن راہ اختیار فرمائی۔پھر اپنی سیاسی زندگی کا آغاز ریاست مدینہ میں کیا، جو ایک دستوری حکومت تھی ،انتظامیہ قانون الٰہی کے سپرد تھی ،عدلیہ انتظامی دباؤ سے آزاد تھی۔ تمام مہاجرین کو انصار کا بھائی بنا کر اخوت اور بھائی چارے کی ایسی مثال قائم کی گئی جس کی نظیر نہیں ملتی۔

قرآن پاک میں ارشادہے۔۔اورنبی ﷺکو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔

وہ انسانیت کے لیے بے شمار نعمتیں لائے معرفت الٰہی، عدم تشدد، سادگی، ایفائے عہد، زہدو قناعت، غریبوں سے محبت، دشمنوں سے عفوو درگزر،بچوں پر شفقت، حیوانات پر رحم۔ آپ ﷺ نے نسل پرستی کی نفی کی اور اپنے عمل سے معاشرتی، سیا سی و ثقا فتی زندگی کے تمام پہلوؤں میں انسانیت کی رہنمائی فرما کر ایسا معاشرہ تشکیل دیا جو سرپا اخلاق و عمل اور امن تھا۔آپ ﷺ نے سیاست کو عبادت سمجھا اور ایک عام شخص کے مقابلے میں صاحب اقتدار کے جرم اور جھوٹ کو  زیادہ سنگین قرار دیا۔ آپﷺ جب صحابہ میں چلتے تو کوشش کرتے کہ پیچھے چلیں نہ کوئی سواری تھی نہ قصروایوان نہ باڈ ی گارڈ نہ شاہانہ  لباس۔ آپ ﷺ نے مسجد نبوی کو کمیونٹی سنٹر اور سیکٹریٹ کا درجہ دیا اور تمام امور کے فیصلے مشترکہ رائے سے مسجدکے احاطہ میں کیے اور ایک اچھے منتظم کی حیثیت سے کتاب وحی،مالیات کا ریکارڈ،مہر نبوی کی حفاظت، محکمہ عدل،احتساب  اور جرائم کے سد باب کے لیے مختلف شعبے منظم کیے اور دوسرے علاقوں میں والی ِ، عاملہ اور قاضی مقرر کیے۔آپ ﷺ نے ایک اچھے سفارت کار کی حیثیت سے غیر ملکی حکمرانوں کو جو مدلل اور سادہ خطوط تحریر کیے اس کی مثال پہلے نہیں ملتی۔ آپ ﷺ نے عالمگیر امن کی خاطر قریب و بعید کے قبائل اور ارباب اقتدار سے ایسے معاہدے کیے جن میں سب کے جان و مال کا تحفظ اور امن و امان مقصود تھا وہیں سب کو آزادی رائے کا حق بھی دیا۔ صلح حدیبیہ کا معاہدہ ہو یا میثاق مدینہ جسے ہم اسلامی ریاست کا پہلا تحریری آئن کہہ سکتے ہیں فتح مکہ ہو یا حجتہ الوداع کا خطبہ یہ سب آپﷺ کی اعلیٰ سیاسی بصیرت کے مظہر ہیں۔

مکالمہ کے تواصل سے میں آج یہ غلط فہمی بھی دور کرنا چاہتی ہوں کہ اسلام جنگ سے پھیلا ،بلاشبہ آپ ﷺ نے بہت سی جنگوں میں شرکت کی اور قیادت بحیثیت جرنیل کی مگر ان کے محرکات کا علم ہونا بھی ضروری ہے۔ پہلی جنگ مدینہ سے 30 میل دور بدر کے مقام میں لڑی گئی دوسری جنگ مدینہ سے صرف 12میل دور احد میں ہوئی ،تیسری جنگ غزوہ احزاب تھی جس میں تمام یہود اور کفار نے مدینہ کا محاصرہ کر لیا تو فیصلہ آپ خود کریں کہ جارحیت کس نے کی؟اپنے وطن سے طویل مسافت طے کرکے کون گیا؟ وہ مشرکین مکہ تھے۔تاہم جب یہ جارحیت حد سے تجاوز کر گئی اور صورت حال سنگین ہو گئی تب آپﷺ نے اس جارحیت کی سر کوبی کے لیے بعض مقامات پر اسلامی لشکر روانہ کیے۔ آپ ﷺ نے جنگ کے دوران زخمیوں،بھاگنے والوں، قیدیوں اور بچوں، بوڑھوں، عورتوں، معذوروں کو غیر اہل قتال کا درجہ بخشا اور لاشوں کی بے حرمتی سے روکا۔

Advertisements
julia rana solicitors

فتح مکہ کے بعدآپﷺ نے سب کو امان، مذہبی آزادی اور اقلیتوں کو تحفظ دیا۔ عرب کے سودی اور منافع خوری،قرض کے بدلے رہن میں بیوی بچے تک رکھ لینے کے اصول معاشیات اور تجارت کو حرام قرار دے کر ان کے بدلے میں مضاربت، شراکت، مزارعت، مساقات اور اجارہ کے سنہری تجارتی و معاشی اصول متعارف کروائے۔ بیت المال کی تشکیل دے کر اہل حاجت کو غیر سودی قرض دئیے اور تنگدست مقروض کا قرض بحیثیت نبی اور سربراہ خود ادا فرمانے لگے۔دنیا میں جتنے بھی انقلاب آئے لاکھوں جانیں گوانے اور تباہی کے بعد رونما ہوئے۔مگر رسولﷺ کی قیادت میں جو اسلامی انقلاب آیا اس میں چند سو افراد کی جانیں گئیں۔پھر دنیا نے دیکھا کہ مدینہ میں قائم ہونے والی چھوٹی سی دینی ریاست جس کی اولین قیادت اللہ کے آخری رسولﷺ کے ہاتھ میں تھی ان کے اپنے تربیت یافتہ ساتھیوں اور اس جماعت کے سرکردہ رہنماؤں کے زیرِنگرانی  بے مثال تیزی سے ابھری اور عظیم الشان بین الاقوامی سلطنت میں ڈھل گئی اور صدیوں دنیا پر حاکم رہی۔ اگر آج کی عالمی قیادتیں بھی ان اصول سیاست کی پیروی کریں تو وہی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں جو کل ہوئے تھے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”حضرت محمد ﷺ بطور ترقی پسند رہنما۔سیاسی اور سماجی اصلاحات/مکالمہ سیرت ایوارڈ۔۔۔راحیلہ کوثر

Leave a Reply