“عبایا” ایک خط ۔۔۔ محمد فیاض حسرت

آداب جنید میاں !
تم نے کہا تھا کہ اس بارے مفصل لکھوں، سو لیجیے۔
پاکستان میں کئی یونیورسٹیا ں ایسی ہیں جن کا نظم و نسق یا انتظام و انصرام اپنی مثال آپ ہے ، ذرا اِس یونیورسٹی کا مقام تو ملاحظہ کیجیےکہ کس قدر عالی مقام و مرتبے پہ یونیورسٹی فائز ہے ۔ جانتے ہو اس عالی مقام و مرتبے کا سہرا صرف اس ایک حکم نامے کے سر ہے ، وہی حکم نامہ جس کے تحت یونیورسٹی طالبات کے لیے عبایا شرطِ اول ٹھہرایا گیا ۔ اس پہ طالبات کی رنجیدگی کی وجہ تو معلوم پڑتی ہے لیکن یہ بات مجھے کافی حیراں و پریشاں کیے ہوئےہے کہ طلبا، یعنی مرد حضرات کیونکر اس پہ رنجیدہ ہو رہے ہیں ؟ان کے لیے تو عبایا نہیں مقرر کیا گیا ۔ بات اگر رنجیدگی و خفگی کی ہی ہوتی تو ہم نہ مانتے ہوئے بھی بجا مانتے و جانتے لیکن یہ کیا کہ کئی طلبا احتجاج کو اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور تب سے اک ہنگامہ برپا کیے ہوئے ہیں ،گویا اس سے یہ تو ثابت ہی ہو گیا کہ ظلم طالبات پر نہیں سارا ظلم طلبا پر ہوا ۔
تم جو یہ سوچو گے کہ کیسا ظلم ؟میاں ! بجا سوچو گے ۔ تم سوچنے کے علاوہ ترس بھی کھاؤ گے اور اس بات کا بھی امکان موجود ہے کہ تم طلبا کے حق میں اٹھ کھڑے ہو جاؤ اگر کسی ایک طالب علم سے بھی جا کر پوچھو اور جانو کہ وہ اس معاملے میں ، ناتوانی کے باوجود کیا کیا نہ کچھ سہہ چکا اور سہہ رہا ۔
میرے خیال میں طالبات کو عبایا پہنے یونیورسٹی آنے میں کوئی عار نہیں ہونی چاہیے اور بجائے پریشانئ خاطر کے خوشی کرنی چاہیے کہ اس ایک عبایا میں کئی خوبیا ں و کئی فوائد کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں ۔ مثلاً آپ نے گھر میں کوئی بھی کپڑے پہنے ہوں ، کوئی بھی سے مراد جتنے بھی میلے کچیلے ، آپ انہی کپڑوں کے اوپر عبایا پہنے یونیورسٹی آ جا سکتے ہیں، خیال رہے میں طالبات سے مخاطب ہوں !
کتنے احمق لوگ ہیں کہ ان کا دھیان صرف اس طرف جاتا ہے کہ ایسی صورت میں پورے سال میں ایک بار بھی اگر کپڑے دھو لیے جائیں تو کافی ہے مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ اس کے علاوہ بھی کئی صفتیں اس میں موجود ہیں ۔ مثلاً سال بھر میں دھونے کے علاوہ ایک بار کپڑے خریدنا ، اگر اس عرصے میں نہ بھی خریدیں جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں ، استری کی بے جا دکعت سے آزاد ہونا ، پورے سال میں صرف ہاتھ منہ ہی دھونا ، قسم اس دھونے کی کہ اگر کسی کو ذرا برابر بھی کوئی فرق پڑے اور سب سے بڑی خوبی کہ وقت کی بچت ۔
سب خوب جانتے ہیں کہ یہ مخلوق پڑھائی سے بھی زیادہ وقت بننے سنورنے میں خوب صرف کرتی ہے ۔ اگر یوں بھی کہہ لیا جائے تو کوئی عیب نہیں کہ اُنہوں نے عالم کے باقی تمام کاموں سے زیادہ وقت اسی بننے سنورنے کے نام کیا ہوا ہے ۔ اس میں کپڑوں کی بھی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے ۔
اور ہاں ان کے علاوہ فلاں فلاں خوبیوں سے تم پہلے ہی خوب واقف ہو بہتر یہی ہے کہ یہیں پہ اکتفا کیا جائے وگرنہ میں مزید خوبیاں بیاں کرنے میں لگ گیا تو عجب نہیں کہ مرد حضرات بھی عبایا پہنے یونیورسٹی آنے جانے لگیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سلامت رہو !
محمد فیاض حسرت
یکم دسمبر 2019

Facebook Comments

محمد فیاض حسرت
تحریر اور شاعری کے فن سے کچھ واقفیت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply