وقت کی رفتار/سراجی تھلوی

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے

عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

“پانچ چیزوں کو پانچ سے پہلے غنیمت سمجھو ،موت سے پہلے زندگی کو، بیماری سے پہلے تندرستی کو ، مشغولیت سے پہلے فراغت کی گھڑی کو،بڑھاپے سے پہلے جوانی کو،اور فقر سے پہلے مالداری کو ۔”

17فروری 2013ء،13سال کی عمر میں غمِ دُنیا سے بے خبر بچپن کی نادانیوں، سرمستیوں، شوخیوں میں مست و مگن ایک معصوم بچہ حصول علم کےلیے بلتستان کی خوبصورت وادی تھلے بردس کے  اُن گلی کوچوں کو چھوڑ کر جہاں عمر عزیز کے  تیرہ سال گُلی ڈنڈے، آنکھ مچولی، ہزار قسم کی شوخیاں کرتے گزارے ، اسے مقدر کے فیصلے سمجھیں   یا حصولِ  تعلیم کا جنون۔ سب کچھ چھوڑ کر میلوں دور کسی اجنبی شہر کےلیے رخت سفر باندھ رہا ہے ۔نہیں معلوم اس عمر میں ہجر و فراق کی اذیتوں کو لاشعور  میں نہیں سمجھا یا سمجھ کر بھی ناسمجھی دکھائی۔ بقول غالب ؛
وداع و وصل جداگانہ لذتِ  دارد
ہزار بار برو ،صد ہزار بار بیا

آنکھوں میں جنون علم کی سُرخی دل میں داغِ فراق کی اذیتیں لیے گاڑی میں بیٹھا آج عمر عزیز کی 23بہاریں دیکھنے کے بعد کسی نامعلوم چوکھٹ سے کسی انجان گلی کی نکڑ سے پلٹ کر پیچھے دیکھتا ہوں تو ایک لمحے میں بچپن ختم ہو کر شباب کی نازک دہلیز پر قدم رکھے تھکاوٹ سے چور غمِ دُنیا و غمِ روزگار کی فکر میں مگن دکھائی دیتا ہے۔
ہائے یہ وقت کسی کے لیے نہیں رکتا۔۔۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

ایک وقت تھا کہ پتنگیں اُڑانا،گُلی ڈنڈا،آنکھ مچولی ہی زندگی کا اصل مقصد تھا اب ایسا وقت آن پہنچا ہے کہ طبیعت پر یہ چیزیں گراں گزرتی ہیں۔ مگر سچ پوچھے تو عہدِ رفتہ کے  اُن حسین لمحوں کے مقابلے میں شباب کی مستی و جنون ہیچ لگتا ہے۔

نصابی کتابوں کو رٹ کر کلاس میں سنانا ہی زندگی کا ہم و غم تھا۔رٹا لگا کر سنانے والا ہی کلاس کا  قابل ترین و ذہین ترین بچہ شمار ہوتا تھا۔ اب فقط رٹنے سے طبیعت فرار اختیار کرتی ہے۔ جب تک لفظوں کی پرتوں کو کھول کر معانی کی گہرائی تک نہ پہنچیں  تو بے سکونی و بے چینی ہوتی ہے ۔

وقت وقت کی بات ہے وقت نے تھوڑی رکنا ہے اب تو بس “یاد کے بے نشاں جزیروں سے تری آواز آرہی ہے”کے علاوہ بچا ہی کیا ہے۔
زندگی تیرا شُکریہ تُو نے
غمِ جاناں سے آشنا کردیا

ڈھلتی شام ،گزرتے لمحوں کا کیا بھروسہ کب آئے اور کب چلا جائے ۔پلک جھپکنے میں وقت نے بچپن کے حسین و انمول لمحات ہم سے چھین کر شباب و مستی کے خار دار رستے پہ لگا دیا ہے۔ اور وقت کی  بے رحم رفتار نے یہ لمحات بھی اپنی لطافت کی داد پانے سے پہلے ہی ہمیں   بڑھاپے کی تند و تاریک وادی میں دھکیل دینا ہے ۔اس وقت ہم پیچھے پلٹ کر دیکھیں اور کہیں ۔
یا لیت الشباب یعود یوما
فاخبرہ بما فعل المشیب

تھا بہت دلچسپ ،نیرنگ سراب زندگی
اتنی فرصت ہی نہ پائی جو ٹھہر کے دیکھتے

تب یہ حسرت، حسرت ہی رہے گی ۔
اس لیے ایک ایک لمحے کی قدر و قیمت جان کر ہر لمحے کو یادگار ہر لمحے کو شاندار طریقے سے گزار دینا چاہیے ۔لفظ کل نے بیشتر انسانوں کو دھوکہ دیا ہے اور یہ “کل”آئے بغیر ہمیں اس دنیا سے کوچ کر جانا ہے اس لیے زندگی کے  نہاں خانوں سے لفظ “کل”کو ہمیشہ ہمیشہ کےلیے محو کر دینا چاہیے۔
آج جو کرنا ہے کر لے
کل کی کل کی بات ہے
ابن الحسن عباسی مرحوم کی کتاب”متاع وقت”پڑھتے ہوئے ایک سبق آموز واقعہ نظر سے گزرا ۔ وہ لکھتے ہیں : لندن افریقن ایسوسی ایشن نے سیاح (یارڈ)کو بھیجنے کی تجویز پیش کی،اس سے دریافت کیا گیا کہ تم کب تک جانے کےلیے آمادہ ہوسکتے ہو ،اس نے کہا کل صبح تک،پھر “جان بورس “سے پوچھا کہ تم کب تک جہاز پر پہنچ سکتے ہو اس نے جواب دیا “ابھی”اسی وقت ،چنانچہ اسی کو بھیجا گیا جو بعد میں ارل سینٹ وئسینٹ بن گیا اور لارڈ “کل”کی وجہ سے محروم رہ گیا ۔
ماندم کہ خار از پاکشم محمل نہاں شد از نظر
یک لمحہ غافل بودم و صد سال راہم دور شد

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم سب کی زندگی کے  دفتر بھی اس طرح کے واقعات سے پُر ہیں  ،عقل مند انسان وہ ہے جو وقت کی رفتار کے مطابق خود کو ڈھالنے کی کوشش کرے وقت کے  بے رحم تھپیڑوں سے خود کو بچا کر وقت سے استفادہ کرنے کی کوشش کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply