اسلام دعوت سے ریاست تک۔۔حافظ صفوان محمد

“سرزمینِ ہند میں پوسٹ کالونیل ازم” کے موضوع پر کافی دن سے بات چل رہی ہے۔ دل میں ایک پھریری آئی کہ میں بھی اس موضوع پر اپنے ذہن میں موجود باتیں پیش کر دوں تاکہ لوگوں کے بہتر اور عالمانہ خیالات سے کچھ سیکھ سکوں۔

میری رائے میں invaders (درانداز) کو مذہبی اور سیکولر کے خانے میں بانٹنا صرف اپنے آپ کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔ مسلم نوآبادیات قائم کرنے والے درانداز اگر جہاد کے نعرے کے تحت آئے جو ان کا مذہبی سٹنٹ تھا، اور یورپی نوآبادی قائم کرنے والے درانداز برطانوی بادشاہت کے پروانے کے ساتھ “سیکولر” مقاصد کے ساتھ یہاں آئے، تو قیامِ اقتدار اور وسائل پر قبضے کے پیمانے پر فرق کہاں رہا؟ کیا زمین کی پیداوار مذہبی اور غیر مذہبی ہوتی ہے؟ کیا مسلم گندم اور مسیحی چاول اگتے ہیں؟

اصولی بات ہے کہ سرزمینِ ہند میں جو بھی آیا اس نے لوٹا اور آج تک لوٹ رہا ہے۔ اگر انگریز نے یہاں کے باشندوں کے خون پسینے کی کمائی سے اپنے ملک کو بھرا ہے تو عرب اور ایران و افغانستان سے آنے والے مسلم دراندازوں نے بھی یہاں کے لوگوں کو اسلام کے نام پر اپنے اپنے فرقے کا اسیر کرکے اپنے اپنے علاقوں کی درگاہوں کے لیے مستقل آمدن کا بندوبست کیا ہے۔ ذرا توجہ سے دیکھیں تو یہاں کے مسلم باشندے کم سے کم سالانہ بنیاد پر اپنی کمائی کا ایک حصہ ضرور بنامِ مذہب اپنے فرقے کے مذہبیوں کو دانتے ہیں جو برِصغیر سے دور کہیں آباد ہیں۔

چنانچہ واضح ہوا کہ سرزمینِ ہند کے قدیم اور امن پسند مذہب سناتن دھرم کے ماننے والوں میں سے اسلام کے کسی فرقے کا مذہب قبول کرنے والے لوگ جو آج آپس میں برسرِ پیکار ہیں اور ہر فرقہ دوسرے کی تکفیر کرتا ہے، اس کی بنیادی وجہ مسلم نوآبادی قائم کرنے والوں کی دراندازی ہے۔ یہ بہرحال تسلیم ہے کہ “مسلم” کا لفظ ایک دبیز پردہ ہے اور اس کی آڑ لے کر سنی نوآبادکار اور شیعہ نوآبادکار ہی آئے ہیں اور اپنے اپنے فرقوں کے پنگھوڑوں (Cradles) کی طرف ہی لوگوں کو کھینچتے رہے ہیں، اور یہاں کے وسائل آج تک ہر دو فرقوں کے سرچشموں کی طرف تیزی سے بہہ رہے ہیں۔ الغرض سرزمینِ ہند کو مذہبی شدت پسندی کا گڑھ بنانے کا سہرا مسلم (سنی و شیعہ) دراندازوں کے سر بندھتا ہے۔ مذہبی شدت پسندی کا یہ گڑھ بے شک آج ساری دنیا کو جہاد و جہادیت کے نام پر افرادی قوت کی نرسری فراہم کرنے کی سب سے سستی منڈی ہے۔

مسلم نوآباد کاروں کے مقابلے میں یورپی نوآباد کاروں نے سرزمینِ ہند میں مذہبی شدت پسندی کے کوڑھ کی کاشت بالکل نہیں کی۔

عیسائیت اسلام سے بہت پرانا مذہب ہے لیکن یہ برِ صغیر میں اسلام کے بعد آیا ہے۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، مسلم اور یورپی دونوں نوآبادت قائم کرنے والے دراندازوں نے یہاں کے قدیم مذہب یعنی ہندو مت سے لوگوں کو برگشتہ کرکے اپنے اپنے اندر سمویا ہے۔ تبدیلی و تبلیغِ مذہب یہ کام آج تک ہو رہا ہے، اور اس کے ردِ عمل میں اب ہندوتوا شروع ہوگیا ہے۔ اسلام اور عیسائیت میں فرق صرف یہ ہے کہ کوئی مقامی اگر اسلام قبول کرلینے کے بعد واپس اپنے مذہب پہ پلٹنا چاہے تو اسے مار دینا اسلام کی تعلیم ہے جب کہ مسیحیت قبول کرنے والے کے واپس ہندو ہونے پر ایسا نہیں ہے۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ مسلم دراندازوں نے یہاں پر لوگوں کو جبراً مسلمان کیا ہے، یہاں کے مقامی مذاہب والوں سے مذہبی جنگیں کی ہیں اور ان کی عبادت گاہیں بھی مسمار کی ہیں جب کہ یورپی دراندازوں نے یہاں عیسائی مشنریوں کے لیے سہولیات ضرور فراہم کی ہیں اور جنگیں بھی کی ہیں لیکن انھوں نے یہاں کے مذہب کے خلاف کوئی جنگ نہیں کی اور کوئی مسجد مندر نہیں گرایا۔

القصہ یورپی نوآبادکار اپنی بنیادی ساخت میں مسلم نوآبادکار (عریبین، ٹرکش، فارسی، مغل، افغان، وغیرہ) کی نسبت بہت لبرل اور سیکولر رہے اور انھوں نے کسی مذہب کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کی۔ یہاں اگر انھوں نے کوئی مشنری سرگرمی کی بھی ہے تو اُس میں قتل و غارت وغیرہ شامل نہیں ہے۔ جب کہ مسلم نوآبادکار نے اپنے مذہب کے نام پر قتل و غارت اور جنگیں کی ہیں اور اب بھی جب انھیں موقع ملتا ہے تو دوسروں کو زبردستی اپنا مذہب قبول کراتے ہیں۔ یورپی نوآبادی نے کبھی یہ نہیں کیا کہ اُن کے مذہب سے کوئی منحرف ہوجائے تو وہ اُسے کچھ کہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہر درانداز نوآبادکار خونخوار ہی ہوتا ہے۔ مذہب کے ہتھیار کو استعمال کرنے سے یہ خونخواری کم نہیں ہوتی بلکہ کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اسلام جو دعوتی مذہب تھا، اب ریاستی مذہب ہوگیا ہے۔ ریاست اپنی رٹ قائم کرانے میں بے رحم ہوتی ہے۔

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”اسلام دعوت سے ریاست تک۔۔حافظ صفوان محمد

Leave a Reply