• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • فیمنزم کے بارے میں خواتین سوشلسٹ رہنماؤں کے خیالات۔۔۔شاداب مرتضی

فیمنزم کے بارے میں خواتین سوشلسٹ رہنماؤں کے خیالات۔۔۔شاداب مرتضی

عورتوں کی تحریک نہ سرمایہ دارانہ ہونا چاہیے اورنہ مزدور۔ تمام عورتوں کی ایک واحد تحریک ہونا چاہیے۔ یہ مطالبہ تھا روس میں سینٹ پیٹرسبرگ کے سٹی ہال میں دسمبر1908 میں منعقد کی گئی کل روس خواتین کانگریس کا جسے روس کی فیمسنٹ تنظیموں نے منعقد کیا تھا جس میں “عورتوں کے مساوی حقوق کی یونین” اور”عورتوں کی باہمی فلاح کی انجمن” شامل تھیں۔ کانگریس میں عورتوں کے مساوی حقوق کی انجمن کی نمائندہ میراوچ نے کہا “اتحاد میں طاقت ہے۔ اتحاد پارٹی سے تعلق کومکمل ختم کردینے کی بنیاد پرہی ممکن ہے۔” بالشویک پارٹی کی نمائندگی کرنے والی مزدورخاتون اینا گوریوچ نے جوابا ً کہا۔۔”آبادی کے مختلف گروہوں اورطبقوں کی عورتوں کے حقوق مختلف ہیں اورانہیں لازمی طورپرمختلف طریقے سے جدوجہد کرنا چاہیے اوران کی تنظیمیں بھی مختلف ہونی چاہئیں۔ مزدورعورتوں کوپورے مزدورطبقے کی ضرورتوں کے لیے لڑنا چاہیے۔”

فیمنزم کیا ہے؟عورت کی آزادی اورصنفی برابری کا غیرطبقاتی نظریہ۔ اورسوشلزم کیا ہے؟مزدورطبقے کی آزادی کی طبقاتی جدوجہد کا نظریہ۔ فیمنزم اورسوشلزم کی آمیزش سے کیسا نظریہ تیار ہوگا؟ ایسا نظریہ جس میں عورت کی آزادی کے غیرطبقاتی نظریے کی اورمزدورطبقے کی آزادی کے طبقاتی نظریے کی آمیزش ہوگی۔ کیا یہ ممکن ہے؟ آئیے اس بارے میں ہم ان عظیم سوشلسٹ رہنماؤں (الیکزینڈرا کولونتائی، روزالکسمبرگ، ندیژدا کروپسکایا اورکلارازیتکن) کے خیالات جانتے ہیں جو صنفی طورپر”عورت” تھیں۔ فیمنسٹ لٹریچرمیں عموما ًاورخصوصا ً”سوشلسٹ فیمنزم” سے متعلق لٹریچرمیں فیمنزم اورسوشلزم کے ادغام کی خاطر ان خواتین سوشلسٹ رہنماؤں کی جدوجہد اورکردارکوبری طرح مسخ کیا جاتا ہے اوران کی عکاسی اس طرح کی جاتی ہے گویا عورتوں کی صنفی برابری کی جدوجہد ان کا مقصد حیات تھا تاکہ یہ تاثرقائم کیا جا سکے کہ فیمنزم اورسوشلزم دونوں کا نصب العین یکساں ہے۔

کیا سوشلسٹ نظریے کے حساب سے عورت کی آزادی کا سوال کوئی علیحدہ، مخصوص، طبقاتی جدوجہد سے ماورا سوال ہے؟ اس بارے میں الیکزنڈرا کولونتائی کا خیال تھا کہ “۔۔۔ تاریخی مادیت کے ماننے والے اس بات کومستردکرتے ہیں کہ عورت کا سوال ہمارے عہد کے عمومی سماجی سوال سے الگ کوئی سوال ہے۔۔۔” فیمنزم کی تحریک کے مقصد اورطریقہ کارکے بارے میں کولونتائی کی رائے تھی کہ “۔۔۔ فیمنسٹ موجودہ طبقاتی سماج (سرمایہ دارانہ سماج) کے ڈھانچے میں رہتے ہوئے آزادی کا مطالبہ کرتی ہیں اورکسی بھی طرح اس سماج کی بنیاد پرحملہ نہیں کرتیں۔ موجودہ استحقاق اورمراعات کو چیلنج کرنے کے بجائے وہ اپنے استحقاق کے لیے لڑتی ہیں۔۔۔” فیمنسٹ ایسا کیوں کرتی ہیں؟ اس بارے میں کولونتائی کا خیال تھا کہ “۔۔۔ہم سرمایہ دارطبقے کی عورتوں کی تحریک کویہ الزام نہیں دیتے کہ وہ معاملے کوسمجھنے میں ناکام رہی ہیں؛ چیزوں کے بارے میں ان کے خیالات ان کی طبقاتی پوزیشن سے نمو پاتے ہیں۔۔۔”

معاملے کی وضاحت کرنے کے لیے کولونتائی بنیادی نکتہ اٹھاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں “۔۔۔ سب سے پہلے ہمیں خود سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ آیا طبقاتی تضادات پرمبنی سماج میں عورتوں کی ایک واحد متحدہ تحریک ممکن ہے۔۔۔” ظاہر ہے اس کا جواب نفی میں ہے۔ طبقاتی سماج میں عورت کے حقوق کی کوئی غیرطبقاتی تحریک ہو یہ ناممکن ہے خواہ ہمارا ذہن اس حقیقت کوتسلیم کرے یا نہ کرے۔ وہ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ “۔۔۔ یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ آزادی کی تحریک میں حصہ لینے والی عورتیں کوئی یکساں وجود نہیں ہیں۔ عورتوں کی دنیا بھی اسی طرح دو مخالف محاذوں میں تقسیم ہے جس طرح مردوں کی دنیا؛ ایک گروپ کی عورت کے مفادات اورامنگیں اسے سرمایہ دارطبقے کے نزدیک لاتے ہیں جبکہ دوسرے گروپ کی عورتیں مزدورطبقے سے جڑتی ہیں۔۔۔اس لیے حالانکہ عورتوں کے یہ دونوں گروہ “عورت کی آزادی” کا یکساں نعرہ لگاتے ہیں لیکن ان دونوں کے مقاصد اورمفادات مختلف ہیں۔ ہرگروہ غیرارادی طورپراپنی جدوجہد کا آغازاپنے طبقے کے مفادات کے تحت کرتا ہے۔۔۔ فیمنسٹوں کے مطالبات کتنے ہی ریڈیکل کیوں نہ ہوں لیکن کسی کو بھی یہ بات فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اپنی طبقاتی حیثیت کی وجہ سے فیمنسٹ سماج کے موجودہ اقتصادی اورسماجی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلی کی لڑائی نہیں لڑسکتے۔۔۔”

پدرشاہی استحصال کے نام پرتمام عورتوں کے حقوق کی “غیرطبقاتی” جدوجہد کے بارے میں فیمنزم کے دعووں کی طبقاتی حقیقت واضح کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں”۔۔۔ فیمنسٹ بھلے کچھ بھی کہیں لیکن طبقاتی جبلت ہمیشہ خود کو”طبقے سے ماورا” سیاست کے عالی نسب جوش وجذبے سے زیادہ طاقتوردکھاتی ہے۔ جب تک سرمایہ دارعورتیں اوران کی “نوجوان بہنیں (مزدورعورتیں)” اپنی نابرابری میں برابرہیں، اول الذکر، پورے خلوص سے، عورتوں کے عمومی مفادات (تمام عورتوں کے مفادات / ہر طبقے کی عورت کے مفادات) کے تحفظ کی عظیم کوشش کرسکتی ہیں۔ لیکن ایک بارجب یہ رکاوٹ دورہوجاتی ہے اورسرمایہ دارطبقے کی عورت کوسیاسی سرگرمی تک رسائی کی آزادی مل جاتی ہے تو اب تک “تمام عورتوں کے حقوق” کے محافظ اپنے طبقے کی مراعات کے پرجوش محافظ بن جاتے ہیں اوراس بات پرمطمئن رہتے ہیں کہ ان کی بہنیں اب تک ہرحق سے محروم ہیں۔۔۔”

فیمنزم اورسوشلزم میں “مماثلت” کے حوالے سے روزا لکسمبرگ کے خیالات کیا تھے؟ گوروزا لکسمبرگ نے فیمنزم اورسوشلزم کے تعلق کے حوالے سے کوئی خصوصی تحریرنہیں لکھی (یا دستیاب نہیں) لیکن ضمنی طورپراس حوالے سے ان کی رائے بالکل واضح تھی۔ وہ کہتی ہیں ” صنفوں کے درمیان سماجی اور سیاسی برابری کسی خاص قسم کے “خواتین حقوق” سے پیدا نہیں ہوتی جیسا کہ سرمایہ دارانہ آزادی پسند (فیمنسٹ) تحریک حوالہ دیتی ہے۔ یہ فرض صرف اورصرف طبقاتی جبراورسماجی نابرابری اورسماجی تسلط کی ہرشکل کی مخالفت، یعنی، سوشلزم کے بنیادی موقف سے پیدا ہوتا ہے۔”

فیمنسٹ تحریک پرسخت تنقید کرتے ہوئے روزالکسمبرگ نے کہا “وہ سرمایہ دارعورتیں جو “مردانہ استحقاق” کے خلاف جدوجہد میں شیرنی بنتی ہیں اگرانہیں حق رائے دہی مل جائے تومذہبی اورقدامت پرستوں کے کیمپ میں وہ سدھائی ہوئی بھیڑوں کی طرح دھیمی چال چلنے لگیں گی۔ یقیناً، وہ اس طبقے کے مردوں کے مقابلے میں کافی زیادہ رجعت پرست ہوں گی۔۔۔”

عورتوں کی طبقاتی تقسیم اور سرمایہ دار طبقے کی عورت کے طبقاتی رویے کی وضاحت کرتے ہوئے روزالکسمبرگ کہتی تھیں کہ “۔۔۔ سوائے ان چند عورتوں کے جو پیشہ ورہیں یا ملازمت کرتی ہیں، سرمایہ دار طبقے کی عورت سماجی پیداوارمیں حصہ نہیں لیتی۔ وہ اپنے طبقے کے مردوں کے ہاتھوں مزدورطبقے کے استحصال سے نچوڑی جانے والی قدرِ زائد میں شریک صارف سے زیادہ کچھ نہیں۔ وہ سماج کے جسم سے خون چوسنے والی جونکوں کی جونکیں ہیں (روزا کے اس شاندارجملے کا موازنہ اس فیمنسٹ دعوے سے کیجیے: عورت غلاموں کی غلام ہے) اورصارف عام طورپرجونک کی طرح خون چوسنے کے اپنے “حق” کے تحفظ میں زیادہ ظالم اورخونخوارہوتا ہے بہ نسبت طبقاتی اقتداراوراستحصال کے براہ راست نمائندوں سے۔۔۔”

عورت کی طبقاتی تقسیم اورمزدورطبقے کی جدوجہد کے خلاف سرمایہ دارطبقے کی عورتوں کے کردارپرتاریخی تبصرہ کرتے ہوئے روزالکسمبرگ نے کہا۔ “۔۔۔ پوری عظیم انقلابی تحریک کی تاریخ اس بات کوخوفناک اندازسے ثابت کرتی ہے۔ انقلابِ فرانس کی مثال لیں۔ جیکوبن انقلابیوں کی شکست کے بعد جب روبسپیئرکو زنجیروں میں جکڑ کرپھانسی گھاٹ کی طرف لے جایا جارہا تھا توفتح کے نشے میں بدمست سرمایہ دار طبقے کی عورتیں سڑکوں پربے لباس ناچ رہی تھیں، انقلاب کے ہیروکی شکست کے گردانبساط کا بے شرمانہ ناچ۔ اورجب 1871 میں، پیرس میں، مشین گنوں نے کمیون کے مجاہد مزدوروں کوشکست دی توسرمایہ دارعورتوں نے مغلوب مزدورطبقے سے اپنے خونی انتقام میں اپنے بربریت پسند مردوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ ملکیتی طبقوں کی عورتیں ہمیشہ مجنونانہ انداز سے مزدورطبقے کے لوگوں کی غلامی اوراستحصال کا دفاع کریں گی جس کے ذریعے وہ اپنے بیکارسماجی وجود کے ذرائع بلاواسطہ طریقے سے حاصل کرتی ہیں۔۔۔۔معاشی اورسماجی طورپر، استحصالی طبقوں کی عورتیں آبادی کا کوئی آزاد اورخودمختارحصہ نہیں ہیں۔۔۔ان کا واحد سماجی کام یہ ہے کہ وہ حکمران طبقوں کے فطری تسلسل کے اوزارکے طورپرکام کریں۔ اس کے برعکس، مزدورطبقے کی عورتیں معاشی طورپرآزاد ہیں۔ وہ اپنے طبقے کے مردوں کی طرح سماج کے لیے پیداوارکرتی ہیں۔”

اب ندیژدا کروپسکایا کی بات۔ جہاں تک کروپسکایا کا تعلق ہے تو، کولونتائی اورروزالکسمبرگ کی طرح ان کی پوری زندگی سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے لیے مزدورطبقے اورمزدوراوردیگرمحنت کش عورتوں کی تعلیم و تربیت اورتنظٰم سازی سے عبارت ہے۔ ان کا شاندار پمفلٹ “مزدورعورت” اس کا کافی ثبوت ہے۔

یہ ایک حیرت انگیزامرہے کہ سوشلسٹ فیمنزم کے دعویداراپنے بینروں پراس عظیم عالمی کمیونسٹ رہنما کی تصویرلگانا بھول جاتے ہیں جس نے دنیا میں مزدورعورتوں کا عالمی دن (جسے مسخ کرکے “عورتوں کا عالمی دن” بنا دیا گیا) متعارف کرایا یعنی کامریڈ کلارازیتکن۔ شاید یہ اس جرم کی سزا ہے کہ وہ عورت کے سوال پربعض صنف پرستوں کی جانب سے “مرد شاؤنسٹ” قراردیے گئے لینن کے بالکل درست مارکسی نکتہ نظرسے متفق تھیں۔ آئیے مزدورعورتوں کے حقوق کی اس عظیم ترین عالمی کمیونسٹ رہنماؤں میں سے ایک کے فیمنزم کے بارے میں خیالات دیکھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہمیں سوشلسٹ پروپیگنڈہ کے علاوہ عورتوں میں کسی اورقسم کا خاص پروپیگنڈہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ نسوانی دنیا کے معمولی، لمحاتی مسائل کوابھرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ ہمارا کام جدید مزدورعورت کواپنی طبقاتی جدوجہد میں شامل کرنا ہونا چاہیے۔”

فیمنزم اورسوشلزم کی جدوجہد کے بنیادی فرق کی وضاحت کرتے ہوئے کلارا زیتکن نے کہا کہ “۔۔۔ مزدورعورت کی آزادی کی جدوجہد اس جدوجہد جیسی نہیں ہوسکتی جوسرمایہ دارطبقے کی عورت اپنے طبقے کے مردوں کے خلاف کرتی ہے۔ اس کے برعکس، یہ اپنے طبقے کے مردوں کے ساتھ پورے سرمایہ دارطبقے کے خلاف مشترکہ جدوجہد ہونی چاہیے۔۔۔ اس کا آخری مقصد اپنے طبقے کے مردوں کے ساتھ آزاد مقابلے کے میدان میں اترنا نہیں ہے بلکہ مزدورطبقے کا اقتدارحاصل کرنا ہے۔ مزدورطبقے کی عورت اپنے طبقے کے مردوں کے ساتھ سرمایہ دارانہ سماج کے خلاف لڑتی ہے۔ یقیناً، وہ سرمایہ دارطبقے کی عورت کی تحریک کے مطالبوں سے اتفاق بھی کرتی ہے لیکن وہ ان مطالبوں کے پورا ہونے کوصرف ایک ایسا ذریعہ سجھتی ہے جو تحریک کواس قابل بناتے ہیں کہ وہ انہی ہتھیاروں کے ساتھ مزدورطبقے کے شانہ بشانہ جدوجہد کرے۔۔۔”

 تمام عورتوں کے حقوق کی جدوجہد کے غیرطبقاتی نظریے کی جانب سوشلسٹ خواتین کا رویہ کیا ہونا چاہیے یہ بیان کرتے ہوئے کلارازتیکن کہتی ہیں کہ “۔۔۔ سوشلسٹ عورتیں سرمایہ دارانہ عورتوں کے حقوق کی تحریک کے اس تصور کی سخت مخالف ہوتی ہیں کہ تمام طبقوں کی عورتیں عورتوں کے حقوق کے لیے غیرسیاسی، غیرجانبدار تحریک میں جمع ہوجائیں۔ نظریاتی اورعملی سطح پروہ یہ یقین رکھتی ہیں کہ صنفی تضادات کے مقابلے میں طبقاتی تضادات کہیں زیادہ طاقتور، موثراورفیصلہ کن ہوتے ہیں اوراسی لیے مزدورطبقے کی عورت مردانہ سماجی تسلط کے خلاف تمام عورتوں کی غیرطبقاتی جدوجہد میں کبھی بھی مکمل آزادی حاصل نہیں کرسکتی۔ تمام ظالموں کی صنف سے ماورا ہوکران کے خلاف تمام مظلوموں کی صنف سے ماورا طبقاتی جدوجہد ہی اسے ممکن بنا سکتی ہے۔۔۔”

 چنانچہ، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ فیمنزم اورسوشلزم کے متضاد اورمختلف کردار اوران کے ادغام کے حوالے سے ان خواتین سوشلسٹ رہنماوں کی تحریریں واضح کرتی ہیں کہ سوشلزم میں عورت کی آزادی کے کسی خصوصی سوال یعنی فیمنزم کی ضرورت نہیں ہے۔ فیمنزم اورسوشلزم کا ادغام دراصل سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف مزدورطبقے کی طبقاتی جدوجہد میں صنف پرستی کے تحت غیرطبقاتی نظریات کی آمیزش کرنے کی کوشش ہے جو سوشلزم کے مقاصد کے لیے نقصان دہ ہے۔ سوشلسٹ خواتین کا کام مزدورطبقے کی عورتوں کوسرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے لیے مزدورطبقے کے مردوں کے ساتھ سوشلسٹ تحریک میں منظم کرنا ہے۔ ان تمام خواتین سوشلسٹ رہنماؤں کی زندگی مزدوراورمحنت کش طبقوں کی عورتوں کوسوشلسٹ تحریک میں منظم کرنے میں اورسرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد میں بسرہوئی نا کہ عورت کوپدرشاہی استحصال سے آزاد کرانے کی غیرطبقاتی، سرمایہ دارانہ جدوجہد میں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے بغیر، سرمائے کے استحصال سے مزدورطبقے کی آزادی کے بغیرصرف سرمایہ داریا درمیانے طبقے کی عورت آزاد ہوسکتی ہے۔ عورتوں کی کثیراکثریت، مزدور، کسان اورمحنت کش عورت صرف سرمایہ دارانہ جبرکے خاتمے سے ہی آزاد ہوگی۔  

 حوالہ جات:

 1۔ ٹونی کلف:

روسی مارکسی اورمزدورعورتیں: 1981

https://www.marxists.org/archive/cliff/works/1981/xx/kollontai.html

 2۔ الیکزنڈٖرا کولونتائی:

عورت کے سوال کی سماجی بنیاد: 1909

https://www.marxists.org/archive/kollonta/1909/social-basis.htm

 3۔ روزالکسمبرگ:

قومی سوال: 1909

https://www.marxists.org/archive/luxemburg/1909/national-question/ch01.htm

طبقاتی جدوجہد اورعورتوں کا حقِ رائے دہی: 1912

https://www.marxists.org/archive/luxemburg/1912/05/12.htm

 ندیژدا کروپسکایا:

https://allpowertothesoviets.wordpress.com/2017/10/27/the-woman-worker-by-krupskaya/

 4۔ کلارازیتکن:

مزدورعورتوں کے اتحاد سے ہی سوشلزم فتحیاب ہوگا: 1896

https://www.marxists.org/archive/zetkin/1896/10/women.htm

جرمنی کی سوشلسٹ خواتین کی تحریک: 1909

Advertisements
julia rana solicitors london

https://www.marxists.org/archive/zetkin/1909/10/09.htm

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply