ہیپی اینڈنگ۔۔۔عارف انیس

جون کو لندن میں جنرل باجوہ سے ایک پرائیوٹ ڈنر میں ملاقات ہوئی اور ان کا ملکی اقتصادی حالات پر تفصیلی تبصرہ سنا۔ اگرچہ ان دنوں برطانوی فوج کے دو سرفہرست جرنیلوں اور ایک امریکی سفارت کار نے بھی یہی خبر سنائی مگر جون کی اس شام کو جنرل باجوہ کی بات چیت میں سمجھنے والوں کے لیے یہ اشارہ کافی تھا کہ ان کی ایکسٹینشن اب چند ہفتوں کی بات ہے۔ سفارتی حلقوں، خاص طور پر پاکستان سے قربت رکھنے والے ممالک، برطانیہ، امریکہ، چین، ترکی، سعودیہ ان معاملات میں آن بورڈ تھے اور قدرے اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ پاکستان میں استحکام آئے گا اور وہ ایک پوسٹ وار آن ٹیرر مرحلے میں داخل ہو جائے گا۔ وطن عزیز کے کئی عشروں سے جاری حالات حاضرہ کی وجہ سے، کوئی بھی ایسی چیز، جو استحکام کا باعث ہو، بیرونی دنیا اس پر راضی ہوجاتی ہے۔

جس طرح یہ طے ہے کہ فوج تو ہوگی، اپنی نہیں تو کسی اور کی، اسی طرح یہ بھی طے ہے کہ اسٹیبلشمنٹ تو ہوگی، اپنی نہیں تو کسی اور کی ہوگی۔ اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پچھلے دس سالوں میں کیانی ڈاکٹرائن کو فالو کر رہی ہے۔ باجوہ دور بھی اسی کی بازگشت اور تسلسل ہے اور مجھے تو کیانی ڈاکٹرائن کی عمر دراز لگتی ہے۔ طاقت چونکہ ایک نفسیاتی چیز ہے اور پاکستانی سیاست دان اس امر میں ہلکے نکلے ہیں تو عرب کا اونٹ خیمے میں داخل ہو چکا ہے۔

یہ الگ بحث ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے اس ضمن میں جو جگاڑ ٹیکنالوجی استعمال کی وہ کس حد تک مؤثر ثابت ہوئی، کیونکہ اس میں ‘مثبت نتائج’ حاصل نہیں کیے جاسکے۔ بہت سے دوست اسٹیبلشمنٹ کو لعنت ملامت کرنا چاہیں گے مگر اس نے چاری کی مجبوریوں کو بھی ذہن میں رکھیں کہ وہ جس پر شرط لگا تے ہیں، وہ گھوڑا ٹھس ہوجاتا ہے۔

انصاف والوں کو درکار حمایت دستیاب کی گئی، میاں صاحبان کا ٹینٹوا دبایا گیا تاکہ پاکستان کو 1990 کی دہائی کے بھوتوں سے بازیاب کرایا جاسکے۔ یہ الگ بات کہ اس ضمن میں حسب معمول چول ماری گئی اور خان صاحب کا سپر مین پرسونا، پہلے ہلے میں ہی ڈھیر ہوگیا۔ اب اسٹیبلشمنٹ کو نہ صرف خود کو سنبھالنا ہے بلکہ ملبے کو بھی کمر پر اٹھانا ہے، جس کی وجہ سے حالیہ چک پڑ گئی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

عدالت کی حالیہ فعالیت طاقت کی شطرنج پر اپنے حصے کا حصول ہے اور اس میں وہ کامیاب ٹھہری ہے۔ دو دن میں جج صاحبان نے جن جن کو گھمن گھیریاں چڑھانی تھیں، چڑھا دیں اور ان کا پیغام سمجھ لیا گیا ہے۔ عدالت اس سے زیادہ آگے نہیں جاسکتی۔ یہ ضرور ہے کہ آنے والے وقت میں ایکسٹینشن کا باب بند ہوتا نظر آرہا ہے۔ ہر چیف آف آرمی سٹاف کے آنے یا جانے میں دس پندرہ ٹاپ کے جرنیل لڑھک جاتے ہیں۔ یہ صریحاً خودکشی ہوگی کہ دنیا کی پانچویں بڑی ایٹمی فوج کو والی وارث کے بغیر چھوڑ دیا جائے اور یہ نہیں ہوسکے گا اور نہ ہی سائیں ہونے دیں گے۔ جنرل باجوہ چاہیں بھی تو عہدہ نہیں چھوڑ سکیں گے کہ پورا ٹاپ براس تتر بتر ہوجائے گا۔ تو آج کا دن لگتا ہے، ہیپی اینڈنگ پر اختتام پذیر ہوجائے گا۔ آپ نے وہ لطیفہ تو سنا ہی ہوگا جس میں لڑاکا میاں بیوی کے جھگڑے کے نتیجے برتنوں کی الماری اور پھر صلح کے نتیجے میں پلنگ ٹوٹ جاتا ہے۔ موجودہ دھینگا مشتی کے نتیجے میں طاقت کے ستونوں کی کچھ برتن ٹوٹیں گے، کچھ نئی صف آرائی ہوگی اور چھکڑا، لشتم پشتم چلتا رہے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply