وزیر اعظم صاحب یہ انداز گفتگو کیا ہے؟۔۔۔سلمان نسیم شاد

آخر عمران خان کا مسئلہ ہے کیا؟ وہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ اپوزیشن لیڈر نہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم ہیں۔ مگر ان کی تقاریر ان کی گفتار ان کا لب و لہجہ کہیں سے بھی وزیر اعظم جیسا ن ہیں لگتا۔ وزیر اعظم کسی پروجیکیٹ کی تقریب رونمائی کررہے ہوں۔ ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کررہے ہوں یا کسی تقریب سے خطاب فرمارہے ہوں ایسا ممکن نہیں کہ ان کی زباں شریف فیملی، بلاول بھٹو یا اپنے مخالفین پر زہر اگلتی نظر نہ آئے۔

کبھی ان کی زباں عدالتوں پر طنز کے نشتر چلارہی ہوتی ہے تو کبھی الیکشن کمیشن اور تحقیقاتی اداروں پر سوالات اٹھانے لگتے ہیں۔ عدالتیں اور ادارے اگر ان کی پسند کے فیصلے کرتے رہیں تو وہ خوشی سے نہال ہوتے نظر آتے ہیں اور ان کی آزادی کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر ان اداروں کی طرف سے کبھی کوئی ناپسندیدہ فیصلہ آجائے تو ان کی زباں ان آزاد اداروں کی اہلیت پر سوالات اٹھاتی نظر آتی ہے۔

ایک طرف وہ اپنی جماعت اور اپنی کابینہ کو نواز شریف کی بیماری پر بیانات جاری کرنے سے سختی سے منع فرمارہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف خود ان کی زبان نواز شریف کی بیماری پر نفرت انگیز بیانات جاری فرمارہی ہوتی ہے۔ عمران خان کی مسلسل اس بدزبانی پر اب سوال یہ اٹھنے لگ گئے ہیں کیا عمران خان کہیں ذہنی مریض تو نہیں؟

گر ہم80 کی دہائی میں عمران خان کی پہلی اننگز پر نظر دوڑائیں جب وہ کرکٹ کےشعبہ سے تعلق رکھتے تھے ،تو اس دور میں بھی ایسے کئی منظرنامے آپ کی نظروں سے گزریں گے جب عمران خان کی شخصیت” میں” کا شکار نظر آتی ہے۔ ان کے ادوار میں کئی باصلاحیت کھلاڑیوں کا کیرئیر شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگیا اور کئی ان کی “میں” کا شکار ہوکر گمنامیوں کے اندھیروں میں ہمیشہ کے لئے ڈوب گئے جن میں ٹیسٹ کرکٹر قاسم عمر و یونس احمد کا نام سرفہرست آتا ہے۔ جنھیں 1987 میں عمران خان کے خلاف منشیات کے استعمال کی رپورٹ کرنے پر 7 سال کے لئے کرکٹ کے میدانوں سے نا اہل کردیا گیا۔ نہ صرف ان پر انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے بند کردیئے گئے بلکہ ان پر ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے پر بھی پابندی عائد کردی گئی اور یوں پاکستان سے ان باصلاحیت کرکٹرز کو ہمیشہ کے لئے چھین لیا گیا۔

عمران خان نے اس وقت کے صدر جنرل ضیاءالحق سے خصوصی ملاقات کرکے اور اپنا اثرورسو خ استعمال کرتے ہوئے قاسم عمر پر پابندی عائد کروائی۔ اور خاص کر ان کی مسلم کمرشل بنک کی نوکری تک ختم کروائی۔ اور اس کے بعد قاسم عمر کی دوبارہ واپسی ممکن نہیں ہوسکی۔ بات صرف قاسم عمر تک محدود نہیں تھیں عمران خان کےزمانہ کرکٹ میں یہ بات مشہور تھی جو عمران خان کی گڈ لسٹ میں موجود رہے گا وہ ہی قومی ٹیم کی نمائندگی کرنے کا اہل ہوگا۔ اور عمران خان کی پالیسیز سے اختلاف رائے کرنے والا یا ان پر سوال اٹھانے والا نشان عبرت بنادیا جاتا تھا۔ قاسم عمر، یونس احمد، سلیم یوسف، آصف مجتبی، طاہر نقاش، عظیم حفیظ، جلال الدین، اقبال قاسم، سکندر بخت جیسے کئی باصلاحیت کھلاڑی عمران خان صاحب کی پسند و نا پسند کا شکار ہوکر تاریخ کا حصہ بن گئے۔

دوسری طرف جب ہم آج کے عمران خان کو دیکھتے ہیں تو ان کی شخصیت میں وہ ہی ڈکٹیٹر شپ نظر آتی ہے۔اپنے خلاف لب کشائی ان کو کسی طور قبول نہیں اور وہ لب کشائی کرنے والوں کو نشان عبرت بنا ڈالتے۔ جس کی سب سے بڑی مثال تحریک انصاف کے سابقہ رکن جسٹیس وجیہہ الدین فوزیہ قصوری، اکبر ایس بابر، حامد خان وغیرہ ہیں۔ جن کو محض سوالات اٹھانے کے جرم میں پارٹی سے بے دخل کردیا گیا اور ان کی جگہ دوسری پارٹیوں سے آئے ہوئے کرپٹ اور بدبودار کرداروں کو تحریک انصاف کے پرچم کے ڈوپٹے پہنا پہناکر اپنی صفوں میں شامل کرلیا۔اور آج انھی خوشامدیوں کو وہ اپنا میت بنا کر ان کے گلے میں بانہیں ڈالتے نظر آتے ہیں۔

عمران خان خود بھلے اپنی تقریروں میں کسی پر ذاتی حملے کرتے ہوئے کسی کو مولانا ڈیزل، موٹو گینگ، گاڈ فادر چور ڈاکو اور مختلف القابات سے نوازتے رہیں مگر اگر کوئی جوابی عمل میں ان پر لفظوں کے وار کرے تو عمران خان فوراً اشتعال میں آکر بھڑک اٹھتے ہیں اور ان کو نشان عبرت بنا دیتے ہیں۔ جس کی ایک واضح مثال رانا ثناءاللہ کی ہے جنھیں محترم وزیر اعظم پر تنقید کی پاداش میں انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ عمران خان کو سوچنا ہوگا وہ سیاسی اختلافات کو سیاسی ہی رہنے دیں ان کو ذاتی اختلافات میں تبدیل نہ کریں۔

جہاں عمران خان اپنی گفتار اپنے لہجے اور غیر سنجیدہ بیانات کی وجہ سے تنقید کی زرد میں ہیں وہیں عمران خان کے دہرے عمل پر بھی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ ایک طرف وہ نواز شریف اور آصف زرداری وغیرہ پر اور ان کی جماعتوں پر کرپشن کے الزامات عائد کرتے ہیں۔ اپنی ہر تقریر میں کرپشن سے پاک معاشرے کی تشکیل کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف اپنی صفوں میں و ہی کرپٹ و بدبودار کرداروں کو شامل کرکے ان کو این آر دیتے نظر آتے ہیں۔

عمران خان کو سوچنا ہوگا کہ وہ تحریک انصاف کے سربراہ ہونے کے علاوہ پاکستان کے وزیر اعظم بھی ہیں۔ ان کے منہ سے نکلا ایک ایک جملہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اور اس طرح کے بے ہنگم جملے، سیاسی مخالفین کی پیروڈیز، اور گالم گلوچ تحریک انصاف کے سربراہ کو تو شاید زیب دے سکتا ہو مگر بحیثیت وزیر اعظم پاکستان یہ طرز عمل ان کو بالکل زیب نہیں دیتا۔ اس طرح کی غیر سنجیدہ گفتگو سے وہ کسی اور کا نہیں صرف اپنا ہی وقار خراب کررہے ہیں۔

ہر ایک بات پہ کہتے ہو کہ تو کیا ہے

Advertisements
julia rana solicitors

تم ہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے

Facebook Comments

سلمان نسیم شاد
فری لانس جرنلٹس، رائٹر , بلاگر ، کالمسٹ۔ بائیں بازو کی سوچ اور ترقی پسند خیالات رکھنے والی انقلابی شخصیت ہیں اور ایک علمی و ادبی و صحافتی گھرانے سے وابستگی رکھتے ہیں. پاکستان میں میڈیا اور آزادی صحافت کے لئے ان کے اجداد کی لازوال قربانیاں اور کاوشیں ہیں۔ چی گویرا، لینن، اور کارل مارکس سے متاثر ہیں، دائیں بازو کے سیاسی جماعتوں اور ان کی پالیسی کے شدید ناقد ہیں۔ جبکہ ملک میں سول سپریمیسی اور شخصی آزادی کا حصول ان کا خواب ہے۔ Twitter Account SalmanNasimShad@

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply