• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • احمد راہی۔کیا پنجاب اور پنجابی کو جگانا جُرم ہے؟۔۔۔اسد مفتی

احمد راہی۔کیا پنجاب اور پنجابی کو جگانا جُرم ہے؟۔۔۔اسد مفتی

پانچ دریاؤں کی دھرتی کی رونقوں کو پھر کسی کی نظر لگ گئی۔
پانچ دریاؤں میں سے ایک دریا خشک ہوگیا

احمد راہی ایک ایسا ہی نام ہے،جس کے بغیر پنجابی ادب مکمل نہیں ہوتا،احمد راہی ہمارے ادبی حلقوں ہی میں نہیں بلکہ تینوں اہم ذرائع ابلاغ یعنی ریڈیو،ٹیلی ویژن،اور فلم کے حوالے سے بھی ایک مستند نام ہے۔اس سینئر قلمکار کی کتاب “ترنجن’نے ادب کی تاریخ میں ان کا نام ایک معتبر شاعر کی حیثیت سے منوا لیا ہے۔وہ پاکستانی فلمی صنعت میں اس وقت شامل ہوئے جب یہ صنعت ایک نوزائیدہ ملک میں بے پناہ مسائل اور محدود وسائل میں زندہ رہنے کی جدوجہد کررہی تھی،احمد راہی نے اس فن میں بھی بہت جلد اپنی منفرد حیثیت منوالی۔۔
ترقی پسند تحریک شروع ہوئی تو اس میں لاہور اور امرتسر نے ایک اہم کردار ادا کیا،اس وقت تمام پنجابی مسلمان اردو میں لکھ رہے تھے،اور جب پاکستان بنا تو ہمارے پاس جدید پنجابی ادب کی کوئی روایت نہ تھی۔ترقی پسند تحریک سے متاثر ہوکر بہت سے مسلمان شاعروں اور ادیبوں نے اپنی مادری زبان میں لکھنا شروع کیا۔اس تحریک نے جہاں اور اعلیٰ و ارفع کام کیے،وہاں پنجابی ادب کو احمد راہی جیسا عظیم شاعر بھی دیا۔
احمد راہی امرتسر میں پیدا ہوئے،اپنے ادبی سفر کے آغاز ہی میں سیف الدین سیف سے بے حد متاثر رہے۔چونکہ اس زمانے یعنی ملک کی تقسیم سے پہلے تقریباً تمام مسلمان اردو کو ہی اظہار کا ذریعہ سمجھتے تھے،اور یہ اُسی سازش کا حصہ تھا جس میں پنجابی زبان پر موضوعات اور تفصیلات کے حوالے سے تنگ دامنی کا الزام تھا،اسے محض گلی کوچوں کی زبان سمجھا جاتا تھا،اس لیے احمد راہی نے ترنجن لکھ کر پنجابی ادب و زبان پر لگنے والے تمام الزامات در کردیے،ترنجن ان دنوں پنجابی شاعری کی مقبول ترین کتاب بن گئی،لوگ اسے امرتا پریتم کی کتاب “نویں رُت “سے ملا کر پڑھتے تھے۔
کئی برسوں تک ہم کبھی امرتا کے لفظوں میں اور کبھی راہی کے لفظوں میں آنسوؤں سے لکھی پنجاب کی خونی تاریخ پڑھتے رہے۔رومانس میں ڈوبی کالی تاریخ۔۔
پاکستان میں جدیدپنجابی شاعری کی ابتداء صفر سے شروع ہوئی،قیامِ پاکستان کے بعد ہمارے پاس احمد راہی کی ترنجن اور افسانوں کی کتاب”شام رنگی کُڑی”کے علاوہ کچھ سرمایہ نہ تھا۔ناول صفر،تنقید صفر،کہانیاں صفر،اس صفر سے اپنے سفر کا آغاز کرنے والے ادب کے بارے میں ایک بار میں نے احمد راہی سے پوچھاکہنے لگے۔۔۔آج کی پنجابی میں اچھی شاعری ہورہی ہے،ایک تو پنجابی شاعری کی روایت اتنی بڑی ہے کہ اس کے مقابلے پر لکھا جائے گا،لیکن جدید پنجابی شاعری بھی اردو شاعری سے بہت آگے ہے،پنجابی ادب ایک دریا ہے،وہ قدیم بھی ہے اور جدید بھی،ا س زمانے میں ہم سے بہتر چیزیں لکھی جارہی ہیں،حالانکہ ہم نے، پنجابی کی طرف سے آنکھیں پھیر رکھی ہیں،چونکہ پنجابی آدمیں تعصب نہیں ہے،اس لیے وہ اتنی مار کھا رہا ہے۔
راہی کی عظمت یہ ہے کہ اس نے پنجابی ادب کی کلاسیکی روایت کو چُھوئے بغیر فسادات کے تجربے کو ایک نیا طرزِ اظہار دیا،نیا اس مفہوم میں کہ جن لوک دھنوں اور گیتوں کو اس نے انسان غارت گری کے موضوع کے لیے استعمال کیا انہیں اس مفہوم میں پہلے استعمال نہیں کیا گیا،راہی نے چھوٹے کینوس پر بڑا تجربہ کیا،اور بلاشبہ کامیاب تجربہ کیا،اپنے اس تجربے کو انہوں نے فلم میں کیش کیا،اور خوب کیا،اور پھروہیں کے ہوکر رہ گئے۔راہی کی شاعری میں زبردست جذباتی اپیل ہونے کے باوجود اس زمانے کے معروضی حالات میں جبکہ ملک سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کی آماجگاہ بن گیا تھا،بدقسمتی سے کئی بڑی جدید پنجابی تحریک کی بنیادیں فراہم نہ کرسکی،اس کی وجہ شاید ہمارے پنجابی ادب کے پانیوں میں سکون نہ تھا۔حیرت ہوتی ہے کہ اس دور میں ان پُرسکون پانیوں میں “ترنجن’اور ” شام رنگی کُڑی”کے علاوہ ایک پتھر بھی نہ گِرا۔۔۔۔
ان دو کتابوں کے علاوہ باقی جتنی کتابیں چھپیں وہ ادبی اعتبار سے اتنا اعتبار بھی حاصل نہ کرسکیں کہ آج ان کا ذکر کیاجائے۔جبکہ بنگالی اور سندھی میں بہت زندہ تحریریں سامنے آرہی تھیں،اور ضبط کی جارہی تھیں۔
احمد راہی کی ترنجن یقیناً پنجاب اور پنجابی ادب کے ٹھہرے ہوئے پانیوں میں پہلا سفر ثابت ہوئی،یہی وجہ ہے کہ آج اسے یم اے کے کورس کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔48برس اُدھر کی بات ہے،میں نے ممتاز صحافی حمید اختر کے ریگل سینما لاہور میں واقع دفتر میں احمد راہی کا انٹر ویو کیا،جس میں انہوں نے اپنے ہمعصرادیبوں،شاعروں کے تاریخی پس منظر،گیتوں کی شاعری کے پس منظر،فلمی صنعت کا احوال اور تخلیق کاروں کے مسائل پر بہت سی باتیں کیں،انہوں نے اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں بتایا۔
میری زندگی عام لوگوں جیسی رہی ہے،سیدھی سادھی سی،کوئی خاص واقعہ نہیں ہوا،ہاں البتہ یہ ضرور ہوا کہ میرے باپ کا انتقال ہوا تو ہماری معاشی حالات دگر گوں تھے،باپ کے مرنے کے ساتھ ہی میں نے ذریعہ آمدنی ختم ہوچکا تھا،اگر اس وقت میرا بڑا بھائی ملازم نہ ہوتا تو شاید آج میں احمد راہی نہ ہوتا۔
صرف غلام احمد ہوتا۔۔۔
ترقی پسند ادب کے علاوہ احمد راہی کا اور میرا ساتھ فلم انڈسٹری میں بھی رہا،حمید اختر کی فلم پرائی آگ احمد راہی نے لکھی تھی،جسے رضا میر نے ڈائریکٹ کیا تھا،اس کی موسیقی خواجہ خورشید انور نے ترتیب دی تھی،ایک بار خواجہ صاحب نے مجھے بتایا،اگر راہی،ہیر رانجھا نہ لکھدا،تے میں ایسی فلم نوں کدی ہتھ نہ پاندا۔۔
امرتسر،راہی کی بہت بڑی کمزوری بنا رہا،وہ جب بھی ملتے کسی نہ کسی بات کے حوالے سے اپنے اس محبوب شہر کا ذکرضرور کرتے،تقسیم کے بعد شاید ایک مرتبہ انہوں نے امرتسر کا عازم سفر باندھا تھا۔بعد میں بھی وہ اکثر وہاں جانے کے لیے بلکتے ر ہے۔۔
بہت برسوں کا ذکر ہے جب اداکار بلراج پاکستان نہ آئے تواحمد راہی سے بھی اُن کی ملاقات نہ ہوئی۔۔انہوں نے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا”ایک دن راہی سے ملاقات طے تھی،وہ آئے،میں ان سے پہلے کبھی نہیں ملا تھا،لیکن کبھی کبھی ان کی نظمیں اپنے یہاں کے پنجابی رسالوں میں ضرور پڑھی تھیں،راولپنڈی چھوڑ کر آنے کاتازہ غم شاید انہوں نے میری آنکھوں میں پڑھ لیا تھا،اور پھر انہیں اپنا ببچھڑا ہوا شہر امرتسر یا د آگیا،جس کا جوگی پھیرا لگاتے ہوئے کچھ برس پہلے انہوں نے ایک مشہور نظم لکھی تھی۔
دیس والیو اپنے دیس اندر
اسی آئے ہاں وانگ پردیسیاں دے
گھر والیو اپنے گھر اندر
اسی آئے ہاں وانگ پروہنیاں دے

یہ نظم وہ مجھے سنانے لگے۔۔جوں جوں میں سنتا گیا،ان کے دکھ کے مقابلے میں مجھے اپنا دکھ چھوٹا نظر آنے لگا،اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوسکتا ہے کہ وطن صرف تیس میل کے فاصلے پر ہواور آدمی اس کے قریب تک نہ جاسکے۔جب انہوں نے کہا
ایس مٹی دی کوکھ وچ ماں میری
سُتی پئی اے سمیاں دی ہُوک بن کے
ایس پانی نال پانی ہوئے نِیر میرے
ایتھے آس تڑفی میری کُوک بن کے
کِسے بَن دے کلڑے رُکھ وانگو
دُھپاں چھاواں دے بھار نال ڈولنا ہاں
اپنی ماں دی قبر نوں لبھدا واں
بھیناں بھراواں دی ہڈیاں ٹولنا ں ہاں۔۔۔

تو راہی کے دکھ سے میرا بُرا حال ہوگیا۔۔مجھے ندامت ہونے لگی کہ پورے کا پوراامرتسر اس کے حوالے کردینے کی توفیق مجھ میں کیوں نہیں؟
لیکن جب وہ آخری بند پر پہنچا توخیال اپنے دُکھ کی طرف لوٹ پڑا۔۔۔میں صوفے پر گر کر رونے لگا،نہیں جانتا تھا کہ کون سے آنسو راہی کے لیے ہیں اور
کون سے میرے لیے۔۔
تُسی دیس والے،تُسی گھراں والے
اسیں بے گھرلے،اسیں پردیسی
تسیں ہنس کے سینے نال لالیتا
اسیں روکے دُکھ پرچا لیتی
تارے بُجھے ہوئے فیر اِک وار چمکے
جہدی آس نئیں سی اوہ آس پُگی
جیوے شہر میراجیون شہر والے
اسیں آئے دعاواں دے چلے
چارے کنیاں ساڈیاں دیکھ خالی
اسیں نال ناہیں کجھ لے چلے

احمد راہی سے میری بہت سے یادیں وابستہ ہیں کبھی فرصت ملی تو انہیں ضرور قلمبند کروں گا،آج قوم کا یہ اثاثہ منوں مٹی تلے پڑا زمانے کی ناقدر شناسی سے آزاد ہوچکا ہے۔آج مجھے وارث شاہ یاد آرہا ہے،جس کے بول میرے ذہن کے بوہے پر دستک دے رہے ہیں،
موئے تے وچھڑ کے کون ملے۔۔

آج مجھے فیض یاد آرہا ہے
نہ مدعی نہ شہادت،حساب پاک ہوا
یہ خون خاک نشیناں تھا،رزقِ خاک ہوا

آج مجھے امرتا یاد آرہی ہے۔
رُکھ چھڈ گئے،تے چھانواں لے گئے

Advertisements
julia rana solicitors london

راہی یاد آرہا ہے۔۔۔
سُن ونجھلی دی مٹھڑی تان وے،زلفاں دی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاں ڈھولنا،سنجے دل دے بوہے اجے میں نئیں اوڈھولے۔
جب تک پانچ دریا بہتے رہیں گے،راہی کی یاد آتی رہے گی۔۔۔

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply