ڈی ایس پی بمقابلہ پی ایچ ڈی

گذشتہ سال 15 مئی 2016 کو ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کے استاد، جامعہ کراچی کے شعبہ فلاسفی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفر عارف نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) میں شمولیت اختیار کی تھی۔ 22 اگست 2016 کو ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریر کے بعدفاروق ستار اور انکے ساتھیوں نے الطاف حسین سے علیدگی اختیار کرلی اور اپنے آپ کو ایم کیو ایم (پاکستان ) کہا اور لندن میں موجود الطاف حسین اور انکے ساتھیوں نے اپنے آپ کو ایم کیو ایم (لندن) کے نام کی پہچان دی۔ اس موقعہ پر کافی لوگوں نے الطاف حسین سے علیدگی اختیار کرلی لیکن پروفیسرحسن ظفر عارف کے ساتھ ساتھ امجداللہ،کنورخالد یونس اور بہت ساروں نے الطاف حسین کا ساتھ نہ چھوڑا۔ ان تمام لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ صرف الطاف حسین کو اپنا رہنما مانتے ہیں۔ 22 اگست 2016 کو الطاف حسین کی تقریر ایم کیو ایم پر ایک خودکش حملہ تھا، جس کے بعد ایم کیو ایم (لندن) کو کراچی میں ایسے ساتھیوں کی تلاش تھی جو ان کےلیے کام کریں، یہ تلاش پروفیسرحسن ظفر عارف کی صورت میں پوری ہوگئی اورانہوں نے لندن کی عبوری رابطہ کمیٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔

اسی (80) کی دہائی میں سابق آمر جنرل ضیاءالحق کے خلاف کراچی کے ریگل چوک پر مظاہرہ ہورہا تھا، اس مظاہرے کو روکنے کے لئے پولیس کی بھاری نفری ریگل چوک کے اطراف موجود تھی۔ پروفیسرحسن ظفر عارف بھی اس مظاہرئے میں شامل تھے۔اعلیٰ حکام کی جانب سے مظاہرہ پر دھاوا بولنے کے احکامات ملتے ہی پولیس مظاہرین پر ٹوٹ پڑی، اس مظاہرے کی خاص بات یہ تھی کہ پولیس نے پروفیسرحسن ظفر عارف کو گریبان سے پکڑ کر گاڑی میں ڈالا تھا، اگلےدن کے اخبارات نےان کی تصویر پر یہ عنوان لکھا تھا ’’ڈی ایس پی بمقابلہ پی ایچ ڈی‘‘۔ پروفیسرحسن ظفر عارف کو 1985 میں آمر جنرل ضیاءالحق کی حکومت کے خلاف سیاسی مصروفیات رکھنے کی وجہ سے کراچی یونیورسٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ شاید بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہونگے کہ جنرل ضیاءالحق کے زمانے میں بینظیربھٹو کی پہلی بار وطن واپسی(1986) کی تحریک کو کامیاب بنانے میں اہم کردار اداکرنے والوں میں پروفیسرحسن ظفر کا نام سرفہرست تھا، جنہوں نے پس پردہ رہتے ہوئے بینظیر بھٹو کی واپسی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ پروفیسرحسن ظفر کے دوسرئے ساتھی امجد اللہ خان ایم کیو ایم میں شامل ہونے سے قبل تحریک انصاف میں شامل تھے اور این اے 245 کے ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کے امیدوار تھے تاہم پولنگ سے ایک روز قبل وہ پارٹی چھوڑ کر ایم کیو ایم میں شامل ہوئے تھے۔ستمبر 2016 کے آخر میں امجد اللہ نے ایم کیوایم سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے استعفی دئے دیا تھا۔ انکا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں وہ ڈاکٹر فاروق ستار کے ساتھ کام نہیں کرسکتے، ان کی وفاداریاں الطاف حسین کے ساتھ ہیں۔ پروفیسرحسن ظفر کے تیسرئے ساتھی کنورخالد یونس ایم کیو ایم کےسینئر رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی ہیں، جنہوں نے 22 اگست کے بعد بھی اپنی وفاداری الطاف حسین کے ساتھ رکھی۔

بائیس (22) اکتوبر 2016 کو رینجرز نے پروفیسرحسن ظفرعارف اور امجداللہ کو کراچی پریس کلب کے باہر سے اور کنورخالد یونس کو پریس کلب آتے ہوئے گرفتار کرلیا۔ پروفیسرحسن ظفرعارف اور ان کے ساتھی ایم کیو ایم لندن کے نمائندوں کی حیثیت سے کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کرنا چاہتے تھے۔ پروفیسرحسن ظفرعارف، امجداللہ اور کنورخالد یونس کو 90 روز کے لیے کراچی کے سینٹرل جیل بھیج دیا گیا تھا،تاہم کنور خالد یونس کی طبعیت بہت زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے 20 نومبرکو انہیں رہا کردیا گیا۔ پروفیسرحسن ظفرعارف، امجداللہ کو 20 دسمبر کو رہا کرنے کے فورا بعد دوبارہ حراست میں لے لیا گیا تھا، اب ان پر سرکاری امور میں مداخلت اور بلوا کرنے کا مقدمہ درج ہے۔

یکم اپریل 2017کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے فوارہ چوک کے قریب سے جامعہ کراچی ٹیچر سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر ریاض احمد، خاتون ڈاکٹر مہر افروز مراد اور نغمانہ شیخ کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا ہے ۔ ان اداروں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ریاض احمد اور مہر افروز مراد کا ایم کیو ایم لندن کے رہنماؤں کا مبینہ طور پر رابطہ تھا اور اسی وجہ سے انہیں حراست میں لیا گیا ہے ۔جبکہ کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈاکٹر نوین حیدر نے بتایا کہ ہمارا کسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی ہم سیاسی لوگ ہیں ۔ پریس کانفرنس کے انعقاد کا مقصد ہمارے سینئر استاد پروفیسرحسن ظفر عارف کی رہائی تھی، پروفیسرحسن ظفر عارف بزرگ استاد ہیں اور ان کی طبیعت بہتر نہیں ہے انہیں علاج کی ضرورت ہے ، یہ پریس کانفرنس جامعہ کراچی ٹیچر سوسائٹی کے صدر پروفیسر ڈاکٹر ریاض اور ڈاکٹر مہر افروز مراد نے کرنی تھی ۔ ایم کیو ایم لندن کے ترجمان مصطفی عزیز آبادی کا کہنا ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر محمد ریاض احمد اور ڈاکٹر مہر افروز مراد کا ایم کیو ایم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی ان میں سے کوئی ایم کیو ایم کا رکن ہے ۔سوشل میڈیا پر ان خبروں کے آنے کے بعد اب پولیس کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ریاض کے خلا ف آرٹلری میدان تھانے میں غیر قانونی اسلحہ رکھنےکے الزام میں مقدمہ درج کرلیا گیا۔

ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین نے 2015 سے 23 مارچ 2017 تک جو تقاریر کیں یا جو بھی سیاسی عمل کیے ان کی کوئی بھی محب وطن پاکستانی حمایت نہیں کرسکتا۔ اس بات کو ماننے سے کوئی انکار نہیں کہ ایم کیو ایم کی سیاست غلط رخ اختیار کیے ہوئے تھی۔ ایم کیو ایم کے اقدامات غیر قانونی تھے لیکن اس کے ذمہ دار پروفیسرحسن ظفرعارف، جامعہ کراچی ٹیچر سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر ریاض احمد، خاتون ڈاکٹر مہر افروز مراد اور نغمانہ شیخ ہر گز نہیں تھے، ذمہ دار انہیں کہا جائے جو مستقل الطاف حسین کے ساتھ جڑئے ہوئے تھے، ڈاکٹر فاروق ستار، مصطفی کمال، انیس قائم خانی، وسیم اختر، فیصل سبزواری اور بہت سے جو الطاف حسین کی ہر بات کی تائید جی بھائی، جی بھائی کرکے کرتے تھے۔ الطاف حسین نے را کے ساتھ مل کر اگر کوئی سازش کی ہے تو اس وقت پروفیسرحسن ظفرعارف ان کے ساتھ نہیں بلکہ پڑھانے میں مصروف تھے۔ اس وقت الطاف حسین کے ساتھ وہ تھے جو 23 اگست کو یہ کہہ کر چھوٹ گئے کہ اب ہمارا الطاف حسین سے کوئی واسطہ نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس وقت کی حقیقت یہ ہے کہ نہ ایم کیو ایم پر کوئی پابندی لگی ہے اور نہ ہی پروفیسرحسن ظفرعارف نے 22 اکتوبر 2016تک کوئی جرم کیا تھا ، وہ تو صرف چند ماہ پہلے ہی ایم کیو ایم کے ممبر بننے تھے تو پھران کی اور ان کے ساتھی پروفیسروں کی گرفتاری کیوں؟ جبکہ دوسری طرف جن جماعتوں پر پابندی ہے ان کے سربراہان سے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی دن دھاڑے مذاکرات کرکے اُن دہشتگردوں اور قاتلوں کے مطالبات مان لیتے ہیں۔ پھر درجنوں قتل کے الزامات والے سب کو فخریہ طوراپنے کارنامے بتاتے ہیں اور اسلام آباد میں آزاد گھومتے ہیں۔ پروفیسرحسن ظفرعارف اور کراچی یونیورسٹی کے دوسرئے اساتذہ کے ساتھ اس نئے ہونے والے مقابلے ’’ڈی ایس پی بمقابلہ پی ایچ ڈی‘‘ میں جیت پھر ڈی ایس پی کی ہوئی ہے کیونکہ ابھی تک حکمرانوں نے تعلیم کی عزت کرنا سیکھا ہی نہیں ہے۔

Facebook Comments

سید انورمحمود
سچ کڑوا ہوتا ہے۔ میں تاریخ کو سامنےرکھ کرلکھتا ہوں اور تاریخ میں لکھی سچائی کبھی کبھی کڑوی بھی ہوتی ہے۔​ سید انور محمود​

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply