وہ سِکھ کیوں بنا؟۔۔۔مرزا مدثر نواز

کچھ عرصہ پہلے سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک ہندو نے اپنے آبائی مذہب سے کنارہ کشی  اختیار کرتے ہوئے سکھ مذہب قبول کر لیا۔ بین الاقوامی میڈیا کے لیے ایسی خبریں بڑی پر کشش ہوتی ہیں‘ لہٰذا برطانوی نشریاتی ادارے نے اس شخص کے سامنے یہ سوال رکھا کہ آپ سکھ کیوں بنے؟تبدیلی مذہب کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جیسا کہ تلاشِ حق کے سلسلہ میں تحقیق کے بعد اپنے آبائی مذہب کو غلط  جانا اور کسی دوسرے مذہب کو حق جان کر قبول کر لیا‘ ہمیشہ کی زندگی کو پس پشت ڈالتے ہوئے مختصر اور جلد ختم ہو جانے والی زندگی میں رنگینی بھرنے کے لیے مال و زر کو ترجیح دینا‘ کسی کے عشق میں گرفتار ہو کر ہوش و حواس کھو دینا‘ تلوار کا ڈر حاوی ہو جانا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس شخص نے مختلف جواب دیا کہ وہ دیکھتا تھا کہ معاشرے میں ہر کوئی سکھوں کی بہت عزت کرتا ہے اور ہمیشہ مخاطب کرنے کے لیے سردار جی کہتا ہے جبکہ اس کو نچلے طبقے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے حقارت‘ نفرت‘ تفریق‘ دل آزاری‘گالی کا سامنا رہتا تھا‘ لہٰذا اس نے معاشرے میں عزت والا مقام حاصل کرنے کے لیے سکھ مذہب کو قبول کیا ہے۔

ایسے معاشرتی رویوں کا کسی غیر مسلم معاشرے میں ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں لیکن بد قسمتی سے ایک مسلم معاشرہ بھی ایسے ہی خیالات کا شکار ہے۔ بڑے سے بڑے عالم و دانشور بھی ان خیالات سے نجات حاصل نہیں کر سکے حالانکہ مذہب حق نے ایک ایسے معاشرے میں جنم لیا جہاں حسب و نسب ہی تفاخر کی علامت سمجھا جاتا تھالیکن اسلام نے ان تمام خود ساختہ و بے بنیاد خیالات کو رَد کیا اور مثالی معاشرے کے قیام کے لیے مساوات کا تصور پیش کیا۔ہماری جہالت و بد قسمتی ہے کہ ہم دینِ  اسلام کے ان احکامات سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ مملکت خداداد پاکستان میں انگریز کے تربیت یافتہ کچھ طبقے ایسے ہیں جو خود کو ہر قسم کے آئین و قانون سے با لا تر سمجھتے ہیں‘ ملک کے سیاہ و سفید کا مالک سمجھتے ہیں‘ مخدوم کہلوانا پسند کرتے ہیں‘ زبردستی عزت و احترام اور پروٹوکول کے متقاضی ہوتے ہیں‘ صرف اپنی عینک سے دوسروں کو دیکھتے ہیں جس میں وہ خود محب وطن اور باقی غدار نظر آتے ہیں‘ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر ٹوکنے والے وارڈنز کی توہین کرتے ہیں‘ خود کو عقل کُل اور دوسروں کو نیچ گردانتے ہیں‘ صاحبِ اختیار ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ذرا سی بات پر دوسروں کی عزت نفس کو مجروع کرتے ہیں‘ جو اَناَ کے پجاری اور صرف ہاں سننے کے عادی ہوتے ہیں‘ تنقید ہر حال میں ناقابل برداشت ہے‘ افسوس کہ پاکستان کا آئین و قانون جو تمام شہریوں کے برابر کے حقوق کا ضامن ہے‘ ایسے لوگوں کا بال بھی بیگا نہیں کر سکتا۔ احادیث رسولﷺ اس سلسلے میں ہماری کیا رہنمائی فرماتی ہیں‘ آئیے نظر ڈالتے ہیں۔

آپﷺ کی نظر میں امیر و غریب صغیر و کبیر آقا و غلام سب برابر تھے۔ سلمان و صہیب و بلالؓ کہ سب کے سب غلام رہ چکے تھے‘ آپ کی بارگاہ میں رؤسائے قریش سے کم رتبہ نہ تھے۔ قبیلہ مخزوم کی ایک عورت چوری کے جرم میں گرفتار ہوئی۔ اسامہ بن زید جن سے آپ نہایت محبت رکھتے تھے‘ لوگوں نے ان کو شفیع بنا کر خدمت نبوی میں بھیجا‘ آپ نے فرمایا ”اسامہ کیا تم حدود خداوندی میں سفارش کرتے ہو؟“ پھر آپ نے لوگوں کو جمع کر کے خطاب فرمایا ”تم سے پہلے کی امتیں اسی لئے برباد ہو گئیں کہ جب معزز آدمی کوئی جرم کرتا تو تسامح کرتے اور معمولی آدمی مجرم ہوتے تو سزا پاتے ،خدا کی قسم اگر محمد کی بیٹی فاطمہ ؓ سرقہ کرتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹے جاتے“۔ غزوہ بدر میں دوسرے قیدیوں کے ساتھ آپ کے چچا حضرت عباس بھی گرفتار ہو کر آئے تھے‘ قیدیوں کو زر فدیہ لے کر رہا کیا جاتا تھا بعض نیک دل انصار نے اس بنا پر کہ وہ آپ سے قرابت قریبہ رکھتے تھے‘ عرض کی کہ یا رسول اللہ! اجازت دیجئے کہ ہم اپنے بھانجے (عباس) کا زر فدیہ معاف کر دیں آپ نے فرمایا نہیں ایک درہم بھی معاف نہ کرو۔ مجلس میں جو چیزیں آتیں ہمیشہ داہنی طرف سے اس کی تقسیم شروع فرماتے اور ہمیشہ اس میں امیر و غریب صغیر و کبیر سب کی مساوات کا لحاظ ہوتا۔ایک دفعہ خدمت اقدس میں صحابہ کا مجمع تھا اتفاق سے داہنی طرف حضرت عبداللہ بن عباس بیٹھے ہوئے تھے جو بہت کم سن تھے‘ بائیں جانب بڑے بڑے معمر صحابہ تھے۔ کہیں سے دودھ آیا‘ آپ ﷺ نے نوش فرما کر عبداللہ بن عباس سے کہا تم اجازت دو تو میں ان لوگوں کو دوں‘ انہوں نے عرض کی اس عطیہ میں میں ایثار نہیں کر سکتا چونکہ داہنی جانب تھے اور ترتیب مجلس کی رو سے انہی کا حق تھا آپ نے انہی کو ترجیح دی۔

Advertisements
julia rana solicitors

قریش اپنے فخر و امتیاز کے لئے مزدلفہ میں قیام کرتے تھے لیکن آپ نے اس تفریق کو کبھی پسند نہ فرمایا‘ بعثت سے پہلے اور بعثت کے بعد بھی ہمیشہ عام لوگوں کے ساتھ مقام کرتے تھے‘ علاوہ بریں یہ بھی گوارا نہ تھا کہ وہیں خاص طور سے کوئی عمدہ جگہ دیکھ کر آپ کے لیے مخصوص کر دی جائے اور وہاں سایہ کیلئے کوئی چھپر ڈال دیا جائے‘ صحابہ نے تجویز پیش کی تو فرمایا ”جو پہلے پہنچ جائے اسی کا مقام ہے“۔ غزوہ احزاب کے موقع پر بھی جب تمام صحابہ مدینہ کے چاروں طرف خندق کھود رہے تھے آپ بھی ایک ادنیٰ مزدور کی طرح کام کر رہے تھے یہاں تک کہ شکم مبارک پر مٹی اور خاک کی تہہ جم گئی تھی۔ ایک سفر میں کھانا تیار نہ تھا تمام صحابہ نے مل کر پکانے کا سامان کیا‘ لوگوں نے ایک ایک کام بانٹ لیا جنگل سے لکڑی لانے کا کام آپ نے اپنے ذمہ لیا‘ صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ! یہ کام ہم خدام کر لیں گے فرمایا ہاں سچ ہے لیکن مجھے یہ پسند نہیں کہ میں تم سے خود  کو ممتاز کروں اللہ اس بندہ کو پسند نہیں کرتا جو اپنے ہمراہیوں میں ممتاز بنتا ہے۔ (حوالہ جات‘ سیرت النبیؐ از شبلی نعمانی و سید سلیمان ندویؒ)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply