کائنات صرف اور صرف محبت پر قائم ہے ۔۔۔۔نذر محمد چوہان

۱۲۷۴ میں فلورنس میں نوجوان شخص جس کا نام دانتے تھا ، اس نے ایک خوبصورت لڑکی بییٹرس دیکھی۔ دانتے پہلی ہی نظر میں اس کے عشق میں گرفتار ہو گیا اور کہا جاتا ہے کہ انسانی ماڈرن تاریخ میں یہ پہلی دفعہ تھا کہ  love at first sight کا واقعہ رونما ہوا اس سے پہلے رومانوی پیار کی تو بہت داستانیں تھیں لیکن وہ بہت مشکل اور پیچیدہ ہوتا تھا۔ دانتے نے لکھا کہ  جب اس نے اسے پہلی دفعہ دیکھا تو اس کے دل میں محبت کا جذبہ اتنے جوش میں آ گیا کہ  اس کا سارا جسم کانپ اٹھا ۔ اس ایسے لگا جیسا   معجزاتی طور پر کوئی  فرشتہ نیچے زمین پر اتر آیا ہے ۔ اپنی نظم کومیڈیا میں اس نے لکھا کہ  اس نے پہلی دفعہ یہ محسوس کیا کہ  وہ جنت میں پہنچ گیا ۔ بییٹرس جوانی میں مر گئی  لیکن دانتے اور وہ بہت سارے لوگوں کو محبت والی شادی میں جوڑ گئے ۔ اس وقت کے لکھاری اور ادب سے لگاؤ والے یہ سمجھتے تھے کہ  یہ محبت میں mysticism اسلام کے  ذریعہ آیا ۔ اس سے پہلے یہودی اور عیسائی  روایات میں شادی کو اور جنسی معاملات کو بھی بہت پردوں میں رکھا جاتا تھا ۔ ابن العربی جیسے صوفیوں نے شعور کے altered state میں جا کر اس مستی کے رنگوں کو سب پر عیاں کروایا اور خود بھی لُطف اندوز ہوئے ۔ ابن العربی نے ہی اپنی longing کی تشریح میں جنسی محبت کو ربانی محبت یا divine love کہا ۔ ہزار ہا سال سے شہوانیت کی حس کو دبایا گیا تھا ۔
بہت سارے مورخ تو Renaissance کے سارے ادب کو مسلم صوفیوں کا اثر گردانتے ہیں خاص طور پر محبت کے معاملے  میں ۔ اس مادہ پرستی کی دنیا میں اگر کوئی  لُطف بچا تھا تو وہ صرف اور صرف sensual pleasure ہی تھا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

فرانس میں ایک شاعر انہی دنوں ٹروبوڈور کے نام سے مشہور ہوا اور اسی نام سے شاعروں کی ایک تحریک نے جنم لیا جنہیں ٹروبوڈورز کہا جاتا تھا ۔ وہ سارے دراصل عربی اور اندلوسی طرز کی شاعری کرتے تھے زبان بھی عربی سے ملتی جلتی تھی ۔ اس سے پہلے حالات اتنے خراب تھے کے ایک ادیب ہیلن لکھتی ہیں کے پادری اپنے چیلے کو لے کر گرجا سے باہر نکلا تو ایک عورت سامنے سے گزری ، چیلا پہلی دفعہ باہر کی دنیا میں قدم رکھ رہا تھا ، اس نے کہا یہ تو کوئی  پری ہے ، پادری نے کہا نہیں یہ شیطان ہے ۔ شادی کو ایک سوشل کنڑول والا معاملہ سمجھا جاتا تھا اور ٹروبوڈورز نے ایک ایسا ٹرینڈ دیا جس میں شادی کو اس arranged اسٹیٹس کی بجائے ایک دم ، اچانک یا spontaneous عمل ولا معاملہ بنا دیا ۔ جس میں کوئی  طبقاتی قید نہیں ، کسی بھی سوسائٹی میں کسی بھی لیول والے کی کسی سے بھی ہو سکتی ہے ۔ یہی انسانی جبلت یا فطرت ہے ۔ بہت مشہور کہانی Nightingale and the rose میں بھی ایک پرندہ انسانی ربانی خواہش کی علامت بنتا ہے ۔ ایزرا پاؤنڈ بھی alchemical techniques of sexual ecstasy پر یقین رکھتا تھا اور اس کا بہت پرچار کیا ۔ اسی کو بعض لوگ جوناتھن جیسے ، شعور کے ارتقاء کی ایک نئ منزل یا نیا لیول بھی سمجھتے ہیں جہاں جنسی تعلق کو بھی قدرت کے ساتھ ایک نئ زندگی اور نیا تجربہ ملا اور orgasm کو بھی altered state of consciousness سمجھا گیا ۔
اوشو نے یہاں امریکہ میں ۸۰ کی دہائی  میں اسی فلسفہ کا پرچار کیا جس وجہ سے اس کی مشہور امریکی میگزین پلے بوائے کے مالک اور پادریوں سے جنگیں شروع ہوگئیں ۔ اوشو عریانیت یا پورنو لٹریچر کو انسانیت کی تذلیل سمجھتا تھا ۔ وہ جنسی تعلق کو انتہا کا مقدس عمل گردانتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اسی پاداش میں اوشو کو دوران گرفتاری امریکہ میں ہی سلو پوائزننگ سے مار دیا گیا گو کہ  انتقال ہندوستان میں ہوا ۔
دانتے بھی اپنے مجموعہ کومیڈیا میں انڈر ورلڈ کا تذکرہ دراصل صوفی ماسٹر ابن العربی کا محمد ص کے دوسری دنیا کے سفر والا سمجھتا ہے اور اسے ایسے ہی بیان کرتا ہے ۔ دانتے سمجھتا تھا کہ  ہم سب اپنی monstrous selves کی آبیاری میں مصروف ہیں اور پھر اوپر سے اپنے لیے monstrous سزائیں تجویز کر رہے ہیں ۔
مادہ پرستی کی دنیا جو طوفان نوح کے بعد شروع ہوئی  آخر کار اس کو رینائسنس کی صورت میں کوئی  قدرت کے برابر کا لُطف بھی ملا ۔ مونا لیزا ابھی بھی تصویر سے باہر آ کر لوگوں کے دل میں سمو جاتی ہے ۔ سارے کا سارا رینائسنس کا ادب ستاروں ، قدرتی نظاروں اور دلکش مناظر کے گرد گھومتا تھا ۔ اسی دور کا ایک فرانسیسی لکھاری رابیلائز تھا جو اس حد تک شعور کی معراج میں آگے چلا گیا تھا کہ  وہ کہتا تھا   اس شعور کو اس لیول پر لے جاؤ کہ beyond good and evil ہو جائے ، بلکل صوفیوں والا معاملہ ۔ پیر ہیرات خواجہ شیخ عبداللہ انصاری کہتا تھا “اے رب ، مجھے اپنی محبت کی شراب کے نشہ میں محو کر دے”
شاہ عبد لطیف کی ساری شاعری لازوال محبت کی داستانوں پر مبنی ہے ۔ سسی پنوں ، سوہنی ماہی وال وغیرہ ۔ شاہ لطیف کے نزدیک کائنات کی اصل آکائ عشق ہے ۔ ہر فرد محبوب کی پرستش کرتا ہے ۔ عشق کی زبان آنکھ ہے ، سوچو سمجھو ، جو بات میرے دل میں ہوتی ہے محبوب جان جاتا ہے ، شاہ لطیف کا عشق ، حق کا مظہر ہے ، ان کا اظہار حق کا ۔ تائیوان سے ایک خاتون ہاورڈ سے شاہ لطیف کے کلام پر پی ایچ ڈی کر رہی ہے ۔ یہاں نیویارک یونیورسٹی سے ایک طالب علم شاہ حسین کے کلام پر پی ایچ ڈی کر رہا ہے اور ہم پاکستان میں ان کے مزاروں کی پُوجا پاٹ کر رہے ہیں ۔ غلوں والے ہمارے وزیر اور مرید ہمارے حکمران ۔
ذرا سچی محبت کر کے دیکھیں ، اس میں ڈوب کر کائنات کے رقص میں شامل ہو جائیں ۔ وہی سب کچھ ہے ، باقی سارا ملک ریاض والا دھوکہ ۔ بابا بلھے شاہ درست فرما گئے ۔
رانجھا رانجھا کر دی نی میں ، آپے رانجھا ہوئی
سدو نیں مینوں دیدھو رانجھا،ہیر نہ آ کھو کوئی

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply