آج کی قسط میں اللہ تعالیٰ کے بابرکت نام سے شروع کروں گا جو نہایت رحیم اور کریم ہے۔۔۔ اور قران پاک کے مطابق وہ رحمت اللعالمین ہے۔
مجھے یقین ہے کہ وہ ہم سب پر بھی اپنی رحمت کی خاص بارش برسا کر کرونا کے عذاب سے ہم سب کو بچائے گا۔۔۔ کاش کہ وہ ہم سب کو اس آفت سے بچائے کہ اب وہی ایک آسرا ہے جس سے ہم غریب عوام آس لگائے ہوئے ہیں۔
ان دنوں ہم بس دعاؤں کے آسرے پر ہی جی رہے ہیں۔۔۔ پچھلے کچھ ہفتوں سے وبا نے اپنی ہولناکیوں میں حیران کن طور پر اضافہ کر دیا ہے، اس لیے اب دوبارہ سے رات دس بجے دی جانے والی اذانوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے۔۔۔ کچھ ہفتوں پہلے یہ سلسلہ اُس وقت اچانک بند کر دیا گیا تھا جب حکومت کی طرف سے لاک ڈاؤن ختم کرنے کا اعلان ہوا تھا، ہمارے مولوی حضرات لاک ڈاؤن ختم ہونے کی خوشی میں یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ کرونا بھی ختم ہو گیا ہے اس لیے اب رات دس بجے دی جانے والی اذان کو بھی بند کر دینا چاہیے۔
مُلک بھر کے انسان دوست سماجی ماہرین، ڈاکٹرز، فنکار، لکھاری اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کے وہ تجزیے ہر گزرتے دن کے ساتھ درست ثابت ہو کر حکمرانوں کی پیشانیوں پر ناکامی و نااہلی کی مہر ثبت کر رہے ہیں جن کو ان حکمرانوں نے گزشتہ تین مہینوں سے ہنسی مذاق سمجھا ہوا تھا۔ ان کے نزدیک یہ معمولی سا فُلو پاکستان کے گرم خطّے کو بغیر کوئی نقصان پہنچائے ختم ہو جائے گا، اللّہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے ہمارے ملک میں، یہاں پر یورپ جیسی سرد ہوائیں اور یخ بستہ موسم نہیں ہیں جو اس وائرس کی پرورش کرتے ہیں۔۔۔ یہ اور اس قسم کے فرسودہ بیانات ہم ان نااہل حکمرانوں کے منہ سے گزشتہ تین، چار ماہ سے تسلسل کے ساتھ سنتے ہوئے آرہے تھے۔
ان کے نزدیک اپوزیشن اپنی پوائنٹ سکورنگ کے لیے عوام کو کرونا سے ڈرا کر حکمرانِ وقت کے خلاف اکسا رہی ہے تا کہ ان کی حکومت ختم کی جا سکے۔ اس لیے ہمیں ان سب سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، ہمیں بالکل بھی نہیں گھبرانہ اس معمولی فلو سے، اور تو اور انہوں نے صوبہ سندھ کی حکومت پر بھی بےبنیاد الزامات لگا کر ملک بھر میں ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا کہ ہر کوئی کرونا کو مذاق سمجھنے لگا۔ عوام نے تبدیلی سرکار کے خطابات کی روشنی میں کرونا کی وبا کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔ لاک ڈاؤن کے باوجود لوگ مستقل بد احتیاطی کرتے رہے، حکومتی پابندیوں کے باوجود
باجماعت نمازیں پڑھتے رہے اور عید کی خریداری کے لیے بازاروں کی رونقوں میں بھی بھرپور اضافہ کرتے رہے۔
حقیقی طور پر ملک بھر میں کرونا کا وائرس تو موجود تھا ہی جس کے بارے میں ماہرین پہلے سے آگاہ کر چکے تھے۔ بغیر کسی حکمت عملی کے وقت سے پہلے جب لاک ڈاؤن کو ختم کیا گیا تو کرونا نے یوں سرِعام سماجی فاصلوں کو قربتوں میں بدلتا دیکھ کر پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ اس کا نتیجہ اب ہمارے سامنے ہے۔ ہر روز کرونا کے مریضوں کی اموات میں اضافہ ہو رہا ہے، کراچی اور لاہور سمیت کئی شہر اور قصبے کرونا کے گڑھ بنتے جا رہے ہیں۔۔۔ آنے والے چند ہفتوں میں اس وبا کی وجہ سے مریضوں کی تعداد تین، چار لاکھ سے تجاوز کر جائے گی، ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ تعداد دس لاکھ بھی ہو سکتی ہے۔
آنے والے شب و روز ہم سب کی زندگیوں کا فیصلہ کریں گے۔ نااہل حکمران اور اس کے حمایتی ٹولوں کے گھٹیا بیانات کو سچ سمجھنے کی فاش غلطیوں اور بد احتیاطیوں کی کچھ نہ کچھ سزا تو کرونا ہمیں لازمی دے گا اور اب اس سزا کا دورانیہ شروع ہو چکا ہے۔۔۔ سزا کا اختتام کب ہو گا، ہو گا بھی یا نہیں۔؟
میں نے گزشتہ روز پندرہ جون کو اپنی ڈائری کی قسط نہیں لکھی تھی۔ اب تو حالات ایسا رخ اختیار کر گئے ہیں کہ کچھ لکھنے کو دل ہی نہیں کرتا۔ کل کے دن شہرِ کراچی میں کرونا کے مریضوں کی کل تعداد ایک ہزار تین سو اکیانوے تھی اور بائیس افراد شہر بھر جاں بحق ہوئے۔
تو ایک دن میں بائیس افراد اس وائرس سے جاں بحق ہو گئے، بایئس افراد کا ہندسہ دیکھ کر مجھے نوّے کی دہائی کا کرفیو زدہ زمانہ اور مشرف کے آمرانہ دور حکومت کا شہر یاد آتا ہے۔ شہر کی لائبریریوں میں محفوظ اُن پرانے اخبارات کی شہ سرخیاں، جن میں جلی حروف میں لکھا ہوتا تھا کہ آج شہر بھر میں دس افراد قتل کر دیے گئے۔
آج شہر کے مختلف علاقوں میں قتل ہونے والوں کی مجموعی تعداد 22 تھی۔ فائرنگ کے واقعات میں پندرہ افراد ہلاک اور چھ زخمی، زخمیوں کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔۔۔ گزشتہ روز پانچ نامعلوم افراد کی تشدد زدہ بوری بند لاشیں برآمد۔ تو یہ تھا پُرانا کراچی جب ہر روز معصوم بےگناہ لوگوں کا یوں قتل ہو جانا ایک معمول تھا۔ ان کے قاتل سفاکی سے دندناتے ہوئے شہر کی گلیوں میں پھرا کرتے تھے اور آج دوہزار بیس کا کراچی کہ وبا کی وجہ سے صرف ایک دن میں بایئس افراد لقمہ اجل بن گئے اور ایک ہزار تین سو اکیانوے لوگوں کو اس وبا نے زخمی کر دیا۔ کیا یہ زخمی افراد جن کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے صحت یاب ہو سکیں گے۔ اس شہر میں گزری ہوئی تلخ و تاریک دہائیوں میں تو بہت سے زخمی افراد دورانِ علاج دم توڑ دیتے تھے کہ ان کے جسموں میں داغی گئی گولیاں تیزی سے اپنا اثر دکھاتی تھیں۔ بالکل اسی طرح ان دنوں کرونا کا وائرس انسانی جسموں میں داخل ہو کر اپنا اثر دکھا رہا ہے۔۔۔
ہر روز حکمراں جماعت کے نمائندوں کے اخلاقیات سے عاری، بےحسی پر مبنی لغو بیانات سن کر ایسا لگتا یے کہ ان لوگوں نے زندگی بھر کسی مدرسے یا اسکول کی شکل نہیں دیکھی، اسی لیے یہ لوگ سوچے سمجھے بغیر تسلسل کے ساتھ ایسے غلط قسم کے بیانات دے رہے ہیں جن پر اب سپریم کورٹ کو کوئی تو ایکشن لینا چاہیے۔ آخر سپریم کورٹ نے کیا سوچ کر اس جماعت کی اعلیٰ قیادت کو “صدیق اور امین” کے مقدس القابات سے نوازا تھا؟۔ کیا کسی کے پاس اس سوال کا جواب ہے؟
مجھے پورا پورا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کی علیحدہ مخلوق شہرِ لاہور کے لوگ نہیں بلکہ یہ بحرانی سرکار کے وہ نااہل نمائندے ہیں جو ہر روز نت نئے بیانات دے کر اپنی نااہلی کو عوام پر عیاں کر رہے ہیں۔۔۔ یہ وہ ہیں جن کو بغیر کسی صلاحیت کے جعلی اضافی ووٹوں کی بدولت منصب تو مل گیا لیکن ان کے اندر اس منصب کو احسن طریقے سے سنبھالنے کی اہلیت ہی نہیں ہے۔
جب سے انہیں حکمرانی سونپی گئی ہے اس وقت سے ہی ان کے بیانات رنگ بدلتے گرگٹ کی طرح ہر گھڑی بدل رہے ہیں۔۔۔ گرگٹ کی تو فطرت میں ہے رنگ بدلنا وہ ٹھہرا بیچارہ حشرات العرض لیکن ان نمائندوں کو کیا ہوا جو انہوں نے اشرف المخلوقات ہوتے ہوئے بھی گرگٹ بن جانے کو ترجیح دی۔۔۔ نہایت ہی مکاری سے گرگٹ کی خصوصیات کو اپنے اوپر طاری کر کے، اس کے جیسا روپ دھار کر یہ نااہل نمائندے کب تک سادہ لوح عوام کو انصاف کے نام پر بیوقوف بناتے رہیں گے۔؟
یہ نااہل نمائندے گرگٹ کی طرح رنگ بدل کر اپنی زندگی کو آخر کب تک محفوظ بنائیں گے۔۔۔ کیا اس ملک کی باشعور عوام ان کو ایک بےضرر سا زمین پر رینگنے والا گرگٹ سمجھ کر نظرانداز کر دے گی تو یہ سراسر ان نمائندوں کی خام خیالی ہے۔
باشعور عوام کے حافظے میں سب کچھ آہستہ آہستہ محفوظ ہو رہا ہے۔۔۔ عوام سب کچھ دیکھ رہی ہے۔
انصاف کے نام پر گزشتہ دو سال کی محرومیوں کا بدلہ وہ اب لے کر رہے گی۔ عوام کے سامنے یہ نمائندے اب گرگٹ کی طرح رنگ بدل کر خود کو زیادہ عرصے تک زندہ نہیں رکھ سکتے، ان کی سیاسی موت اب یقینی ہے!
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں