کشمیر،خاموشیاں اور ذمہ داریاں۔۔۔ جاویدخان

شوریدگی سرد پڑ سکتی ہے۔کسی طوفان کے گزرنے کے بعد خاموشی چھاجاتی ہے۔باقی صرف تباہی کے آثار رہ جاتے ہیں۔ہلچل خطرناک نہیں ہوتی۔خطرناک چُپ ہوتی ہے،خاموشی،چُپ جو اچانک پھٹ پڑے۔سری نگر کی خاموشی ایسی ہی چُپ ہے۔سری نگر کشمیر کی شوریدہ وادی ہے۔پانچ اگست کو اس شوریدگی پر تالا پڑ ا،جب کھولا گیا تو شوریدگی کی جگہ چُپ تھی۔غصہ کہیں گہرائی میں کھول رہا ہے۔درندے کو باندھ کر بے بس کرکے،پاگل کیا جاسکتا ہے۔یا پھر پالتو بنایا جاتا ہے۔جیسے ماضی میں ہزاروں جانور (پرندے،چوپائے)پالتو بنائے گئے۔مگر انسان ایک شعوری جانور ہے۔غصہ ہر جانور کی صفت ہے۔ایک شعوری جانور (انسان) کو بے بس کر دیا جائے تو پہلے پہل غصہ اور شعور جنگ کرتے ہیں۔درندہ (غصہ) غلبہ پالے تو جدھر رُخ ملے دوڑتا ہے۔ غصیلی کفیت میں کچھ نہیں دیکھتا جو سامنے آئے مٹا دیتا ہے۔شعور غلبہ پالے تو حکمت،ترکیب اورترتیب مل کر منصوبہ بندی بن جاتی ہے۔اجتماعی غصہ،اجتماعی بے بسی گہرائی میں کھولتے رہیں تو ایٹم بم سے زیادہ خطرناک ہیں۔اس کا نقصان اجتماعی ہے۔فائدے کے امکانات کم۔اجتماعی شعور مل کر جو حکمت عملی ترتیب دے گا۔وہ مثبت اَوردیر پا تبدیلی لائے گا۔

سری نگر کا اجتماعی غصہ،اجتماعی بے بسی اور اجتماعی شعور مدمقابل ہیں۔یہ داخلی جنگ (کفیت) ہے،جس میں سری نگر مبتلا ہے۔خارجی جنگ (ہندوستانی قبضہ) الگ ہے۔لداخ اس وقت دو حصوں میں تقسیم ہے۔بی۔جے۔پی نے جبر اَور پیسوں کے زور پر لداخ میں ایک بڑا اجتماع کیا۔مگر وہیں بدھ تنظیمیں بائیکاٹ کیے رہیں۔کرگل لداخ کا دوسرا بڑا ضلع پانچ اگست سے ہی سراپا احتجاج ہے۔۱۳ اکتوبر کے بھارتی فیصلے کے بعد سے کرگل پھر سے صدائے احتجاج بلند کیے ہے۔لداخ کے طلبا ء دانش ور اَور عام جنتا،لداخ کی منفرد تہذیب پراسے (یونین میں شمولیت کو) حملہ سمجھ رہے ہیں۔لداخ دنیا کامنفرد سر د صحرا ہے۔انوکھا صحرا،انوکھی تہذیب،بدھ سٹوپے اور انوکھے نقوش والے لداخی نہیں چاہتے کہ ان کی زمین پر کوئی غیر لداخی،جوان میں سے نہیں ہے آکر بسے۔چیدہ چیدہ خوشیاں،وقتی دکھاوا،ترقی کا جھانسا بھارتی حکومت کا جال ہے۔صرف کچھ پرندے اس جال کو نہیں دیکھ رہے۔وہ اس جال کو پہلے سے محفوظ گھر سمجھتے ہیں۔ایسے میں جموں بھی کچھ الگ سوچ نہیں رکھتا۔اپنی زمین،اپنا گھر سب کو پیار اہے۔جموں کے ہندو اپنی زمین کسی باہر کے ہندو میں بانٹنے کے لیے تیا رنہیں ہیں۔بھگت سنگھ فورس،دیگر سنگھ تنظیمیں اَو ر مقامی ہندو تنظیمیں سوائے بی۔جے۔پی کے،اس زبردستی (یونین میں شمولیت)کے خلاف ہیں۔ہاں بی۔جے۔پی اَور گن سرکار (فوج) کے تحت کام کرنے والے لوگ جشن نام کی سرگرمیوں میں ضرور نظر آئیں گے۔جموں اَور لداخ سری نگر کی طرح شورش زدہ کبھی نہ رہے۔تحریک آزادی سمٹ کر سری نگر میں ہی بسی رہی۔80000 شہادتوں میں تناسب سری نگر کا ہی ہے۔اسی لیے دباؤ اَور تناؤ بھی ہمیشہ سری نگر میں رہا۔اَب 35A کی منسوخی کے بعد جموں اَور لداخ بھی اس جال کو دیکھنے لگے ہیں جو ان پر ڈالا جا چکا ہے۔یہ دیکھنا شایدپہلی دفعہ کا دیکھنا ہو گا۔یوں پوری ریاست پہلی بار اَپنے اُوپر پڑنے والے جال کو توڑنے کی کوشش میں ایک ساتھ آگے بڑھتی نظر آرہی ہے۔آزادی کا اِبتدائی محاذ یعنی عسکریت 70 سالوں سے مسلسل جاری ہے۔باقی دو ضروری اَور اہم محاذوں پر کام نہ ہونے کے برابر رہا۔یعنی سیاسی اَور سفارتی جدوجہد اس عرصے صفر رہی۔اِس کی تلافی کشمیری زمانوں تک نہیں کر سکیں گے۔جموں پر لداخ کی نسبت بھارت نے نظریاتی انوسٹمنٹ جاری رکھی۔ورنہ ۵ اگست کی کاروائی کا حوصلہ نہ ہوتا۔تذبذب کشمیریوں پر اس وقت استعمال ہونے والا سب سے مہلک ہھتیار ہے۔جموں اَور لداخ کو یوں بھی ڈرایا گیا کہ اَگر بھارت سر پر نہ رہا تو اسلامی جہادی اَور قبائلی تمھارا جینا حرام کردیں گے۔عام شخص کو خوف زدہ کرنے لیے جہادیوں اَور قبائلیوں کابھوت بی۔جے۔پی کے ملاؤں نے اپنی چرچاؤں میں جاری رکھا۔اس دھڑکے کے باوجود اَہلیان جموں اَور لداخ اپنی زمینیں بھارتیوں کے حوالے کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

کچھ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ آخر سری نگر اپنی چُپ کیسے توڑے گا۔؟کیا کسی جگہ کوئی بڑا دھماکہ ہو گا۔؟کیا اچانک کہیں سے عسکریت پسند نکل کر کسی کانوائے پر جھپٹ پڑیں گے۔؟یا یوں ہی یہ ہولناک خاموشی دم توڑ دے گی۔؟آخری بات آسان نہیں ہے۔سری نگر والے دروازہ کھولتے ہیں تو سامنے ان کے جوانوں کی قبریں ہوتی ہیں۔میلوں پھیلے قبرستان جو بہتر سالوں میں بنتے آئے ہیں۔ ۔ان کے بچوں اَور جوانوں کی بڑی تعداد اس وقت جیل میں ہے۔ تو کیا سری نگر اَیسے ہی خاموش سمجھوتہ کرلے گا۔؟ان کی ہولناک چپ دم توڑنے والی نہیں ہے۔سری نگر والوں کے لیے بھارت اَور ِاس کے پوشیدہ ہم نوا کیا سری نگر کو نیم خود مختار ی کے آپشن پر راضی کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔؟جموں اَور لداخ اَگر پہلے سری نگر کا درد نہیں سمجھ سکے تو اَب اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔کرگل کی چوٹیوں سے نعرہ حر یت بلند ہوا ہے۔لداخ کے بازاروں میں سرخ گیرووں والے بدھوں نے بڑے بڑے سرخ بینروں پر لکھا ہے ہمیں 35Aکی منسوخی منظور نہیں۔اَیسے میں عسکریت کے بہ جائے تحریک کو سیاسی اَور سفارتی محاذ پر از سر نو مرتب کرنے کی ذمہ داری خود کشمیریوں پر ہے۔کہ وہ سری نگر کو نیم خودمختاری،جموں اَور لداخ کو انڈین یونین میں جاتا دیکھنے کے بجائے اپنے دشمن کاسامنا ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بیروں ملک کشمیری سفارتی محاذپر اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔جب کہ اندرون ملک(لداخ،جموں،سری نگر،گلگت بلتستان اَور آزادکشمیر) لسانی،مذہبی اَور علاقائی اِختلافات کو ختم کرکے ایک متحدہ سیاسی محاذ تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔نئے چلینجز سامنے آتے رہیں گے۔جیسے جیسے تحریک آگے بڑھتی جائے گی۔آزادکشمیر َاور گلگت بلتستان کو ایک یونٹ بنا کر ایک خودمختار حکومت کو تسلیم کرنے سے پاکستان اہل کشمیر کے دل ہمیشہ کے لیے جیت سکتا ہے۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply