• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سانحہ ساہیوال: 6 قاتل پولیس اہلکار عمران خان کی یقین دہانیوں کے باوجود بھی صاف بچ کر نکل گئے۔ ۔غیور شاہ ترمذی

سانحہ ساہیوال: 6 قاتل پولیس اہلکار عمران خان کی یقین دہانیوں کے باوجود بھی صاف بچ کر نکل گئے۔ ۔غیور شاہ ترمذی

پچھلے سال 2 ربیع الاوّل کی بات ہے۔ یعنی ابھی ایک سال بھی پورا نہیں ہوا۔

نظارہ کچھ یوں تھا کہ ڈھلتی رات کا وقت تھا ، سنسان سڑک تھی، سڑک پر کوئی روشنی نہیں تھی گُھپ اندھیرا تھا ۔۔کبھی کبھی کہیں دور سے آوارہ کتوں کے بھونکنے کی آواز آتی تھی ۔ایک چھوٹی سی گاڑی میں بہت سے لوگ ٹھنسے بیٹھے تھے،3 نوعمر بچے جنہیں کسی بھی طرح باشعور قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ۔۔ان کے علاوہ ایک عورت اور ایک جواں سالہ لڑکی اور دو مرد ۔

اچانک اندھیرے میں سے ایک دوسری گاڑی نمودار ہوئی وہ غالبا” ڈاکو” تھے ۔۔اور آپ کو تو پتہ ہے کہ ڈاکو نقاب پہنتے ہیں تاکہ پہچان میں نہ آئیں لیکن یہاں تو اتنا اندھیرا تھا کہ نقاب کی بھی ضرورت نہیں تھی ۔

وہ آئے  ،لوٹنے لگے تو مسافروں نے مزاحمت کی ،گولیاں چلیں اور وہ چلے گئے ۔۔

رحم دل تھے، اس لئے بچوں کو چھوڑ دیا ورنہ دو تین گولیوں کا خرچہ کوئی بڑا خرچہ نہیں ہوتا ۔۔گولیوں کی آواز سن کر گشت کرتی ہوئی سی ٹی ڈی کی ٹیم مدد کو پہنچ گئی ۔مدد کو پہنچی  ہی تھی کہ اچانک روشنی ہوگئی اب کیسے ہوئی یہ تب پوچھیے جب آپ معجزات پہ یقین نہیں رکھتے ۔لوگوں کو غلط فہمی ہوگئی کہ جیسے حادثہ خدانخواستہ ان کی وجہ سے ہوا ۔۔

لیکن سلام ہو مائی لارڈ ۔۔

آپ کی عادلانہ سوچ کو کہ جو باتیں سنی سنائی تھیں ان پر آپ نے بالکل کان نہیں دھرے ۔۔

اے قاضیِ دوراں، اے منصف ارض ِ پاکستان، اے مظلوموں کی آخری امید،جب تک آپ کا سایہ ہمارے سروں پر ہے کسی بے گناہ اور بے قصور کو سزا نہیں ہوسکتی ۔۔شک تو ہوتا ہی اس لئے ہے کہ اس کا فائدہ کسی کو دیا جاسکے۔جب گواہ اپنے بیان بدل رہے تھے تو سرکاری وکیل خاموش تھے ۔کسی نے کوشش ہی نہیں کی کہ وہ جرح کرے اور گواہوں سے پوچھے کہ وہ کس دباؤ یا ترغیب کے تحت اپنا بیان بدل رہے ہیں۔اگر گواہوں سے منوا لیا جاتا کہ انہوں نے جو پہلے گواہی دی وہ بھی درست تھی ۔۔اور جو گواہی اب دے رہے ہیں وہ بھی درست ہے ۔۔اس کے بعد ساری ذمہ داری عدالت پر آ جاتی کہ وہ کس گواہی کو قبول کرتی ۔۔

شاہ رخ جتوئی اور قندیل بلوچ کا کیس اس کیس سے مختلف تھا۔ اُن کیسوں میں ملزمان نے صلح کیس کی سماعت کے بعد کی تھی۔ اُس وقت تک سارے گواہوں کی عدالت میں بھی گواہیاں ہو چکی تھیں، اس لئے انہیں تبدیل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس لئے عدالت عظمیٰ کو یہ اختیار تھا کہ وہ گواہیوں کی بنیاد پر اس صلح کو مسترد کر دیتا۔ ہمارے اداروں نے شاید ان واقعات سے زیادہ سیکھ لیا تھا، اس لئے انہوں نے عدالت میں گواہیوں سے پہلے ہی معاملہ سنبھال لیا۔ سُنا ہے کہ اس کے لئے اڑھائی کروڑ روپے دیت کے طور پر وصول کیے گئے اور قاتلوں کو معاف کر دیا گیا۔ لیکن عدالتی سطح پر جھوٹ کا سہارا لیا گیا، کہانی بنائی گئی کہ ملزمان کو مقتولین کے وارثان شناخت نہیں کرسکے اور عدالت نے شک کی بنیاد پر تمام ملزمان کو رہا کر دیا۔ اس کیس کے مدعی اور مقتول خلیل کے بھائی جمیل سے بھی بیان دلوا دیا گیا کہ فیصلہ انصاف پر مبنی ہے اور وہ اپنے اداروں پر مکمل اعتماد کرتے ہیں۔

اوپر سے آج قانون شہادت کی آڑ میں عدلیہ کا جنازہ نکل گیا۔ نہایت دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم اس معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں افراد سے لے کر اداروں تک سب بے حس ہیں اور قدرت ہم سب سے اس کا جواب لے گی۔ کچھ سمجھ نہیں آتی کہ جب حکم ہے کہ ’’اور گواہی ہرگز نہ چھپاؤ‘‘ تو ہمارے یہاں کس طرح 53 گواہ اپنی گواہی سے منحرف ہو گئے۔ اور ان یتیموں کی گواہی کا کیا ہوا کہ جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے والدین کو مار دیا جاتا ہے۔ اگر کل کو مقتول خلیل کا بیٹا جوان ہو کر اپنے والدین کے قتل کا بدلہ لے تو ’’ ملزموں کی شناخت نہیں ہو سکی‘‘ کی بنیاد پر بری ہو جانے والے کیسے کہیں گے کہ یہ بچہ دہشت گرد بن گیا ہے؟۔ کیا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ عدالتیں نہیں بلکہ قانون خانے ہیں جہاں سچ اور انصاف ڈھونڈنا عبث ہے۔ یہ سب دیکھ کر تو مجھ جیسے شہری بھی اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کررہے ہیں کیونکہ ریاست کے پاس تو عوام کے ٹیکسوں کے کئی اڑھائی کروڑ موجود ہیں۔

کچھ سوال جو عام فہم رکھنے والے افراد بھی پوچھ رہے ہیں کہ۔

1- کیا محکمہ پولیس کو نہیں پتہ کہ پولیس وین میں کون سے پولیس والے تھے؟

2- کیا مطلوب شخص (اگر کوئی تھا تو وہ )اتنا بڑا مجرم تھا جس کو پولیس زندہ پکڑنے کی صلاحیت نہیں  رکھتی تھی؟

3- کیا انسانوں کی دنیا میں اس چیز کی اجازت ہے کہ معصوم بچوں کے سامنے ان کے ماں باپ اور بڑی بہن کو اندھا دھند فائر کر کے قتل کیا جائے؟

ان سوالوں کے ساتھ ساتھ ارباب اختیاران کو ایک بھولی بسری یاد کروانی ہے کہ۔۔

مسلم لیگ تحریک انصاف نہیں۔

پیپلز پارٹی تحریک انصاف نہیں۔

بلکہ

پی ٹی آئی تحریک انصاف ہے

اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ۔۔

نواز شریف حکومت میں نہیں، جیل میں ہے۔

زرداری حکومت میں نہیں، جیل میں ہے۔

اور

عمران خان حکومت میں، کرسی پر متمکن ہے۔

ماڈل ٹاؤن سانحہ پر انصاف نہ ہوا، نواز شریف ظالم، راؤ انوار کو بچا لیا گیا، زرداری ظالم جیسے نعرے سنتے کان پک گئے۔۔۔

اب تو حکومت پی ٹی آئی کی ہے۔ ہمت کریں اور ماڈل ٹاؤن کیس کھلوائے ، راؤ انوار کو بھی ٹانگ دے۔

دونوں مبینہ ظالم (نواز شریف اور زرداری) تو اب خود ٹنگے پڑے ہیں۔۔۔اب تحریک انصاف کا ہاتھ کون روک رہا ہے؟۔

بجائے اس کے کہ ماڈل ٹاؤن اور راؤ انوار کیسز پر انصاف کروایا جاتا، یہاں تو سانحہ ساہیوال سامنے آ کھڑا ہوا ۔اور اب اُس کا بھی تیا پانچہ کر دیا گیا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ اس مقدمے میں مدعی سے لے کر جج تک سبھی ملوث ہیں اور اگر ہم اس پر اپنی آواز بلند نہیں کرتے تو کل کو ہم میں ہی سے مقتول ہوں گے اور ہمارے بچوں کو بھی ایسا ہی انصاف ملے گا۔ اب تو یہ اُمید کرنا بھی احمقانہ لگ رہا ہے کہ حاکم وقت اپنی بات پرقائم رہتے ہوئے  اس قانونی بےانصافی کا نوٹس لیں گے اور اس مقدمے میں اب تک ملوث ملزمان اور انصاف کی راہ میں رکاوٹ بننے والے ہر فرد کو عبرت کا نشان بنائیں گے تا کہ ہم اور ہماری نسلیں مستقبل میں محفوظ رہیں۔ اگر آج وزیر اعظم صاحب اس پہ مصلحت کا شکار ہوتے ہیں یا ہوئے ہیں تو قدرت کی اصلی عدالت میں ان کے ساتھ بھی ایسا ہی انصاف ہو گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

‏اس درد ناک واقعہ  کا ہو جانا ہی قانون نافذ کرنے والے ادارے کی کارکردگی کی کلیاں کھول دیتا ہے۔ وہی ادارہ جس کو ٹھیک کرنے کے لئے وزیر اعظم نے نعرے لگائے تھے۔ سارے ملک کو تبدیلی کے نام پر دھوکہ دیا گیا۔ ایک بڑی گیم کھیلی گئی اور جب تک ہمیں گیم کی سمجھ آئی، تب تک تبدیلی کا منجن بہترین پروپیگنڈہ مارکیٹنگ کی وجہ سے کھڑکی توڑ رش لیتے ہوئے دھڑا دھڑ بک چکا تھا۔ اور جب تک جذباتی نوجوان انصافیوں کو سمجھ آئے گی کہ وطن عزیز کا خونی کینسر کسی انقلابی منجن سے نہیں بلکہ سول بالادستی اور آئینی و جمہوری ارتقاء کے طویل و صبر آزما علاج سے ٹھیک ہو گا تب تک ہماری اسٹیبلشمنٹ ایک اور نسل تیار کر چکی ہوگی جس کے لئے ایک نیا منجن تیار ہو گا۔ یہ نئی جذباتی پود نتھنوں سے انگارے اگلتی، نفرت کے ساتھ پچھلے چوروں، ڈاکوؤں اور غداروں کے علاوہ تازہ راندہ درگاہ کیے گئے تبدیلی کے ناخداؤں کے خلاف بھی نااہل، اناڑی، کشمیر فروش وغیرہ قسم کے نعرے لگا رہی ہوگی۔یہ تاریخ کا وہ سبق ہے جو پچھلے 72 سالہ زندگی میں کم از کم 70 سالوں سے بڑی کامیابی سے دہرایا جا رہا ہے۔ پھر کہیں کوئی میثاق جمہوریت ہوگا تو مطالعہ پاکستان ففتھ جنریشن نصاب کے متاثرینِ نو تینوں “کرپٹ” پارٹیوں یعنی پیپلزپارٹی، مسلم لیگ اور تحریک انصاف پر ایک ساتھ لعنت بھیجتے ہوئے کہے گی پچھلے 50 سالوں سے ملک کو لوٹنے والے ہوس اقتدار میں اکٹھے ہو گئے ہیں- جبکہ مردودِ حرم تینوں پارٹیوں کے باشعور اس نسل کو سمجھانے کےلئے بھٹو کی پھانسی، نواز شریف کے قتل، عمران خان کی اسیری اور مریم نواز و بلاول بھٹو کی جلاوطنی کا حوالہ دیں گے۔ اس کے جواب میں یہ نئی نسل کرپشن افسانوں، عدلیہ کے ڈراموں اور آئی ایس پی آر کے ترانوں پر ناچتے ہوئے کہے گی۔ یہ مظلومیت کا رنڈی رونا اور مزاروں کی سیاست بہت ہو گئی۔ اب کسی کو این آر او نہیں ملے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply