پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے دو ہفتے پارٹی کے ممتاز گھرانوں میں ہونے والی اموات پر تعزیت کرنے کے لیے وقف لیے تھے ۔ وہ سندھ کے بعد ملتان آئے ۔
حسب معمول ان کی آمد پر سید یوسف رضا گیلانی، ان کے صاحبزادے اور ان کے قریب سمجھے جانے والے لوگ ہی اس دورے کے منتظم تھے ۔
میڈیا میں جو خبریں آئیں، اس کے مطابق وہ ملتان میں مسلم لیگ نواز کے سینٹر رانا محمود الحسن کی پشت پناہی پر اور اب گیلانی گروپ کی مبینہ سرپرستی میں ملتان جنرل بس اسٹینڈ پر بھتہ ،قبضہ چلانے کے الزامات میں گھرے رانا سجاد کے بھائی کی موت پر تعزیت کے لیے گئے جوکہ بس اسٹینڈ پر بھتے کے معاملے میں ہونے والے جھگڑے کے دوران فائرنگ سے قتل ہوئے تھے ۔
ملتان میں یہ واحد تعزیت تھی جو پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو سے کرائی گئی اور اس تعزیت کی جو خبر میڈیا کو دی گئی اس میں مرنے والے کو شہید لکھا گیا ۔
ملتان ڈویژن کو اگر لیں تو اس میں ویسے تو جب سے بلاول بھٹو فعال چئیرمین بنے اس وقت سے لیکر اب تک پارٹی کے درجنوں ممتاز گھرانوں میں اموات ہوئی ہیں جن میں پارٹی کی تاریخ رقم کرنے والے بڑے بڑے نام شامل ہیں ۔ اور ان گھرانوں میں سے کسی ایک کے گھر بھی چئیرمین نہیں گئے ۔ بلاول بھٹو جب دو روز کے لیے ملتان آئے تھے تب عذر تراشے گئے اور بجائے وہ مرنے والوں کی تعزیت کے لیے ان کے گھر جاتے ان میں سے چند ایک کے گھر والوں کو بلاکر تعزیت کی گئی ،جب اعتراض ہوا تو کہا کہ نیا گھر بن رہا ہے وہاں جائیں گے لیکن آج تک انھیں نہیں لیجایا گیا ۔
جب بلاول بھٹو زرداری ایک مبینہ بھتے کے جھگڑے میں قتل ہونے والے کے گھر تعزیت کے لیے لیجائے جارہا تھے ، اس وقت دہلی گیٹ میں پی پی پی کے بانی رکن اور پی پی پی سٹی ملتان کے سابق صدر ڈاکٹر عالمگیر قریشی مرحوم کے گھروالوں سے ان کی برادری، محلے دار اور تو اور شاہ محمود قریشی کے قرابت دار پوچھ رہے تھے کہ کیا بلاول بھٹو زرداری ان کے گھر آئیں گے؟ ویسے تو سید یوسف رضا گیلانی ، مخدوم احمد محمود سمیت جنوبی پنجاب کے بڑے لیڈر ان کے گھر نہیں آئے تھے ۔
ایک اور شخصیت ہے ملتان کی ملک الطاف حسین کھوکھر ان کے بیٹے کی موت ہوئی تھی ۔ یہ شخصیت وہ ہے جو پارٹی کی بانی کارکن ہے، اس نے ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران پارٹی کی ضلعی صدارت سنبھالے رکھی یہ پھر ملتان ڈویژن کے صدر بنائے گئے ،شہید بھٹو، بیگم بھٹو، شہید بی بی سب کے یہ انتہائی با اعتماد ساتھی رہے ہیں ۔ ان کے گھر بھی تعزیت کے لیے بلاول بھٹو کو نہیں لیجایا گیا ۔
ملک سلیم کا خاندان اور ان کا حلقہ اثر پی پی پی اور بھٹوز کا سب سے بڑا وکیل ہے ۔ ملک سلیم کے والد پی پی پی کے پرانے جیالے وکیل تھے ان کا برادری سمیت وسیب میں ان کے علاقے پر بڑا اثر تھا، ان کی وفات ہوئی تھی ، فرض بنتا تھا کہ بلاول کے دورے کے منتظمین پہلے سے پلان بناتے اور ان کے گھر تعزیت کا پروگرام بھی ارینج کرتے۔
یہ ملتان کی صورت حال ہے ۔ نوجوان چئیرمین بلاول بھٹو کو کس نے بریفنگ کرنا ہے کہ کتنے جیالے فوت ہوئے، کتنوں کے گھر مرگ ہوئیں ، کتنے شدید بیمار ہیں ۔ یہ سب سے پہلے صوبائی تنظیم کا کام ہے کہ وہ مقامی تنظیموں سے تفصیلات اکٹھی کرے اور پھر چئیرمین کے پاس وہ تفصیل بھیجے ۔ اور پھر چئیرمین خود جائیں یا اپنے نمائندے بھیجیں ۔
اخلاقی اور انسانی لحاظ سے انتہائی بدترین حالات ہیں۔
عامر حسینی کے مضمون میں چند لائنوں کا اضافہ کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ میر احمد کامران مگسی
اسی طرح گذشتہ دنوں پیپلز پارٹی ملتان شہر کے نائب صدور شمشاد حسین سیال اور مشتاق حسین بلوچ پیپلز پارٹی کا پرچم اوڑھے قبروں میں جا سوئے۔ اس سے پہلے مظفر آباد ملتان کے تاحیات جیالے یونس آزاد، شریف خان جمند سمیت درجنوں پارٹی کارکنان پارٹی سے والہانہ محبت کا اظہار کرتے اپریل و دسمبر کے انتہائی موسموں میں سال ہا سال گڑھی خدا بخش میں حاضریاں دیتے قبروں میں جا سوئے۔ مگربڑے گھر والوں کو کبھی توفیق نہ ہوئی کہ ان مرحومین کے اہل خانہ سے دو بول ہمدردی کے بول لئے جاتے۔ وجہ یہ تھی کہ یہ پارٹی کارکنان ان کے حلقہ انتخاب کی بجائے ملتان شہر میں رہتے تھے۔ جسے شاہ محمود کو تحفے میں دے دیا گیا تھا۔ کارکنوں نے کیا کیا ستم ظریفیاں برداشت نہیں کی ہیں جس دن پیپلز پارٹی کے سینئر ترین اور سرگرم جیالے شمشاد حسین سیال کی قل خوانی تھی اسی دن جناب یوسف رضا گیلانی تحریک انصاف کے ضلعی صدر خالد جاوید ورائچ کی والدہ کی فاتحہ خوانی کیلئے ان کے گھر موجود تھے اور اسی طرح میرے محلے میں تحریک انصاف کے راجہ غفار کی ہمشیرہ کی تعزیت کیلئے ڈاکٹر جاوید صدیقی یوسف رضا گیلانی کو لائے اور وہیں سے واپس لے جایا گیا جبکہ اسی گلی میں پیپلز پارٹی ملتان شہر کے سیکریٹری اطلاعات و نائب ناظم یونین کونسل ایم افضل جاوید کی ہمشیرہ کا چند روز پہلے انتقال ہوا تھا مگر وہاں جانا مناسب نہ سمجھا گیا۔ ایسی بیسیوں مثالیں دیکر واضح کیا جا سکتا ہے مگر طوالت کے پیشِ نظر صرف چند مثالوں پر اکتفا کر رہا ہوں۔ یہ سارے عوامل بتا رہے ہیں کہ مذکور لوگ پیپلز پارٹی کے جینئن لوگوں سے نفرت کرتے ہیں، ہر موڑ پر ان کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور پیپلز پارٹی مخالفین کو سینے سے لگاتے ہیں اور پیپلز پارٹی کے ثمرات اکیلے ہی سمیٹنے کو اپنے ایمان کا حصہ تصور کرتے ہیں۔ وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ
بشکریہ فیسبک وال
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں