نہایت اس کی حسین ابتدا ہیں اسماعیل۔۔۔ہما

غریب سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم

نہایت اس کی حسین ابتدا ہیں اسماعیل

علامہ اقبال نے ان دو مصرعوں میں حسین و اسماعیل کو مماثلت دے کر جیسے سمندر کو کوزے میں بند کردیا ہو،۔
داستان حرم جو کہ اسماعیل کی بےچارگی و معصومیت اور ایڑیوں کے رگڑے جانے سے شروع ہوتی ہے اللہ کی رضا جوئی کیلئے اس مقام پر پہنچتی ہے کہ ابراہیمؑ اپنے سگے بیٹے کی قربانی دے کر اللہ کے خلیل ہونے کا حق ادا کرنا چاہتے ہیں، بیٹے کی فرمانبرداری کی بدولت اسے اس کی رضا سے اللہ کی رضا کیلئے ذبح کرنا چاہتے ہیں
اور جوں ہی  تمام مصیبت طلب مراحل سے گزر کر چھری چلانا چاہتے ہیں تو اللہ۔۔

اللہ قبول فرماتا ہے اس ذبح عظیم کو،۔۔۔اور ایک جانور لاموجود سے موجود کرکے رہتی دنیا تک کیلئے سنت ابراہیم بنادیتا ہے۔

خلیل اللہ  ابراہیمؑ بیٹے کو پاکر اللہ کےلئے اس کے حرم کو آباد کرتے ہیں اور بیت اللہ کی دیواریں چنتے ہوئے دعا کرتے ہیں
رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ وَ اَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَ تُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُo (البقرہ2 : 128)ا

اےرب! ہم دونوں کو مسلم (مطیع فرماں ) بنا۔ ہماری نسل سے ایسی قوم اُٹھا جو تیری فرماں بردار ہو، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا، اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

اللہ السمیع، خلیل اللہ کی دعا قبول فرماتا ہے اور ابراہیمؑ کے فرمانبردار بیٹے ذبیح اللہ اسماعیل علیہ السّلام کی نسل سے عبدالمطلب کے بیٹے عبداللہ کے گھر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوتی ہے،
بقول شاعر
ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا
دعائے خلیل اور نوید ِمسیحا
محمد صلی اللہ علیہ وسلم دونوں جہانوں کے لئے باعث رحمت ٹھہرتے ہیں،
مصائب جھیلتے ہیں،، لوگوں کے ساتھ اللہ کے دین کی سربلندی کیلئے کہیں مناظرہ تو کہیں جنگ و قتال ہوتی ہے ،علم اور حلم کے ساتھ اللہ کے دین کا عَلم بلند کرتے ہیں
بالآخر اللہ کا دین، دین ِابراہیمی ٹھہرتا ہے۔

ایک اللہ کو پوچنے والے ابراہیمؑ کا دین۔۔بےخطرآگ میں کودنے والےابراہیم      کا دین

، اپنی اولاد کو بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑنے والے ابراہیمؑ کا دین،

اپنی اولاد کی قربانی دینے کیلئے رضامند ہوجانے والے ابراہیمؑ کا دین،،

نبی کریم صلی الله عليه وسلم کو اپنے جد ِابراہیمؑ سے بے پناہ انسیت و محبت و عقیدت تھی یہی وجہ تھی کہ آیات درود شریف
ان اللہ وملئکتہ یصلون علی النبی
یاایھالذین آمنو صلو علیہ وسلمو تسلیما (احزاب۔56)
کے نزول کے بعدجب اللہ کریم نے درود شریف کو اپنی سنت بناکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑائی دنیا پر ثابت کردی کہ بے شک اللہ تعالی اور اسکے فرشتے نبی پر صلوۃ بھیجتے ہیں
اے لوگوں جو ایمان لائے ہو تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔
تو قربان جائیے میرے آقا حضرت محمد مصطفی کی عاجزی پر۔۔

جب صحابہ نے عرض کیا کہ ہم آپ پر کن الفاظ میں صلوۃ بھیجیں تو میرے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا
کہ یہ کہو کہ اے اللہ اس طرح صلوۃ بھیج محمد پر اور انکی آل پر جیسے کسی پر نہ بھیجی ہو
بلکہ کمال عاجزی سے کہا
یوں کہو
اللہھم صلی علی محمد وعلی آل محمد
کما صلیت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید
اللھہم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید

یعنی اے اللہ محمد اور انکی آل پر ایسے رحمتیں بھیج جیسے ابراہیم اور انکی آل پر بھیجی تھیں ۔۔

غور کیجیے پُر حکمت لفظوں اور انکی گہرائی پر۔۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابراہیمؑ جیسی رحمتیں اور برکتیں اپنے اور اپنی آل کیلئے طلب کررہے ہیںیعنیایک اور ایسی قربانی طلب کررہے جو رہتی دنیا تک یاد کی جائے، پھر سے ایک ذبح عظیم چاہتے ہیں اور اب کی بار اسماعیل کے بعد حسین کو فرمانبرداری کے اعلی منصب پر قائم کرنا چاہتے ہیں۔
رب کریم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کو پورا کیا اور
جس  طرح ابراہیم علیہ السلام کی آل کو بچاکر انکی قربانی قبول فرماکر انکے ذکر کو رہتی دنیا تک کے لئے قائم کیا،بالکل اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل کی قربانی سے اسلام کو بچاکر انکے ذکر کو رہتی دنیا تک کے لئے قائم کردیا۔
یعنی ابراہیم وًمحمد دونوں سے انکی آل کی قربانی قبول کی گئی۔
سلامُْ علٰی ابراہیم

سلامُْ علٰی اسماعیل

سلامُْ علٰی محمد

Advertisements
julia rana solicitors

سلامُْ علٰی حسین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply