فیض مطالعہ۔۔ایس معشوق احمد۔

انسان نے تفریح کی خاطر  مختلف ادوارمیں مختلف شوق اختیار کیے ۔کبھی انسان غم غلط کرنے کے لیے تلوار بازی میں اپنے کرتب دکھایا کرتا تھا تو کبھی شکار کے پیچھے بھاگ دوڈ کرنے میں لطف کشید کرتا تھا۔گھڑ دوڈ یا گھڑ سواری  اور دیگر کھیل بھی شوق کی تسکین کے لیے کھیلے جاتے تھے۔جب سے انسان  کے ماتھے  سے جنگلی اور وحشی کی پٹی ہٹا کر اس کی پیشانی  پر مہذب ہونے  کا لیبل لگایا گیا تب سے اس کے شوق،کھیل اور تفریح کا سامان بھی بدل گیا۔پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اس نے ایسے  نئے مشغلے ایجاد کئے جو اس کی تفریح کا سبب بنے۔جہاں بہت سارے شوق اور مشغلے رائج تھے وہیں کتاب بینی اور مطالعے کا شوق بھی ایک خاص طبقے اور مخصوص فکر کے لوگوں میں عام تھا۔جن لوگوں کو سیکھنے ،جاننے، نئی دنیاؤں کی جستجو کرنے کی تڑپ  رہی انہوں نے ہی مطالعے کا راستہ اختیار کیا۔اس راہ پر چل کر انہیں منزل کے ساتھ ساتھ نام او ر شہرت ملی،اور ان کے نام تاریخ میں امر ہوئے۔۔مطالعہ نہ صرف شوق کی تسکین کے لیے کیا جاتا تھا بلکہ معلومات اور نئی دنیا کی جستجو ،کھوج اور تلاش کے لئے بھی کیا جاتا تھا۔

موجودہ دور میں علمی انحطاط و قحط الرجال کا بڑا سبب مطالعے سے عدم مناسبت اور کم دلچسپی ہے۔ ہر کام کو انجام دینے کے کچھ اصول وقواعد ہوتے ہیں۔مطالعہ کرنے کے بھی اپنے اصول  و ضوابط ہیں۔مطالعہ اگر بے  ترتیب ،خردہ مردہ اور بنا مربی و رہبری کے کیا جائے تو فائدہ نہیں دیتا۔رہنما کے بغیر مطالعہ مضر اور خطرناک ہے۔علمی تشنگی، طلب اور تڑپ کو صحیح سمت دینے کے لیے رہنما ضروری ہے تاکہ وقت اور صحت کو بچایا جا سکے اور وسائل کا زیاں اور جسمانی طاقت کا نقصان نہ ہو۔مطالعہ کی راہ میں روکاٹیں بھی آتی ہیں۔سستی ،کاہلی ، بے توجہی اور غیر سنجیدہ طبعیت والے کو اگر مطالعے کی اہمیت کا علم ہوجائے تو وہ کاہلی اور سستی کو چھوڑ کر مطالعے میں ہمہ وقت غرق رہے۔

ہمارے اسلاف آج بھی  اس لیے زندہ ہیں کہ انہوں نے اذیتیں سہیں  اور تکلیفیں اٹھائی۔وہ ہر وقت مطالعے میں غرق رہتے تھے۔جہاں انہیں موقع ملتا کچھ نہ کچھ پڑھ لیتے تھے۔حضرت امام حسن بصری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ” مجھ پر چالیس سال اس حال میں گزرے ہیں کہ سوتے جاگتے کتاب میرے سینے پر رہتی تھی.”حضرت عبد اللہ علیہ الرحمہ کے بارے میں روایت ہے کہ انہوں نے سب سے ملنا جلنا موقوف کر دیا تھا اور قبرستان میں رہنے لگے تھے۔ہمیشہ ہاتھ میں کتاب رہتی تھی۔فرماتے تھے کہ ” میں نے قبر سے زیادہ واعظ ، کتاب سے زیادہ دلچسپ رفیق اور تنہائی سے زیادہ بے ضرر ساتھی کوئی نہیں دیکھا”.حضرت خطیب بغدادی علیہ الرحمہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ چلتے چلتے  بھی مطالعہ کیا کرتے تھے تاکہ آنے جانے کا وقت ضائع نہ ہو۔ابو الوفابن  عقیل علیہ الرحمہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کھانے کے وقت کو مختصر کرنے کی کوشش کرتے۔اکثر روٹی کے بجائے چورہ پانی میں بھگو کر استعمال کرتے تاکہ مطالعہ کے لیے زیادہ وقت بچ جائے۔امام ابن جوزی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میری طبعیت کتابوں کے مطالعے سے کسی طرح سیر نہیں ہوتی تھی۔جب کسی نئی کتاب پر نظر پڑ جاتی تو ایسا محسوس ہوتا کہ کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا ہے۔حکیم ابو نصر الفارابی فرماتے ہیں کہ ’’تیل کے لیے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے میں رات کو چوکیداروں کی قندیلوں سے کھڑے کھڑے کتاب کا مطالعہ کرتا تھا‘‘۔ امام زہری ؒ کے مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ ادھر اُدھر کتابیں ہوتیں اور اُن کے مطالعہ میں ایسے مصروف ہوتے کہ دنیا و مافیہا کی خبر نہ رہتی، بیوی اُن کے اس عادت سے سخت پیچ و تاب کھاتی ، ایک دفعہ بیوی نے بگڑ کر کہا، ’’اللہ کی قسم یہ کتابیں مجھ پر تین سوکنوں سے زیادہ بھاری ہیں۔

موجودہ دور میں وہ غور و فکر کرنے والے،مدبر ، عالم نہیں رہے جن کی بات قابل قدر اور آب زر سے لکھنے کے قابل ہوا کرتی تھی کیونکہ مطالعہ معدوم ہوگیا ہے۔اب ہم کتاب پڑھنے سے کتراتے ہیں۔فضولیات کے لیے ہمارے پاس بہت وقت ہے،لغو باتوں کو ہم مزے لے لے کر سنتے ہیں لیکن  جس سے ہماری زندگی سنورتی ،اخلاق درست ہوتے ان  کتب کو پڑھنے کی ہمیں فرصت نہیں۔ہمارے اسلاف مطالعہ کی بدولت مختلف علوم و فنون سے واقفیت رکھتے تھے۔مطالعہ کی برکت سے ہی وہ کامیاب و کامران ہوئے اور آج بھی تاریخ  میں  زندہ ہیں۔مولانا حبیب خان شیروانی صاحب لکھتے ہیں۔” امام زہری ہوں یا امام مزنی، حکیم فارابی ہوں یا شیخ الرئیس ان کے علمی کمالات کی بنیاد مطالعہ کی ہی کثرت تھی کہ ایک ایک کتاب کو سو سو بار پڑھتے اور پچاس پچاس برس دیکھتے تھے”۔

مطالعہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اچھی سوچ اور مثبت خیال سے کتاب کو پڑھا جائے تاکہ اپنے آپ کو نئی معلومات، نئی باتوں اور نئے خیالات سے مزین کر سکے۔مطالعہ سے نہ صرف معلومات میں وسعت آتی ہے بلکہ یہ حافظے کو  بھی تیز کرتا ہے۔یاداشت کو تیز کرنا ہو تو مطالعے سے بڑی دوا کوئی نہیں۔حضرت امام محمد بن اسماعیل بخاری  علیہ الرحمہ سے عرض کی گئی کہ حافظے کی دوا کیا ہے۔آپ نے ارشاد فرمایا  کتب بینی۔گویا کتب بینی سے حافظہ درست ہوتا ہے۔

آج کے تیز رفتار دور میں جہاں سائنسی ایجادات سے انقلاب برپا ہوا  وہیں کتب و رسائل ،اخبار و جرائد کی بھی بہتات ہیں۔آئے روز مختلف موضوعات پر ہزاروں کتابیں چھپ کر سامنے آتی ہیں۔ ان ہزاروں کتب میں کون سی کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے جو مفید ہو ،معلوماتی ہو، جینے کا ڈھنگ سکھاتی ہو، عادات و اطوار کو درست کرتی ہو اور فردیت کو جلا بخشتی ہو، کا چناؤ کرنا  بڑا مشکل کام ہے کیونکہ بعض کتابوں سے شخصیت پر برا اثر  پڑتا ہے۔بد اخلاقی ،بدتہذیبی اور بے حیائی پھیلاتی ہے۔ اچھی کتاب نہ صرف انسان کی بہترین دوست ہے بلکہ اس کے علم و ہنر میں اضافہ اور ذہینی استعداد کو نکھارتی ہے۔کتاب انسان کو خود آگاہی  کا درس دینے کے ساتھ ساتھ  گردو پیش کے حالات و واقعات سے آگاہ کرتی ہے۔مطالعہ کرنے کے لیے کون سی  کتب کا چناؤ کرنا چاہیے اس بارے میں مبتدی کو  صلح و مشورہ کرنا  چاہیے۔ میکالے کا قول ہے کہ ’’وہ شخص نہایت ہی خوش نصیب ہے جس کو مطالعہ کا شوق ہے، لیکن جو فحش کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے اس سے وہ شخص اچھا ہے جس کو مطالعہ کا شوق نہیں‘‘۔ مشہور انگریز شاعر شیلے کہتا ہے، ’’مطالعہ ذہن کو جلا دینے کے لیے اور اس کی ترقی کی لیے بہت ضروری ہے‘‘۔  ابراہم لنکن کا خیال ہے کہ  ’’کتابوں کا مطالعہ دماغ کو روشن کرتا ہے‘‘۔ والٹیئر کا قول ہے، ’’وحشی اقوام کے علاوہ تمام دنیا پر کتابیں حکمرانی کرتی ہیں‘‘۔ رینے ڈیس کارٹیس کہتا ہے کہ، ’’تمام اچھی کتابوں کا مطالعہ کرنا ایسے ہی ہیں جیسے ماضی کی بہترین اشخاص کے ساتھ گفتگو کی جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مطالعہ کرنے سے کثیر فوائد اور عظیم منافع ہوتے ہیں۔ایک تعلیم یافتہ معاشرہ مطالعہ  کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا۔ مطالعہ نہ صرف معلومات کے لیے ضروری ہے بلکہ سوچ و فکر کو بیداری کرنے اور کامیابی کے لیے بھی اشد ضروری ہے۔اگر انسان مطالعے کی برکت اور رحمت سے فیضیاب نہ ہوتا تو اتنی علمی ترقی کے سمندر میں نہ ہوتا بلکہ ساحل پر تماشہ دیکھ رہا ہوتا۔انسان کی کامیابی اور کامرانی کا راز مطالعے میں ہی مضمر ہے۔

Facebook Comments