ادھورے پَن کی اذیت۔۔۔فوزیہ قریشی

آج میں جس مخلوق پر قلم اٹھا رہی ہوں ان کی مدد نہ معاشرہ کر سکا اور نہ اس مسئلے کا حل پیر، فقیر، وزیر اور سائنسدان ڈھونڈ سکے۔
کہنے کو یہ مرد ہوتے ہیں لیکن ان کی روح زنانہ ہوتی ہے۔ ان کے ساتھ جو رویہ معاشرہ روا رکھتا ہے اسے دیکھ کر ہر حساس دل کو دکھ ہوتا ہے لیکن ان کے لئے کر کوئی کچھ بھی نہیں سکتا۔
جب ان کی روح اظہار کرنا چاہتی ہے تو یہ کہیں بھی، کبھی بھی کُھل کر اظہار کر لیتے ہیں۔

بچپن میں ان کے اظہار کو بچے کا ٹیلنٹ سمجھ کر پذیرائی ملتی ہے لیکن جب اسی ٹیلنٹ کا اظہار یہ لوگ آئے دن کرنے لگتے ہیں تو ان کے گھر والے، بہن بھائی ، ماں باپ اور رشتے دار ان کو اون کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ پھر معاشرے میں بنی اپنی ساکھ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ان کو گھر سے ہی نکال دیتے ہیں ۔ اکثر ان کے قبیلے کے افراد خود آکر ان کو لے جاتے ہیں۔

کچھ مائیں مجبوری میں اور کبھی کبھی شوہر کے پریشر اور معاشرے میں جگ ہنسائی سے بچنے کے لئے بھی ایسے قدم اٹھاتی ہیں ۔ورنہ ماں کے لئے جگر گوشوں کو سینے سے الگ کرنا کب اتنا آسان ہوتا ہے؟

یہ منفرد کیوں ہوتے ہیں؟
کبھی کوئی یہ نہیں سوچتا اور نہ ہی کوئی ان بیچاروں کی مدد کرتا ہے۔۔۔ان کی نفسیات کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی جاتی۔ایسے بچے بچپن سے ہی لڑکیوں کے ساتھ کھیلنا پسند کرتے ہیں۔ چھپ چھپ کر میک اپ کرنا ، زنانہ لباس پہننا اور ناچ گانے میں دلچسپی لینا ان کے مشغلے ہوتے ہیں۔
گھر والے سختی کریں تو گھر سے بھاگ جاتے ہیں۔ گھر والے ان کی حرکات اگنور کریں تب بھی یہ کہیں نا  کہیں، کسی نا کسی وقت اپنی روح کو سر شار کر ہی لیتے ہیں لیکن اس کا خمیازہ انہیں اپنوں اور غیروں کے طنزیہ جملے سن کر بھگتنا پڑتا ہے۔ محلے والے ان کو ہیجڑا کہہ  کر پکارتے ہیں۔ ان کے اپنے ہی ان سے آنکھیں چرانے لگتے ہیں۔ ان کے ساتھ چلنے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔
ان پر روک ٹوک کرتے ہیں اور تنگ آکر ان کو گھر سے نکال دیتے ہیں۔

یہ چاہ کر بھی ڈھول کی آواز پررقص سے  خود کو روک نہیں پاتے، میوزک کی دُھن  اور  آواز پر ان کے جسم خود بخود تھرکنے لگتے ہیں ۔
ویسے تو ہمارے معاشرے میں ڈانس کو ایک فن سمجھا جاتا ہے لیکن ان کے معاملے میں ہم بھول جاتے ہیں کہ اس فن پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے۔ ہم لوگ ان کے اس فن کو مارنے کی بھرپور عملی کوشش کرتے ہیں۔ جس کےنتیجے  میں یہ لوگ بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ کسی زمانے میں یہ لوگ بچے کی پیدائش پر اپنے فن کا مظاہرہ کرکے روزی روٹی کماتے تھے لیکن اب یہ سلسلہ بھی بند ہو چکا ہے۔ الماس بوبی نے اپنے قبیلے کو ان کا مقام دلانے کے لئے بہت کوشش کی ہے ۔کچھ حد تک وہ کامیاب ہوئی ہیں لیکن ابھی بھی ان لوگوں کو ان کا حق نہیں مل سکا۔ تعلیم ان کا بنیادی حق ہے لیکن ہمارے ہاں سکول بھی ان بچوں کو قبول نہیں کر  تے اور نہ ان کے لئے مخصوص سکول ہیں کہ یہ تعلیم حاصل کر سکیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

باہر کے ممالک میں ایسے لوگوں کے لئے مخصوص سکول ہیں۔ زندگی کے ہر موڑ پر سہولتیں ہیں لیکن تھرڈ  ورلڈ ممالک میں ان کی حیثیت ایک بے زبان جانور کی سی ہے۔ فارم پر صرف دو خانے ہوتے ہیں مرد اور عورت کا اور ان بیچاروں کے لئے کوئی خانہ نہیں ہوتا ۔
ایسے میں یہ کہاں جائیں ؟
کیا کریں؟
تنگ آکر وہ سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں ۔ کبھی کبھی چند روپوں کی خاطر یہ بہت سارے  مردوں کی جنسی ہوس کا بھی نشانہ بن جاتے ہیں،اور کوئی قانون کوئی انہیں انصاف مہیا کرنے والا نہیں ۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply