طوفان میں شجر ۔۔نجم السَّحر

اُف کتنا خوبصورت موسم ہے۔ کتنی شدید گرمی تھی ۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے تک   جیسے سورج کی ہر کرن   جسم پر رینگ رہی ہو، ننھی چنگاریوں کی صورت ، روم روم میں چھالے کی طرح سے پھوٹ پڑنے والی گرمی ۔ وہ حبس کہ سانس لیے جائے نہ بنے ۔ اور ہر سانس پھیپھڑوں میں دھواں جیسے۔ ۔ کتنی دعائیں مانگی تھیں   یا رب اَبر ہو ،  برسات ہو ۔ کچھ دیر کو ہی سہی ٹھنڈی  ہوا چلے ۔ پھر جیسے قدرت نے سن لی تھی وہ دعا، جس کا ختمِ سوا لاکھ   جانے کتنے لاکھوں بار کیا ۔ موسم نے انگڑائی لی ، کرنوں کو لپیٹ  سمیٹ دیا ۔ ٹھنڈی ہوا نے حبس سے بھی  پھر جم کے دو دو ہاتھ کیے ۔ دور کنارے آسمان پہ سرمئی آنچل کھلتا دیکھ   میرے ننھے پودے جھوم اٹھے ، درخت جھوم اٹھے ، گلی میں نکل آئے محلے کے سب بچے   ہنستے کھیلتے گاتے بچے ۔ اللہ میاں پانی دے سو برس کی نانی دے ۔ اونچا اونچا پکارتے بچے ۔ کبھی ہلکی پھوار کبھی تیز پھوار ۔۔ کبھی تیز بارش کی ترچھی بوچھاڑ،۔ کہیں پکوڑوں کی خوشبو ، کہیں کسی کھڑکی پر نگاہ جمائے   وه محلے کا بگڑا ہوا سا لڑکا ، جو کسی روز ذمہ داریوں کی باریک کنگھی سے گزر کر سلجھ ہی جائے ،سُدھر ہی جائے ، لڑکے سے مرد بن جائے ۔ ممکن ہے اس کے مزاج میں پھر یہ شوخی ، بے فکری نہ رہے ۔ کھڑکی کے اس پار وہ رنگین اجالا شاید اسے مل بھی جائے ۔ اس خوشیوں بھرے منظر کے بیچ   کوئی تھا جو زیادہ خوش نہیں تھا ۔ میری گلی کا بڈھا دینوں چاچا ۔ دور کونے میں خاموش کھڑا تھا ۔ آسمان کو دیکھ رہا تھا ۔ اس کی پیشانی پہ فکر کی گہری لکیر تھی ۔ رحم کی دعا مانگو ۔ پناہ مانگو ۔۔ سب اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ ۔ چھپ جاؤ کہیں ۔ وہ بار بار یہ کہتا تھا ۔ اس بدلاؤ سے دھوکا نہ کھاؤ ۔ میں نے جہاں ہے دیکھا میری بات مان جاؤ ۔ موسم تو آخر موسم ہے کب کس کا اپنا ہوتا ہے ۔ ہر موسم کا قہر جدا ہوتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دیکھتے دیکھتے چھا گیا اندھیرا ۔ سیاہی سالم نگل گئی سویرا ۔ اب ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے ، راہ نجات دکھائی نہ دے ۔ وہ جھکڑ وه کہرام رہا ،رات بھر طوفان رہا ۔ کہیں موت کے سناٹے ہیں ۔ کہیں اذیتوں کی چیخ پکار ۔ یوں لگتا ہے جیسے کہ یہ طوفاں لے جائے گا اپنے ساتھ  ہر سایہ دار درخت اکھاڑ ۔ تھوڑی دیر کو یہ طوفان رکا تو   میں باہر اپنے لان میں آئی ۔ ہائے میرا نارنجی پھولوں والا درخت ۔ میری آرائشی بیل کا سہارا درخت ۔ سارا سال پھولوں سے لدا رہتا تھا ۔ پھلتا پھولتا کھلتا درخت ۔ اس پر تو کوئی بھی دیمک بھی نہ تھی ۔ اتنا تو کمزور نہ تھا ۔ طوفان میں آدھا ٹوٹ گیا ۔ ہائے یہ کیسے ٹوٹ گیا ۔ بڈھا دینو چاچا بالکل ٹھیک کہتا تھا ۔ یہ طوفان لے جائے گا ہر سایہ دار درخت اکھاڑ ۔ میں روتے روتے خود سے بولی ، اُف ۔۔۔ مضبوط درختوں کا یہ حال ہے ۔ تو طوفان نے نازک پودوں کلیوں پر کیا قیامت توڑی ہوگی ۔ یہ سوچتے ہی دل ڈوب گیا ۔ ہر طرف سے اک شور سنائی دیتا ہے ۔ خبر نہیں یہ احتجاج ہے یا نوحے ہیں ۔ جانے کل کے طوفاں نے کتنے شجر توڑے ہونگے ۔ کتنی کلیاں مسلی ہونگی ۔ سیاہ بادل پھر آ رہے ہیں ۔ نجانے اب کتنی تباہی ہوگی ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply