موت کا خوف اس وقت تک رہتا ہے جب تک اس سے آنکھیں چرائی جائیں، اس سے بھاگا جائے، پھر بھی موت تو آ جاتی مگر مرنے والے کو مرنے سے پہلے مار کے، یہ موت بھاگنے والے کو بھگا بھگا کے مارتی ہے، ذلیل و رسوا کرتی ہے، جب خوف کا مارا بھاگتا بھاگتا منہ کے بل گرتا ہے، سر خاک آلود ہوتا ہے تو یہ رک کے پھر سے کھڑے ہونے کا انتظار کرتی ہے اور خوف کا مارا پھر بھاگتا ہے یوں ہی بھاگتا بھاگتا، گرتا ہانپتا، مٹی میں رُلتا، ذلیل و رسوا ہوتا ،آخر کار موت کے منہ میں جا گرتا ہے۔
موت کو ہرانا ہو یا موت کے خوف کو تو اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا پڑتی ہیں، اپنے خوف سے لڑنا پڑتا ہے، غیرت کو جگانا پڑتا ہے، سر کو اٹھانا پڑتا ہے، ذرا کر کے تو دیکھیے۔ جیت ، ہار بے معنی ہو جائے گی، آپ جیت کر بھی فاتح ہوں گے اور ہار کر بھی فاتحین میں لکھے جائیں گے ، دنیا جانے اور مانے گی!
یہ سب کچھ لکھتے ہوئے نجانے کیوں میرے ذہن میں افغان طالبان کی پگڑیوں میں ادھ چھپی پیشانیاں اور ان کے شیڈ سے جھانکتی تیز ، کرخت ، پُرعزم اور عقابی نگاہیں گھوم رہی ہیں۔ ایسی آنکھیں جن سے نظریں ملاتے ہوئے امریکی جرنیلوں کی ٹانگوں کی کپکپاہٹ کو درمیان میں موجود میز ڈھکے ہوئے، چھپائے ہوئے ! امریکن جرنیلوں کو ایک میز نے اتنا فائدہ کبھی بھی نہیں پہنچایا ہوگا اس سے پہلے!
خیر!یہ موت آپ کے حواس پر حاوی ہو جائے گی، یہ خوف ڈر آپ کی آنکھوں میں موت سی تاریکی اتار دے گا، جب جب بھی آپ اس سے بھاگیں گے، اچھا صرف موت سے ہی نہیں، موت کا خوف لانے والی ہر ہر چیز مادی ہے جو خوف جنتی ہے اپنی اپنی جگہ بھی!
طاقت یا دولت کے چھن جانے کا خوف۔
اکیلے رہ جانے کا خوف۔
عیش و آرام جانے کا خوف۔
گھر باہر لٹ جانے کا خوف۔
گاڑی کی گداز سیٹ ، پاؤں میں چبھنے والے کانٹے کا خوف پیدا کر دیتی ہے۔
فلی فرنشڈ ائیر کنڈیشنڈ کمرے، کھنڈروں سے، چھن کر آتی جھلساتی دھوپ سے ڈراتے ہیں!
میلوں کو منٹوں میں ختم کرتے یہ جہاز یہ پرائیویٹ جیٹ چیخ چیخ کر بتاتے ہیں کہ یہ ناتواں ٹانگیں تپتی ہوئی دھوپ میں سوکھے ہونٹوں سے میلوں چلنے کے قابل نہیں ہیں!
منرل واٹر، کولڈ ڈرنک اور شراب، گرم گدلے پانی کی سوچ سے ہی ہونٹوں پر کپکپاہٹ طاری کر دیتیں ہیں!
شراب و شباب میں ڈوبی رنگین راتوں کی عادی ہڈیاں، سرد ٹھٹھرتی رات میں بھوکے پیٹ اور کاٹ کھانے والی تنہائی کے تصور سے ہی کڑکڑانے لگتی ہیں!
یہ سب لکھتے ہوئے، نجانے کیوں بطور مسلم بطور امت میری نظر بار بار آئینے کی طرف اٹھ رہی ہے، اس آئینے میں چہرہ ہے، لیکن بغیر آنکھوں کے! مگر نہیں آنکھیں تو ہیں پر ان میں روشنی نہیں یا شاید روشنی ہے مگر بجھی ہوئی ۔ہاں ہاں یہ تاریکی ہے موت کی سی تاریکی اور خوف کی تاریکی ۔ اس آئینے میں بزدلی ہے، خوف ہے، بے چارگی ہے، مذمتیں ہیں، چیخیں ہیں، سسکیاں ہیں، جھنجھلاہٹ ہے، ہچکچاہٹ ہے، گھبراہٹ ہے، منت اور سماجت ہے، چاپلوسی کے نظارے ہیں، قاتل کو پہنایا جانے والا ہار ہے، عزتیں نوچنے والوں کے سروں پر سجایا گیا تاج ہے، پٹی چڑھی آنکھیں ہیں، سلے ہوئے ہونٹ ہیں، بندھے ہوئے ہاتھ ہیں، جھکی ہوئی گردنیں ہیں، مفاد کے سودے ہیں، خوف سے بندھے ہیں، یہ سب۔۔۔ یہ سب ہے اس آئینے میں جس کے سامنے میں بطور امت کھڑا ہوں!
جاری ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں