• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کی خلاف ورزی کا اصل ذمہ دار کون؟۔۔۔۔شیر علی انجم

گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کی خلاف ورزی کا اصل ذمہ دار کون؟۔۔۔۔شیر علی انجم

پانچ اگست2019کو مودی سرکار کی جانب سے جموں کشمیر لداخ کی خصوصی حیثیت سے متعلق ہندوستانی آئین کی دو اہم شقوں  کے خاتمے کے بعد اور مورخہ 12 اگست 2019 کو پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے مظفر آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے گلگت بلتستان کو کسی قسم کا صوبہ بنانے کی کوششوں سے انکار پر گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ کا مطالبہ اس وقت سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا ہے۔ ہر کوئی یہی سوال اُٹھا رہا ہے کہ گلگت بلتستان میں اسٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی سب سے پہلے کس نے کی؟ اور کون اس کام کو انجام دینے کیلئے کلہاڑی کے دستے کے طور پر استعمال ہوئے۔

لہذااس حوالے سے اگر ہم ماضی میں پلٹ جائیں تو اس قانون کی خلاف ورزی میں گلگت بلتستان کے مذہبی اکابرین کا ہی ہاتھ نظر آتا ہے۔ کیونکہ یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ 1956 میں سکندر مرزا کے دور میں اُس وقت کو پولیٹیکل ایجنٹ سردار جان محمد خان نے ایک سازش کے تحت اُس وقت کی  کچھ مقامی مذہبی شخصیات مرحوم آغا برمس اور مرحوم مولوی گلمتی کو اعتماد میں لیا۔ حالانکہ یہ دونوں شخصیات اس حوالے سے مجازاتھارٹی نہیں تھے لیکن اُن کے سامنے گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی کیلئے دلیل پیش کی کہ اس قانون کی وجہ سے گلگت بلتستان میں ترقی اور تعمیر کا دروازہ ہمیشہ بند رہے گا کیونکہ جب تک باہرسے لوگ کاروبار کیلئے یہاں نہ آئے گا تو یہاں کاروبار کیسے ہوگا نظام زندگی کیسے چلے گی۔

اُس وقت بھی چونکہ لوگ قلیل تعداد میں اپنے حقوق کیلئے متحرک تھے اُن میں کشروٹ سے تعلق رکھنے والے مرحوم غلام محمد غون جو اُس وقت قوم پرست لیڈر ہوا کرتے تھے۔ اُنہوں نے اس فیصلے کے خلاف ٹھیک ٹھاک مزاحمت کی، اُنہیں مزاحمت پر پولیٹیکل ایجنٹ کے زرخرید مقامی افراد کی جانب سے مارنے پیٹنے اور سٹیٹ سبجیکٹ ختم کرنے کی خبروں پر گلگت میں لوگوں نے احتجاج کرنے کے واقعات اورجس کے نتیجے میں چھ سے زیادہ لوگوں کی گرفتار ی اور عوام کا جیل کو توڑنا جیسے افسوناک واقعات پیش آنا  بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ آگے جاکر ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں متنازع  حیثیت  کےباوجودسٹیٹ سبجیکٹ رول کی خلاف ورزی پر عملی کام شروع ہواجس کے تحت 1974 میں اُس وقت کے ڈی سی نے حکم دیا کہ جن بھی غیرریاستی باشندوں نے گزشتہ پانچ سالوں میں گلگت بلتستان کے اندر زمین خریدی ہے وہ یہاں کا ڈومیسائل حاصل کرسکتےہیں۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسکندر مرزا کے دور میں راہ ہموارکرکے بھٹو کے دور میں خلاف ورزی کا باقاعدہ آغاز کرد۔

لیکن اس کے باوجود ریاست پاکستان گلگت بلتستان میں اسٹیٹ سبجیکٹ کی موجودگی کا اعلان بھی کرتے رہے ہیں اور دفتر خارجہ کی طرف سے تازہ ترین بیان جمعہ 5اپریل 2019 کی بریفنگ میں آیا جب صحافی کے سوال پر دفتر خارجہ کے ترجمان نے گلگت بلتستان میں  یہ قانون نافذ ہونے کا دعویٰ کیا لیکن عملی طور پر خلاف ورزی ہورہی ہے ۔

اسی تناظر میں چند ماہ قبل شدید عوامی مطالبے کو دیکھ کر موجوہ وقت میں مسلم لیگ ن میں شامل  سپیکر گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی فدا محمد ناشاد نے اخبار ی بیان دیا کہ سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی قانون ساز اسمبلی میں ایک قرارداد سے رُک سکتی ہے۔ یہی وجہ ہےقانون ساز اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کپٹن ریٹائرڈ محمد شفیع خان اور دیگر اپوزیشن اراکین قوم پرست رہنما نواز خان ناجی او ر پیپلزپارٹی کے ممبر اسمبلی جاوید حسین کی جانب سے گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی روکنے کیلئے سمری تیار کی گئی ،جسے باقاعدہ طور پر اسمبلی میں زیر بحث لانے کیلئے ہاؤس ایڈوائزی کمیٹی کے سامنے پیش کیا گیا۔ لیکن میڈیا رپورٹ کے مطابق ایڈوائزی کمیٹی میں اس بل کی سب سے پہلے مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے اسپیکر گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی فدا محمد ناشاد اور مسلم لیگ ن کے وزیر قانون اورنگزیب خان اور ایم ڈبلیو ایم سے تعلق رکھنے والے ممبر اسمبلی حاجی رضوان نے دیگر ممبران کی رائے لئے بغیر ہی بل کو غداری قرار دیکر مستردکردیا ۔

ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ آج یہی لوگ جموں کشمیر لداخ میں آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35A کی خاتمے پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر کی سب سے بڑی اکائی ہے اور ہمارے عوام کا اس خطے کو پاکستان میں شامل کرنے کیلئے مطالبات کے باوجود ریاست کا قومی بیانیہ یہی ہے کہ گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہے لیکن قوانین پہلے جموں کشمیر لداخ اور آزاد کشمیر سے مختلف تھے اور آج آزاد کشمیر سے مختلف طور پر لاگو ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لہذا وقت کا تقاضا ہے کہ گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزیوں کو روک کر ہندوستان کو سفارتی محاذ پر شکست دیں کیونکہ اس وقت ہندوستانی میڈیا گلگت بلتستان کے مسئلے کو لیکر مسلسل ٹاک شوز اور خبر نشر کرکے دنیا کو یہی بتا رہا ہے کہ جو کام ہم نے آج کیا وہی کام پاکستان نے گلگت بلتستان میں دہائیوں پہلے کی ہوئی ہے۔ اس وقت اگر حقیقت کی آنکھ سے دیکھا جائے تو جموں کشمیر لداخ کے حوالے بھارتی آئین کے دو شقوں کے  خاتمے کے بعد مسئلہ کشمیر واپس اقوام متحدہ کے ٹیبل پر چلا گیا ہے اور کل سلامتی کونسل کا اجلاس ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست جموں کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ انگ نہیں بلکہ ایک متنازعہ خطہ ہے اور اس خطے کی قسمت کا فیصلہ یہاں کے عوام نے کرنا ہے۔لہذا مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اس وقت بھارت کمزور پوزیشن پر ہے اور اُنہیں مزید کمزور کرنے کیلئے گلگت بلتستان اس خطے کی متنازعہ حیثیت کے مطابق حقوق دینے کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply