• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • آج 17 اگست ہے- یوم نجات تو ہے مگر نجات نہیں ۔۔۔غیور شاہ ترمذی

آج 17 اگست ہے- یوم نجات تو ہے مگر نجات نہیں ۔۔۔غیور شاہ ترمذی

ایک مشہور پنجابی بند سن لیں:-
جان تیری نوں روندے پئے ہاں
اج وی لاشاں ڈھوندے پئے ہاں-
ساڈی تے کوئی سندا نئیں اے
اپنا رونا روندے پئے ہاں-

آج 17 اگست ہے. اور آج سابق آمر، بانی طالبان, تکفیریت اور تعصبات جنرل ضیاء کا یوم وفات ہے۔ اگرچہ آج کے دن پاکستان کو اس بدترین آمر سے نجات ملی تھی جو نہ صرف پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کا بانی ہے بلکہ اس نے پاکستان کو امریکہ کی گود میں ڈال دیا تھا مگر حقیقت یہی ہے کہ اس آمر کی لگائی جانے والی آگ آج 40 سال بعد بھی اسی طرح بھڑک رہی ہے جیسی یہ 1979ء میں لگائی گئی تھی-

وہ لوگ جو ضیاء الحق کو مرد مومن اور مرد حق کے القابات سے نوازتے ہیں ان کو شاید یہ بات معلوم نہیں کہ ضیاء الحق کے ہاتھ صرف پاکستانیوں, افغانیوں اور ایرانیوں ہی نہیں بلکہ ہزاروں بےگناہ و معصوم فلسطینیوں کے خون سے بھی داغدار ہیں. ضیاء الحق نے اردن میں 25,000 فلسطینیوں کا قتل عام کیا تھا. تاریخ آج بھی اس قتل عام کو بلیک ستمبر کے نام سےجانتی ہے- بلیک ستمبر کے دوران پاکستانی آرمی کے ایک ٹریننگ کمیشن کی قیادت ضیاء الحق کر رہا تھا جبکہ ائیر فورس میں اس کی نیابت ائیر کموڈور محمد خاقان عباسی نے کی تھی-  یہ وہی خاقان عباسی ہیں جو سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے والد تھے اور اوجھڑی کیمپ سانحہ میں اپنے بڑے بیٹے کے ہمراہ ایک آوارہ میزائل کا نشانہ بن کر مارے گئے تھے- جیسے انہوں نے جنرل ضیاء کے ساتھ مل کر بےگناہ و مظلوم 25,000 فلسطینیوں کا اردن میں قتل عام کیا تاکہ فلسطینیوں کا اردن سے صفایا کیا جا سکے- فلسطین میں ان کے برسائے بموں کی طرح یہ پنڈی میں اوجھڑی کیمپ کے آوارہ میزائل کا نشانہ بنے- جنرل ضیاء بھی اسی طرح طیارہ پھٹنے سے بہاولپور کے نزدیک
Image

جل بھن کر مرے- فلسطینی مظلومین کو ظالمانہ طریقہ سے قتل کرنے کا انتقام قدرت نے ان دونوں کی عبرت ناک موت سے اسی طرح لیا جیسے انہوں نے ظلم کیے-

ضیاء الحق نے اردن کی آرمی کو تربیت دی- اردن نے 1970ء میں اسرائیل مخالف فلسطینی فدائیان کو ملک سے نکالنے کا فیصلہ کیا تو یہی آمر جنرل ضیاء الحق تھا جس نے مشن ٹریننگ اور فلسطینیوں کے خلاف جنگی پلان مرتب کیا اور فلسطینیوں کے خلاف ہونے والے آپریشن میں اردن کے سپاہیوں کی قیادت کی- ستمبر 1970 ء کو عربوں کی تاریخ میں بلیک ستمبر کو “افسوسناک واقعات کا دور” بھی کہا جاتا ہے- 15 ستمبر کو اردن کے بادشاہ شاہ حسین نے مارشل لاء لگادیا- اگلے دن پاکستانی اور اردن کی آرمی نے ضیاء الحق کی قیادت میں اومان میں موجود فلسطینیوں کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کیا. آرمی نے فلسطینیوں کے کیمپس اربد، السلط، صويلح، البقعة، الوحدات والزرقاء پر حلمہ کیا جبکہ خاقان عباسی کی زیر قیادت ائیر فورس نے شدید بمباری کی- اس دوران ہزاروں فلسطینیوں کا قتل عام کیا گیا- اسرائیل نے جتنے فلسطینی 20 سال میں مارے تھے, اس سے زیادہ فلسطینی ضیاءالحق نے گیارہ دنوں میں  ہلاک کردئیے- 15 ستمبر  سے لے کر 27 ستمبر تک ظلم کا ایک سیاہ باب لکھا گیا-

اس آپریشن میں من چاہی خوشی کی وجہ سے شاہ حسین کی پرزور سفارش پر بھٹو صاحب نے زندگی کی فاش ترین غلطی کرتے ہوئے جنرل ضیاء کو چیف آف آرمی سٹاف لگا دیا حالانکہ اس کے پیش رو جنرل ٹکا خاں اپنی رپورٹ میں لکھ چکے تھے کہ ضیاء جیسے شخص کو کسی بھی اہم ذمہ داری کے لئے زیرغور نہ لایا جائے- بھٹو صاحب کی اس غلطی کا خمیازہ پاکستان کو بدترین آمریت کی 11 سالہ طویل رات اور بھٹو صاحب کو اپنی جان دے کر ادا کرنا پڑا-

یہ قوم مگر آج بھی اس آمریت کی سیاہیوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے- اپنی مشہور کتاب “Exploding Mangoes” کے لکھاری اور بی بی سی کے صحافی محمد حنیف نے لکھا تھا کہ “تمہاری سڑکوں، چوکوں پر، تمہاری ریڈیائی لہروں پر، تمہارے موبائل فون کی رِنگ ٹون میں، جدھر دیکھو، جدھر سنو، ضیاء زندہ ہے۔ وہ زندہ ہے, تمہارے بچوں کو پڑھائی جانے والی کتابوں میں، ان کو سنائی جانے والی لوریوں میں، تمہارے آئین میں، قانون میں، اس قانون کی حفاظت کرنے والوں کے ضمیر میں، اس قانون کو اللہ کا قانون بنانے کا وعدہ کرنے والے کے دماغ میں وہ زندہ ہے- مسجدوں میں پھٹنے والے سرفروش نوجوانوں کے دلوں میں وہ زندہ ہے- ٹی وی کے ڈراموں میں، ٹی وی ٹاک شو کے میزبانوں میں، ہمارے حلق سے نکلی جعلی عربی آوازوں میں، وہ زندہ ہے- حجابوں میں، نقابوں میں، ہیروئین اور منشیات کی دولت سے بنے محلوں میں، لگژری عمروں میں، حرام کو حلال کرتے بینک اکاؤنٹس  میں وہ زندہ ہے- شادی پہ چلائی جانے والی کلاشنکوف کی آواز میں- وہ چھپا ہے ہر اُس چوک پر جہاں 70 سالہ بڑھیا بھیک مانگتی ہے اور آپ کو حاجی صاحب کہہ کر پکارتی ہے۔ وہ زندہ ہے ہر اس پولیس والے کے سوال میں جب وہ کہتا ہے نکاح نامہ کہاں ہے۔ وہ اپنا خراج مانگتا ہے جب کہتا ہے کہ دوسروں کو کافر قرار نہیں دو گے تو شناختی کارڈ نہیں ملے گا- وہ زندہ ہے اور آسیہ بی بی و پروفیسر جنید حفیظ کی کال کوٹھڑی کا پہرے دار ہے۔ وہ ہر احمدی، ہر شیعہ، ہر ہندو، ہر عیسائی, ہر سکھ کے سر پہ لٹکی تلوار ہے۔ (اب ان میں مزار پر دھمال ڈالنے والوں، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہنے والوں یا ننگے سر نماز پڑھنے والوں کو بھی شامل کر لیں)۔ وہ زندہ ہے تمہارے سیاسی ڈھانچے میں، تمہاری چادر اور چار دیواری میں، تمہارے احتساب میں، تمہارے مثبت نتائج اور پازیٹو خبروں میں، تمہارے نظام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں، تمہارے امتِ مسلمہ کے خواب میں، وہ زندہ ہے تمہارے ہر عذاب میں۔ جب احمد پور شرقیہ کے چنی گوٹھ چوک پر ہزاروں لوگ اکھٹے ہوتے ہیں اور ایک ملنگ پر تیل چھڑکنا شروع کرتے ہیں تو وہ اس ہجوم میں شامل ہر شخص کے دل میں زندہ ہے۔ جب ملنگ کو آگ لگائی جاتی ہے اور وہ چیختا ہے تو لوگوں کی سفاکانہ خاموشی میں سے یہی آواز آتی ہے۔ دیکھو میں زندہ ہوں۔ جنرل ضیاء ایک آسیب کی صورت آج بھی زندہ ہے”-

راقم بھی عرض کرتا ہے کہ “زندہ ہے بھٹو, زندہ ہے” کا نعرہ مستانہ لگانے والو, ذرا دم لو اور غور سے سنو کہ بھٹو نہیں بلکہ اس سمیت لاکھوں پاکستانیوں اور دوسرے ملکوں کے انسانوں کا قاتل جنرل ضیاء زندہ ہے- مگر راقم کو یہ بھی اطمنیان قلب ہے کہ فلسطین کو لہو لہو کروانے والے جنرل ضیاء اور پاکستان کو برباد کرنے کی بنیاد رکھنے والے اس بدبخت آمر کی آمریت اور نحوست کو آشکار کرنے والے بھی آج سب کو اس کے ظلم و بربریت کو بیان کرنے میں آزاد ہیں-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply