مسلم لیگ ن کا مستقبل/نجم ولی خان

اگر مسلم لیگ نون کی قیادت کے پیش نظر صرف اور صرف حکومت کا قیام ہے تو اس میں وہ کامیاب نظر آ رہے ہیں۔ کسی نے خوب کہا، الیکشن آئینی تقاضا  تھے ورنہ یہ الیکشن سے پہلے والی صورتحال کا تسلسل ہے۔ میں میکرو لیول پر بات کروں تو سب کچھ پروگرام اور تجزیوں کے عین مطابق ہے۔ میں نے انہی صفحات پر ایک سے زائد بار لکھا کہ اگر مسلم لیگ نون، نواز شریف کو وزیراعظم بنانے پر بضد رہی تو اسے سادہ اکثریت نہیں ملے گی۔ اکیس اکتوبر کے بعد متعدد بار اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ نواز شریف قومی اور بین الاقوامی صورتحال کے باعث ایک مجبوری ضرور بن گئے ہیں مگر انہیں مکمل اور کامل اقتدار نہیں مل سکتاجس میں سب سے اہم ماضی کا اعتماد کا فقدان ہے۔ مقتدر حلقوں میں بہت سارے یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ میاںنواز شریف اچھے آدمی ہیں مگر وہ اسے نظرانداز نہیں کرتے کہ جب وہ کسی کے بارے میں دل میں نفرت یا تنائو رکھ لیتے ہیں تو معاف نہیںکرتے،ججوں جرنیلوں تک سے ان کی باڈی لینگویج مسائل پیدا کرنے لگتی ہے۔

حالیہ انتخابات میں مسلم لیگ نون کو اس کے مخالف اس سے کہیں زیادہ باندھ کے دئیے گئے ہیں جتنا خود مسلم لیگ نون کو آ ج سے پانچ، چھ برس پہلے باندھا گیا تھا ۔ اجازت دیجئے، میاں نواز شریف کی وکٹری سپیچ سے سنگل لارجسٹ پارٹی ہونے کے دعوے کو ایک طرف رکھتے ہوئے نتائج کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں اگر انتخابی نشان کی بندش نہ ہو تودرحقیقت پی ٹی آئی مخصوص نشستیں حاصل کرنے کے بعد قومی اسمبلی کی سنگل لارجسٹ پارٹی ہے۔ وہ حکومت بنانے کے سب سے زیادہ قریب جا سکتی ہے مگر اس کے راستے کی رکاوٹیں کچھ اور ہیں۔ یہ تشویشناک صورتحال ہے کہ پی ٹی آئی نے لاہور کینٹ میں کور کمانڈر ہاؤ س  کے علاقے سے بھی اکثریت حاصل کی ہے اور الیکشن جیتنے کے باوجود مقامی مسلم لیگی رہنما کے گھر پر حملہ کیا ہے گویا اگر بانی پی ٹی آئی دوبارہ کورکمانڈر ہاؤس پر حملہ کرنا چاہیں تو کینٹ کے داخلی راستوں پر ٹائر برسٹر لگانے کے باوجود انہیں کمک اسی علاقے سے مل سکتی ہے، اب شہر سے بندے لانے کی ضرورت نہیں۔

میں نے الیکشن کے روز بہت سارے علاقوں کے پولنگ اسٹیشن وزٹ کیے۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ پی ٹی آئی کا ووٹر تعداد اور جذبات دونوں میں ہی حاوی تھا۔ میں سیاست اور صحافت کے طالب علم کے طور پر سمجھتا ہوں کہ جامعات کو ان انتخابات پر تحقیقی مقالے کروانے چاہئیں جنہوں نے بہت سارے روایتی تصورات کا دھڑن تختہ کر دیا ہے جیسے ایک شاندار اورتیز رفتار انتخابی مہم کی ضرورت۔ لیڈر شپ کی گرما گرم تقریریں ، ترقیاتی پرگراموں کے وعدے اور پرانے آزمودہ امیدوار۔انتخابی مہم مکمل طور پربیانیے کا دوسرا نام بن کے سامنے آئی ہے اور سیاست ’موجودگی‘، ’ ردعمل‘ اور ’ جارحیت‘ جیسے تین عناصرکے گرد گھوم رہی ہے اور یہ سب کچھ ایک موبائل فون میں سمٹ گیا ہے۔ نواز شریف اخبار کے دور کی سیاست بن کے رہ گئے ہیں جبکہ سیاست الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر پہنچ چکی ہے۔میں نے دیکھا، مسلم لیگ نون کے الیکشن سیل کا سربراہ اس وقت بسم اللہ پڑھ کے کھانا کھانے کی ٹوئیٹ کر رہا تھا جب قوم اس کی طرف انتخابی نتائج اور ان پر ردعمل کے لئے دیکھ رہی تھی۔ نواز شریف اور مریم نواز بھی ماڈل ٹاون سے چلے گئے جو میڈیا ہاؤسز کے لئے بہرحال ایک حیران کن خبرتھی۔ آپ کی موجودگی نہیں تھی۔ آپ کا ردعمل نہیں تھا۔ آپ کی جارحیت نہیں تھی توکوئی آپ کی طرف کیوں متوجہ ہوتا، کیوں ڈسکس کرتا۔ یہ پی ٹی آئی کا کمال تھا کہ فوج کی حمایت کی تو یوتھ کو قائل کیا اور مخالفت کی تب بھی قائل کیا۔ آج کے دور میں اپنے آپ کو درست ثابت کرنے کو ہی بیانیہ کہتے ہیں، چھپ جانے اور معذرت خواہانہ روئیے کو نہیں۔

ایک اور اینگل لیجیے ، آپ نے اپنی انتخابی مہم اپنے پرانے منصوبوں پر چلائی جبکہ نوجوان آگے کی طرف دیکھتا ہے۔ یہ دور مارکیٹنگ کا ہے۔یہ ایسے ہی ہے کہ ایک شخص بہت اچھا پلازہ بناتا ہے مگر اس کی مارکیٹنگ نہیں کر پاتا تو وہ اسے بیچ نہیں پائے گا لیکن دوسری طرف ایک شخص پلازہ بنانے سے پہلے ہی ایسی مارکیٹنگ کرتا ہے کہ تمام دکانیں بیچ کے پیسے جیب میں ڈال لیتا ہے۔یہ نوا ز لیگ اور پی ٹی آئی کا فرق ہے۔ مسلم لیگ نون کے منشور ہی دیکھ لیجئے، ٹھنڈا اورماٹھا، کرنٹ سے پاک، وہ نوجوان نسل کو اپنی طرف راغب کرتا یا غریب عوام کو۔یہ درست وہ عملی تھا مگر نواز لیگ پریکٹیکل از م کے چکر میں ماری گئی۔ پیپلزپارٹی کے منشور میں تین سو یونٹ بجلی فری کرنے سے تنخواہیں ڈبل کرنے تک بہت کچھ تھا۔ پی ٹی آئی کو پتا تھا کہ وہ اقتدار میں نہیں آر ہی مگر کہہ رہی تھی کہ اسمبلی کی مدت چار سال کر دے گی اور وزیراعظم کا انتخاب براہ راست ووٹ سے۔ دوسرے مسلم لیگ نون نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ سندھ ، بلوچستان نہیں جائے گی مگر کیا اس طرح وہ پنجاب میں بھی ٹھہر پائے گی، آئیے اس کو دیکھتے ہیں۔

یہ سٹڈی کر لیجئے پیپلزپارٹی سب سے پہلے شہروں سے ہی نکلی تھی اور پھر پورے پنجاب سے۔پی ٹی آئی نے پہلے لاہور کے پوش ایریاز چھینے تھے ، اب مزاحمت اور مقابلہ روحیل اصغر اور حمزہ شہباز کے حلقو ں تک پہنچ گیا ہے۔ حمزہ شہباز کی جیت پر جشن مت منائیے بلکہ فکر کیجیے۔ اندرون لاہور سے آپ ایک ایسی عورت سے پانچ ہزار ووٹوں سے جیتتے ہیں جو کسی ووٹر کو مل نہیں سکی،اس کا کوئی بینر کوئی پوسٹر تک نظر نہیں آیا، اسے پولنگ ایجنٹ ٹوئیٹر پرڈھونڈنے پڑے اور وہاں جیت سے زیادہ مستردشدہ ووٹ ہیں۔ لاہور سے باہر نکلئے، گوجرانوالہ اور فیصل آباد جہاں آپ نے ترقیاتی کاموں کے ڈھیر لگا دئیے وہاں کیا حال ہوا ۔ یہ مت کہیے  گا ،کہ آپ مارشل لاؤں کے بعد بھی دوبارہ آ گئے تھے۔ اس وقت ایک آمر آپ کا مقابلہ کر رہا تھا مگر اب ایک پولیٹیکل پارٹی آپ کو ری پلیس کر رہی ہے ۔ سچ بتاؤں،وہ پارٹی حکومت نہیں بنانا چاہتی، وہ چاہتی ہے کہ آپ پیپلزپارٹی سے دوبارہ اتحاد کر لیں تاکہ اپوزیشن کا میدان اس کے لئے خالی ہوجائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک سوال کا جواب دیجیے گا کہ نواز شریف اور مریم نواز نے الیکشن مہم کے دوران کتنے جینوئن صحافیوں سے ملاقاتیں کیں۔ میں آپ کے ملازمین اور خوشامدیوں کی بات نہیں کر رہاجو آپ سے یہی کہہ رہے ہیں کہ آپ نے کمال کر دیاجبکہ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ یہ قوم ہمیشہ جدت کو ڈھونڈتی ہے، جارحیت کو ڈھونڈتی ہے۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں اس آکسفورڈ کے پڑھے جاگیردار نوجوان کو اپنا لیڈر بنایا اور اس کے بعد شہر کے ایک تاجر کو، جو جاگیردار سے زیادہ جدت پسند تھامگر اب وہ تاجربوڑھا ہوچکا، وہ کھلاڑی کی فیم کے آگے ماند ہو رہا ہے۔آپ نے سچ کا بُرا منانا ہی ہے، منا لیجیے  مگر ایک دوست کے طور پر بتا رہا ہوں کہ آپ نے خود کو نہ بدلا تو یہ آپ کی آخری حکومت ہوگی۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply